دیوار پہ دستک

نیشنل ایکشن پلان

نیشنل ایکشن پلان

منصور آفاق

ڈاکٹرطاہر القادری نے ایک روز پہلے کہا تھاکہ” آپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کیلئے وفاقی حکومت نے جان بوجھ کر نیشنل ایکشن پلان پر کام نہیں کیا ”اور کل کور کمانڈرز کی ہنگامی میٹنگ میںآرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہہ دیا ہے کہ ”نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت نہ ہونے کے سبب آپریشن ضربِ عضب متاثرہوا ”سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت کیوں نہیں ہوسکی۔وفاقی حکومت کے فنڈ فراہم نہ کرنے کے اسباب کیا تھے ۔کیا موجودہ حکومت میں واقعی کچھ لوگ ایسے موجودہ ہیں جو مکمل طور پر دہشت گردی کا خاتمہ نہیں چاہتے ۔ایسا لگتا تو نہیں ہے ۔لیکن یہ سلگتا ہوا سوال اپنی جگہ پر کھڑا سب کا منہ چڑا رہا ہے کہ جب سے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا ہے وزیر اعظم نے سا نحہ کوئٹہ کے بعداُس کا تقریباًپہلاباقاعدہ اجلاس بلایا ہے ۔کئی ماہ تو کسی کو یاد بھی نہیں آیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر بھی عمل درآمد کرنا ہے ۔اس نا اہلی کی ذمہ داری کسی کو تو قبول کرنا ہوگی ۔یہ کوئی شمسی توانائی کا پلانٹ نہیں تھاکہ اگر نہیں چل سکا تو ایک آدھ آفسر کو تبادلہ کر کے قوم کو مطمئن کردیا جائیگا کہ نااہلوں کو سزا دے دی گئی ہے ۔جیسے آفسر تبادلہ کے بعدآفسر نہیں رہا چپڑاسی بن گیا ہے ۔

آرمی چیف نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ” نیشنل ایکشن پلان کوہمارے مقاصد کی کامیابیوں کے لئے مرکزی حیثیت حاصل ہے اس پر عمل در آمد نہ ہوا تو دہشت گردی جاری رہے گی ” قوم کے ساتھ دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کا وعدہ آرمی چیف خود کیا تھا اگر اس کے خاتمے کیلئے یہ کام ضروری ہے تو پھر اس کی ذمہ داری بھی خود آرمی چیف کو لینی چاہئے ۔یعنی نیشنل ایکشن پلان وزیر اعظم کی بجائے آرمی چیف کے زیرنگرانی کام کرے تاکہ جلد سے جلد اس کے ثمرات حاصل ہوسکیں ۔قوم کا خیال ہے کہ اس کیلئے افواج پاکستان کوکوئی بڑے سے بڑا قدم اٹھاناپڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے ۔کیونکہ قوم کا مستقبل دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔(میرا مطلب ہرگز مارشل لا ء نہیں ہے )

آرمی چیف نے یہ بھی کہا ہے کہ ”پوری قوم اپنی سیکورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ”یہ بیان اس بات کا بھی اظہار کررہا ہے کہ فوج کے خلاف کام کرنے والے عناصر جان لیںکہ قوم ان کے ساتھ نہیں بلکہ افواج ِ پاکستان کے ساتھ ہے ۔یعنی جمہوریت کے نام لیوا وہ افراد جو افواج پاکستان کے خلاف ہیں اور بھارتی فورسز کے حق میں ہیں ۔قوم اُن کے ساتھ قطعاًنہیں ہے ۔یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نظریہ پاکستان کی مخالفت کرنا کیا ملک دشمنی ہے یا نہیں ۔کیا ایسے لوگوں کے اوپر غداری کامقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔پرویز مشرف کے خلاف آئین کی رو گردانی کرنے پر غداری مقدمہ چلایا جا رہا ہے ۔کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ۔کیایہ ملک دشمنی نہیں ۔وہ دشمن جس کے ساتھ چار جنگیں ہو چکی ہیں ۔جو ہمیں تباہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔جو روزنہتے کشمیریوں کی لاشوں کو ٹینکوں تلے روندتا ہے ۔جس نے بلوچستان میں آگ لگائی ۔ وزیرستان میں طالبان کو ڈالرز اور اسلحہ فراہم کیا ۔جب بھارتی فوجی آفسرگلبھوشن پاکستان میںدہشت گردی کی بے شمار وارداتوں کا اعتراف کرچکا ہے تو ایسے میں جو اچکزئی کا بیان ہے کیا کسی قانون کی زد میں آتاہے یا نہیں؟ ۔میرے خیال تو نیشنل ایکشن پلان کے اہداف میں یہ بھی شامل تھا کہ ایسی گفتگو جو دہشت گردوں کے مفادمیں ہو۔ قابل سزا قرار دی جائے گی۔مگراہلیان ِ اقتدار کیلئے اس پر عمل درآمد کیسے ممکن تھا ۔فوجی عدالتوں کا قیام بھی نیشنل ایکشن پلان کاحصہ تھا مگروفاق اورصوبوں کی طرف سے ان عدالتوں میں اتنے کم کیس بھیجے گئے کہ یہ عدالت گاہیں تقریباً ویران ہی رہیں ۔ان عدالتوں میں ابھی تک صرف انہی دہشت گردون کو سزائیں ملی ہیں جنہوں نے ہمارے فوجی بھائیوں کو شہید کیا یا ان کے بچوں کو۔عام شہریوں کو شہید والے دہشت گردوں کو ابھی سزائے موت نہیں دی گئی ۔مسلح گروپوں کے خلاف کوئی واضح کاروائی نہیں ہوئی۔ابھی تک وہ اسی طرح موجودہ ہیں بلکہ ریلیاں نکال رہے ہیں ۔نیکٹا کہیں دکھائی ہی نہیں دی ۔ دہشت گردوں کو فنڈنگ کی فراہمی روکنا بھی اسی پلان کا حصہ تھامگر اس میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوسکا۔غیر ملکی فنڈنگ ابھی دہشت گردوںکو مل رہی ہے ۔اس کے شواہد بھی موجود ہیں ۔اگرچہ سٹیٹ بنک نے بہت سے اکاونٹ منجمد کئے تھے مگرحالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ ابھی تک دہشت گردوں کیلئے ڈالروں کے پھاٹک کھلے ہوئے ہیں اور افغانستان تمام ایسے دہشت گردوں کیلئے جنت بنا ہوا ہے ۔ہاں درود شریف کی محفلوں وغیرہ میں لاوڈ سپیکر کے استعمال پر پھرپور پابندی کرائی گئی۔ہزاروں ایف آئی آر درج کرا دی گئیں ۔مگر لال مسجداور جامعہ حفضہ جیسے اداروں کی طرف کسی نے رخ نہیں کیا ۔شہروں میں چھپے دہشتگردوں کے سلیپر سلز کا خاتمہ بھی نہیں کیا جاسکا،پنجاب میں تمام دہشت گرد تنظیمیں نام بدل بدل کر کام کررہی ہیں ۔اگرچہ یہ بات بہت خوفناک ہے مگر مجھے کہنی ہے کہ ابھی تک افواجِ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے حمایتی بھی موجود ہیں ۔مکمل طور پر وہاںبھی تطہیر کا کام نہیں ہوسکا ۔پچھلے دنوں ایک دہشت گردوں کے حمایت یافتہ مولوی کو فوجیوں کے ایک ادارے میں تقریرکیلئے بلایا گیا ۔ ایسے لوگوں کی نشان دہی کرنا بھی اسی پلان کا کام تھا۔اگرچہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات میں سے صرف آٹھ سست روی کا شکار ہوئے ہیں ۔ بارہ نکات پر بھرپور کام ہوا ہے مگر یہ بات بھی حقیقت کے خلاف ہے کہ کیونکہ جس کام کیلئے اربوں روپے کے فنڈ زکی ضرورت تھی وہاں چند کروڑ دئیے گئے اور چوہدری نثار تو یہاں تک کہہ گئے کہ بیس میں سے پندرہ نکات پر عمل درآمد ہوا ہے ۔ حیرت ہے ممکن ہے آسمانوں سے فرشتے آئے ہوںاور عمل در آمد کردیا ہو۔ بہر حال یہ بات خود آرمی چیف کو کہنا پڑی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان ناکام رہا ہے۔میرے خیال میں عوام بہتر سمجھتے ہیں کہ کون درست کہہ رہا ہے اور کون غلط ۔بہر حال دعویٰ دونوں قوتوں کا ہے کہ قوم ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے ۔اس وقت اپنی کیفیت وہی ہے جیسا کسی شاعر نے کہا تھا کہ” رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں۔۔ ادھر جاتا ہے دیکھیں، یا اِدھر پروانہ آتا ہے”پروانہ پاکستانی قوم ہے اور پروانہ قسمت میں جل جانا ہوتا ہے ۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے