
ناکام خارجہ پالیسی؟
ناکام خارجہ پالیسی؟
منصور آفاق
افغان صدر اشرف غنی نےامرتسر میں اپنی تقریر میں انڈین امداد پر حسب معمول انڈیا کا شکریہ ادا کیا۔ چا بہار کی بندرگاہ کی تعمیر کو افغانستان کیلئے انتہائی اہم اقدام قرار دیا ہے۔ ضرب عضب کوخصوصی مقاصدکےلئے محدود پیمانے پر کیا جانے والا آپریشن قرار دیا۔یہ بھی الزام لگایا کہ افغان طالبان کو پاکستان سپورٹ کر رہاہے -ثبوت میں طالبان کے ایک لیڈر کامبینہ اعتراف بھی پیش کیا گیا۔اس کے بعد پاکستان کی طرف سے 500ملین ڈالر کی امداد کو ٹھکراتے ہوئے یہ کہہ کر باقاعدہ پاکستان کی توہین بھی کی کہ اس رقم کو پاکستان اپنی حدود کے اندر دہشت گردی ختم کرنے میں استعمال کرے (حالانکہ افغانستان یہ رقم پاکستان سے لے چکا ہے ) یقیناً یہ تمام تقریر قابلِ مذمت تھی۔ہمارے بزرگ اور خارجہ کے صلح جو مشیر سرتاج عزیز کو غصہ تو بہت آیا مگر انہوں نے عقل کے کہنے پرضبط سے کام لیا۔بے شک۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان ِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
نجم سیٹھی نے اسی تقریر کوموضوع بناتے ہوئے کہا’’کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔‘‘ بے شک انہوں نے درست کہا مگر انہوں نے معاملےکو گہرائی تک جاکر نہیں دیکھا۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ افغان صدر اشرف غنی اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان سے بہتر تعلقات کےخواہاں تھے۔وہ اس سلسلے میں پاکستان بھی آئے تھے۔وزیر اعظم نواز شریف اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے لمبی ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ وعدے وعیدبھی ہوئے تھے۔لگ رہا تھا کہ بھارت بہت جلد افغانستان سے مکمل طور پر فارغ ہو جائے گا۔یقینا ان دنوں ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے افغانستان اور پاکستان کی دوستی کا ایک نیا دور شروع ہورہا ہے۔ایک نئی تاریخ کی تمہید لکھی جانے لگی تھی کہ اچانک ایک دن اشرف عنی نےاپنا قبلہ تبدیل کر لیا۔یک لخت موسم بدل گیا۔ میرے نزدیک اس تبدیلی کا الزام پاکستان پر لگانا قطعاً درست نہیں۔ممکن ہے کسی حد تک کوئی معمولی سا قصور ہمارا بھی ہو مگر اصل قصہ بس اتنا ہے
کال آتی تھی امریکہ سے
موسم میں تبدیلی ہونی تھی
اس علیحدگی کو اگرحالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہاں پاکستان قصور وار نہیں دکھائی دیتا۔اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ماضی قریب میں دہشت گردی کے جتنے واقعات پاکستان میں ہوئے۔ ان کے نقشِ پاافغانستان کی پہاڑی پگڈنڈیوں پر سلگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔یہ سو فیصد سچ ہے کہ دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات وہیں سے آپریٹ ہوتے تھے اور ہوتے ہیں اور پاکستان نے جب بھی اُن دہشت گردوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تو افغانستان نے فوراً کہا کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے جب ان کے خلاف افغانستان میں خود کارروائی کرنے کا سوچا تو افغان حکومت نے فوراً کہا ’’ہم آپ کو افغانستان میں کسی طرح کی کارروائی کی بھی اجازت نہیں دے سکتے۔پاکستان نے جب دہشت گردوں کو روکنے کےلئے ایک سرحدی راستے پر گیٹ لگانے کی کوشش کی تو افغانستان نے پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ شروع کر دی جس میں ہمارے کئی قیمتی نوجوان شہید ہوئے۔ اس کے ساتھ ا فغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ہر واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی۔ ان تمام باتوں کے باوجودپاکستان افغانستان سے اچھے تعلقات رکھنے کی پوری تگ و دو کرتا رہا۔مگر تعلقات بگڑتے چلے گئے۔ یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی بھی ذاتی طور پر یہی خواہش تھی کہ دونوں برادر اسلامی ملک ایک ساتھ ترقی کی منزلیں طے کریں مگر اقتدار کی قیمت پر ایسی خواہشیں کون پوری کرتا ہے۔دراصل افغانستان میں خارجہ، دفاغ اور فنانس کے معاملے ابھی تک خود افغانیوں کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ وہ تمام ریموٹ سے چلتے ہیں اور وہ ریموٹ سات سمندر پار کے دفتروں میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ کھل کر بات کی جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے معاملات میں کچھ ایسے مدوجزر پیدا ہوچکے ہیں جنہیں واضح طور پر دیکھا نہیں جا سکتا۔صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
طاقت کے تخت پرٹرمپ کی تہلکہ خیز آمد کے بعد تو پاک امریکہ مراسم میں خرابی کے امکانات اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ ابھی تک وزیر اعظم نواز شریف اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والی فون کال اس سارے ماحول میں بالکل اجنبی ہے۔جو ہمارے تو کجا امریکن کے حلق سے بھی نہیں گزر رہی۔ممکن ہے وہ فون کال آنے والے وقت کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو لیکن یہ بھی سچ ہے کہ نواز حکومت امریکہ کی امیدوں پر پوری نہ اتر سکی۔امریکہ کاموجودہ حکومت سےپہلا مطالبہ پاکستان میں لبرل ازم کے فروغ کا تھا جس میں حکومت تقریباً ناکام رہی اور معاملہ یہاں تک جا پہنچا کہ کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کوعوام کے ووٹوں سےایم پی اے بنا دیا گیا۔بہت سے سوال پیدا ہوگئے کہ اسے الیکشن لڑنے کی اجازت کیسے دی گئی وغیرہ وغیرہ۔اس صورت حال میں حکومت نے توازن پیدا کرنے کےلئے بہت غور کیا۔ آخر کار وزیرِ اعظم محمد نواز شریف نے قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہِ طبعیات کا نام ’ڈاکٹر عبدالسلام سینٹر آف فزکس‘ رکھنے کی منظوری دے دی۔ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی شخص تھے جنھیں نوبیل انعام دیا گیا تھا مگر مذہبی دبائوکے سبب ان کے نام سے صرفِ نظر کرلیا جاتا تھا۔
امریکہ کی پاکستان سے دوسری توقع یہ تھی کہ پاکستان بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرے گا۔پاکستان اس کام کےلئے تیار بھی تھا مگر بھارت نے پاکستان سے بہتر تعلقات کےلئے کشمیریوں کی حمایت ترک کردینےکی غیر اعلانیہ شرط سامنے رکھ دی جس پر حالات بہتر ہونے کی بجائے بگڑتے چلے گئے ہیں۔یعنی نواز حکومت امریکہ کی دوسری توقع پر بھی پوری نہ اتر سکی۔امریکہ نواز حکومت سے یہ امید رکھتا تھاکہ اس حکومت کے دور میںفوجی بجٹ میں کمی واقع ہو گی۔مگر دہشت گردی اور کنٹرول لائن پر بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزی کے سبب موجودہ حکومت کےلئے ایسا کوئی عمل بھی ممکن نہیں تھا۔سو میرے نزدیک یہ سب کچھ خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں بلکہ کامیابی ہے کہ پاکستان اپنے مفادات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا۔اس وقت جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان دنیا میں تنہا ہوچکا ہے۔ میرے نزدیک یہ بھی غلط بات ہے کہ اگرامریکہ پاکستان کامکمل طور پر ساتھ نہیں دے رہا تو کیا ہوا۔ چین اور روس جیسی بڑی طاقتیں بھی توپاکستان کے ساتھ کھڑی ہیں۔سی پیک دنیا کو مجبور کر رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کاروباری مراسم بڑھائے جائیں۔
mansoor afaq

