دیوار پہ دستک

وزیر اعظم کااستثنیٰ

وزیر اعظم کااستثنیٰ

منصور آفاق

پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں سابق صدر آصف علی زرداری کو آئینی استثنیٰ حاصل رہا ہے۔عدالتِ عالیہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود بھی سوئز بنکوں میں پڑے ہوئے اربوں ڈالر تک رسائی حاصل کرنے کےلئے حکومت سے ایک خط نہیں لکھوا سکی تھی۔حتی کہ اس عمل میں ایک معصوم وزیر اعظم بھی قربان ہوگیا۔اس وقت پانامہ کیس کے روز بہ روز بدلتے ہوئے خدو خال ویسا ہی منظر پینٹ کرتے چلے جا رہے ہیں۔وکیل ِ صفائی نےکورٹ میں وزیر اعظم کے استثنیٰ کا معاملہ چھیڑ دیا ہے کہ صدر کی طرح وزیر اعظم کو بھی آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔چونکہ آئین کے آرٹیکل 66کی شق (1)کے تحت وزیراعظم سمیت کسی بھی رکن اسمبلی کی ایوان میں کی گئی بات کوکسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتااس لئے 63ٹو کے تحت وزیراعظم کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

میرے نزدیک تو یہ صدر اور وزیر اعظم دونوں کا استثنیٰ غیر آئینی ہے۔ کیونکہ آئین کی کتاب کی تمہید میں یہ درج کیا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون جو قرآن و سنت کے خلاف ہوگا وہ اس آئین کا حصہ نہیں بن سکتااور صدر اور وزیر اعظم کےلئے استثنیٰ کا قانون غیر اسلامی ہے۔اسلام میں کسی ایسے قانون کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔یہ استثنیٰ صریحاًقرآن اور سنت سے متصادم ہے۔وضاحت کےلئے دوحوالے درج کرتا ہوں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے پہلے خطبہءِ خلافت میں فرمایاتھا ’’ جب تک میں خدا اور رسول کے احکام پر چلتارہوں تم پر میری اطاعت ضروری ہے اور اگر تم دیکھو کہ میں اس راستے سے ہٹ رہا ہوں تو تم تلوار کے زور سے میری کجی دورکرو اور مجھے سیدھے راستے پر لاؤ اگر پھر بھی میں حق کی راہ پر نہ آیا تو میرے لئے ضروری ہوگا کہ خلافت کا کلاہ اتاردوں ‘‘

ایک بار امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ خطبہ جمعہ کے لئے کھڑے ہوئے، انہوں نے ابھی یہ الفاظ کہے تھے(میری بات سنواور اطاعت کرو) کہ اک شخص کھڑ ا ہوگیا اس نے کہا (وہ نہ ان کی بات سُنتا ہے نہ اطاعت کرتا ہے) امیرالمومنین نے کہا ’’ خیریت تو ہے مجھ سے کونسی خطا سر زد ہوئی کہ آپ بات سننے سے اوراطاعت کرنے سے انکار کررہے ہیں تو اس آدمی نے کہا بیت المال کی طرف سے ہم لوگوں میں جو کپڑا برابر برابر تقسیم ہوا وہ اتنا نہیں تھا کہ ایک آدمی کا کرتا تیار ہوسکے آپ کا قدبھی لمبا ہے اور آپ اس کپڑے کا کرتا پہنے کھڑے ہیں اس کا مطلب ہے کہ آپ نے مساوات کے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے لئے زیادہ کپڑا رکھ لیاتھا ‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا ‘‘اس کا جواب میرا بیٹا دے گا ‘‘ امیر المو منین کے فرزند کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ’’ امیرا لمومنین بیت المال سے سال میں دو دفعہ کپڑا لیتے ہیں ایک سردیوں کا لباس اور ایک گرمیوں کا لباس پھر سال انہی دولباسوں میں گزارتے ہیں اور انہیں پیوندلگاتے رہتے ہیں میں نے دیکھا ان کے کرتے میں بہت سے پیوند لگے ہوئے تھے میں نے بیت المال سے ملنے والا یہ کپڑا جو میرے حصے میں آیا تھا وہ بھی ان کے حوالے کر دیا اس طرح انہیں دو آدمیوں کا حصہ مل گیا تو یہ کرتا تیار ہوگیا وگرنہ ان کا ذاتی حصہ بھی اتنا ہی تھا جتنا سب لوگوں کے حصہ میں آیا یہ جواب سُن کر وہ آدمی پھر کھڑا ہوا اور اس نے کہا اب آپ فرمائیں ہم آپ کا فرمان سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے‘‘تو طے ہوا کہ اسلام میں حکمران کو کسی طرح کا کوئی استثنیٰ حاصل نہیں اس لئے اگر آئین میں ایسی کوئی شق یا قانون موجودہے تو اسے فوراً نکال دینا چاہئے کیونکہ آئین کی بنیاد قرآن و سنت پر رکھی گئی تھی۔

یہ قانون اسلام کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی حقوق کے بھی منافی ہے، انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔تمام شہریوں کو برابری کی سطح پر حقوق حاصل ہیں۔سو صدر اور وزیر اعظم کو حاصل استثنیٰ انسانوں کے عالمی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔یورپ میں اب کسی بھی حکمران کو مکمل استثنیٰ حاصل نہیں رہا۔اور جتنا باقی رہ گیاہے وہ بھی عدالت کے رحم و کرم ہے ترقی یافتہ دنیا میں صرف سفارت کاروں کو کچھ ایسے حقوق ہیں جو اسی قبیل کے محسوس ہوتے ہیں مگر ہیں نہیں۔حقیقت میں کسی بھی سفارت کار کوکوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ سفارت کار اگر کوئی جرم کرے تو اس کی سزا یہ متعین کی گئی ہے کہ وہاں کی حکومت اسے ناپسندیدہ شخص قرار دے کر واپس اپنے ملک بھیج دے۔کسی زمانے میں ترک پارلیمنٹ میں بھی استثنیٰ کا قانون ہوا کرتا تھا۔ وہاں توتمام رکن ِپارلیمنٹ کو یہی استثنیٰ حاصل تھا مگر کچھ عرصہ پہلے وہاں کی پارلیمنٹ نے بھی نئے قانون کی منظوری دیدی جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کو کسی بھی مقدمے میں حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیاہے۔ شاید اس وقت دنیا کے جمہوری ممالک میںپاکستان وہ واحد ہے جہاں حکمرانوں کو اس طرح کا استثنیٰ حاصل ہے۔ امریکہ اور اٹلی کی عدالتوں نے بھی اپنے حکمرانوں کو استثنیٰ سے محروم کر دیا ہے۔ امریکی عدالتوں نے صدر رچرڈ نکسن اور بل کلنٹن کو صدارتی استثنیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جب واٹر گیٹ اسکینڈل میں سپریم کورٹ نے صدر رچرڈ نکسن کے اختیارات محدود کئے تو وہ لوگ جوصدر کے استثنیٰ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ حیران بلکہ پریشان ہوگئے۔ چلی کے صدر اگسٹو پنشٹ پرفراڈ کرنے کے جب الزامات لگے تو وہاں کی سپریم کورٹ نے ان سے استثنیٰ واپس لے لیاتھا۔ دنیا کے بے شمار ممالک کے حکمرانوں کو عدالتیں سزائیں سنا چکی ہیں۔ان کی ایک طویل فہرست ہے جن کے نام ذہن میں محفوظ رہ گئے ہیں۔ان میں اسرائیل کے موشے کاٹیسلو، ارجنٹائن کے صدر جنرل رینالڈو بگنن، تائیوان کے صدر چن شوئی بیان، ڈوگاسکر کے صدر مارک روالومانانا، پیرو کے صدر البرٹو فیوجی موری،رونالڈو کے صدر پاسچر بزیمنگو، فلپائن کے صدر جوزف استرادہ، کوسٹاریکا کے صدر رافیل فورنٹیر، کوریا کے صدور چن دووان،روتائی وو، یورو گوئے کے صدر جوآن ماریا یوروابیری، چاڈ کے حسن ہیبرے، برسیالور یوگو سلاویا کے تین بار صدر رہنے والے سلوبودان میلا سوک،بنگلہ دیشی صدر جنرل محمد ارشاداور فرانسیسی صدر یاک شیراک شامل ہیں۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے