وقت کم ہے ۔جلدی کیجئے . منصورآفاق
دیوار پہ دستک

وقت کم ہے ۔جلدی کیجئے

وقت کم ہے ۔جلدی کیجئے

منصورآفاق

میں نے کسی زمانے میں ایک کہانی لکھی تھی جس کا خلاصہ یہ تھاکہ ’’کیتھی دفتر سے آئی اور بلیک لیبل کی بوتل میں کوئی گولی ڈال کرواپس دفتر چلی گئی ۔شام کواس کا شوہرکلارک گھر آیا اس نے اُس بوتل سے ایک پیک پیا اور بیڈروم میںجاکر سو گیا۔صبح کلارک نے اپنے دوست سے کہاکہ’’ یار رات میں نے خواب میں اپنی بیوی کو کسی اور کےساتھ حالتِ غیر میں دیکھا ہے‘‘۔ دوست ہنس دیا اور بولا ’’تم شروع سے شکی مزاج ہو ‘اگلےدن پھر اس نے دوست سے کہا ’’آج رات پھر میں نے وہی خواب دیکھا ہے ۔‘‘دوست بولا ’’یہ تیرے دماغ کاہی شک ہے ۔جس نے تجھے اس حال میں پہنچا دیا ہے۔‘‘تیسرے دن جب کلارک نے دوست سے پھر اُسی خواب کا تذکرہ کیا تو اس نے کہا ’’میرا خیال ہے تم نیند کی گولی کھا کر سویا کرو ‘‘چوتھے دن کلارک جاگاتو اس نے اپنی بیوی کیتھی سے کہا کہ’’ مسلسل چار دن سے میں ایک ہی خواب دیکھ رہا ہوں ۔آج رات میں نے نیند کی گولی کھائی تھی‘‘ وہ اسے خواب کی تفصیل نہیں بتا تا۔کیتھی کے مشورے پر اسی دن وہ ڈاکٹر کے پاس گیا ۔اسے معاملہ بتایا۔ڈاکٹر نے دوائی دی اور امید ظاہر کی کہ اب ایسا نہیں ہوگا مگر پانچویں رات پھر وہی خواب اس نے دیکھا ۔وہ سوچنے لگا کہ شاید قدرت کی طرف سے کوئی اشارہ مل رہا ہے اسے ۔بیوی سے علیحدگی اختیار کرنے کا ۔ وہ پادری کے پاس گیا اسے تفصیل بتائی۔پادری نے اُسے اپنے انداز میں سمجھایا کہ خواب صرف خواب ہوتا ہے ۔ تم خواب کوبنیادبناکراپنی بیوی کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ وہ پریشان حال گھرواپس آیا دوائی کھائی اور سو گیا۔مگر چھٹی رات بھی اس کی آنکھوں نے وہی خواب دیکھا تو وہ مستقبل کا احوال بتانے والی ایک میڈم سے جاکر ملا۔ میڈم نے اسے کہا’’ مجھے شک ہے کہ یہ خواب نہیں بہرحال تم کسی ماہر نفسیات سے رابطہ کرو۔‘‘۔اگلی رات پھر کلارک نےوہی خواب دیکھا مگر اس مرتبہ خواب میں اس نے اپنی بیوی کے آشناکو قتل کر دیا ۔صبح بیدار ہواتو اسے یاد آیاکہ اس نے ایک سائیکاٹرسٹ سے ٹائم لیا تھا وہ کار میں بیٹھ کر جلدی سے اس کے پاس پہنچ گیا۔اس نے کلارک کے کچھ نفسیاتی ٹیسٹ لئے اور پھر کہاکہ’’ تم جس کوخواب سمجھ رہے ہو مجھے یہ خواب نہیں حقیقت لگ رہی ہے‘‘اس نے حیرت سے پوچھا کہ’’ کیا میں نے سچ مچ اُس شخص کوقتل کر دیا ہے تو ماہرِ نفسیات بولا۔’’ لگتا تو ایسا ہی ہے‘‘۔وہ جب کچھ اور پریشان باہر نکلا تو باہر پولیس اسے گرفتار کرنے کیلئے موجود تھی۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ من حیث القوم وہی ’’کلارک ‘‘ بن چکے ہیں ۔ہم ایک خواب میںرہ رہے ہیں اور ہماری آنکھ جو کچھ دیکھ رہی ہے اسے سچ سمجھنے پر تیار ہی نہیں ۔ پشاور کےا سکول میں بچوں کی بے شمار لاشیں بھی ہماری آنکھ نہیں کھول سکیں ۔بس ایک ذرا سی کروٹ لی ہے اور پھر خواب میں چلے گئے ہیں ۔سانحہ صفورہ ہوا مگروہی حالت رہی ۔سانحہ بڈھ بیر ہوامگر ہم پرکوئی اثر نہ ہوا۔شکار پور میں خود کش دھماکہ ہوا مگرخواب نہ ٹوٹا۔مردان کے نادرا آفس میں قیامت بپا ہوئی مگر ہم اسی طرح حقیقت کو خواب سمجھتے رہے اور چارسدہ میں جو کچھ ہوا اس پر بھی ہمارارویہ پہلا جیسا ہی ہے ۔حکومتی ارکان یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ ہاں اس واقعہ پر بہت افسوس ہے مگر مجموعی طور پر دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی ہے ۔بے شک دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی ہوئی ہے مگر ہم امریکہ کی طرف کیوں نہیں دیکھتے جنہوں نے گیارہ ستمبرجیسا پھر کوئی واقعہ اپنی سرزمین پر نہیں ہونے دیا۔برطانیہ سے مثال کیوں نہیںلیتے جہاںسیون سیون کے بعد کوئی دوسرا واقعہ نہیں ہوسکا ۔ہمیں اپنے لوگوں کے تحفظ کا احساس ہی نہیں وگرنہ کھربوں روپیہ تعمیراتی کاموں پر صرف کرتے ہوئے دس بیس ارب لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کیلئے خرچ کر سکتے تھے مگرلگتا ہے ہماری حکومت کے نزدیک زندگی کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں ہے ۔دہشت گردی میں مرنے والے زیادہ تر عوام ہی ہوتے ہیں اور عوام تو پیدا مرنے کیلئے ہوا کرتے ہیں ۔اب جب یہ بات طے پا گئی ہے کہ دہشت گردی کی جڑیں جنوبی پنجاب تک پھیلی ہوئی ہیں توپنجاب میں رینجرز کوکارروائی کرنے کا کیوں اختیار نہیں دیا جاتا۔ اگر لیہ میں ہونے والے تازہ ترین واقعہ کے بعد بھی یہی کہا جائے کہ پنجاب میں سب اچھا ہے تو یہ تکلیف دہ بات ہوگی۔لیہ میں بے شک تین دہشت گرد مارے گئے ہیں مگر جو تین فرار ہو گئے ہیں ۔انہوں نے یقینا جلد ہی اپنے ساتھیوں کا بدلہ لینے کی کوشش کرنی ہے ۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ لیہ سے کوئی سہولت کار گرفتار نہیں ہوسکا۔لیہ کا قصبہ چوک اعظم جہاں یہ دہشت گرد مقیم تھے ۔ایک چھوٹا ساقصبہ ہے وہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ اس بات کا پتہ نہ چل سکے کہ وہ کس کے گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے انہیں ضروریاتِ زندگی کون فراہم کرتا تھا۔ وہ جو تین فرار ہوئے وہ کس گھر میں جا کر چھپ گئے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ یا توہم سہولت کاروں کو خود تحفظ دے رہے ہیں یا پھر ہماری یہ فورسز اس قابل نہیں ہیں کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کر سکیں ۔جو بھی بات ہے بہر حال اب ضروری ہوگیا کہ پنجاب میں رینجرز تعینات کر دی جائے۔میرا وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کیلئے مشورہ ہے کہ وہ اسے انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور افواج پاکستان کو پنجاب میں دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کرنے دیں اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے ۔اور میری افواج ِ پاکستان کے بڑوں سے درخواست ہے کہ باہر والے ممکن ہے دہشت گردی میں معاون ہوں مگر ان پر الزام لگانے سے پہلے ان نرسریوں کا قلع قمع کریں جہاں سے ہر روز نئی کھیپ نکل رہی ہے ۔ان تربیت گاہوں کا خاتمہ کریں جہاں سے ظلم و بربریت کو رواج مل رہا ہے۔ان دماغوں کو گردنوں سے اتاریں جنہوں نے قوم کے بچوں کو دہشت گردی کا سبق دے رکھاہے۔ان منافق رہنمائوں کا سدباب کریں جو بظاہر دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں مگر بباطن ان کے سہولت کار ہیں اور جلدی کریں کیونکہ وقت بہت کم ہے۔ سازشوں کے جال تیزی سے پھیلتے چلے جارہے ہیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے