
منظر نامہ کسی وقت بھی بدل سکتا ہے
منظر نامہ کسی وقت بھی بدل سکتا ہے
منصورآفاق
عمران خان نے کہاتھا ’’میں نے پانچ ورلڈ کپ کھیلے لیکن 92جو کہ میرا آخری ورلڈ کپ تھا اس سے پہلے مجھے کبھی نہیں لگا تھاکہ ہم ورلڈ کپ جیت سکیں گے ۔ میں1987 کے بعد کرکٹ سے ریٹائر ہو گیا تھا کرکٹ جو میرا جنون تھا اس کا شوق مجھ میں سے ختم ہوتا جا رہا تھا – لیکن جب مجھے پاکستان کی خاطر واپس آ نے کیلئے کہا گیاتو آگیا۔میں پھر کرکٹ چھوڑنے کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھے شوکت خانم کینسر اسپتال کے بورڈ آف گورنرز کی طرف سے کہا گیا کہ اگر میں نے کرکٹ چھوڑ دی تو اسپتال کے لئے فنڈجمع کرنا مشکل ہو جائے گا – یعنی اس کے بعد میں جتنی کرکٹ کھیلا اس کامقصد صرف اسپتال کی تعمیر تھی اور یہی قوت مجھے آگے بڑھاتی رہی -‘‘
اس وقت نئے پاکستان کی تعمیر عمران خان کا واحد مقصد ہے۔ اس کے ہر عمل کا مقصد صرف اور صرف پاکستان ہے سو یہی قوت یہی جذبہ یہی جنون اسے مسلسل آگے بڑھاتا جارہا ہے ۔یقینا َفیروزمندیاں اور کامرانیاں اس کےقدم چومنے والی ہیں ۔عمران خان کی فتح مندیوں کے انداز کو سمجھنے کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ انہوں نے ورلڈ کپ کس طرح جیتا تھا ۔بے شک ورلڈ کپ کیلئے جو ٹیم سلیکٹ کی گئی تھی وہ کمزور ٹیم نہیں تھی مگرآغاز ہی میں دو میچ ونر کھلاڑی وقار یونس اور سعید انور ٹیم سے باہر ہوگئے تھے ۔ایک اچھی ٹیم میں چار میچ ونر ہوتے ہیں۔اگر کہیں پانچ میچ ونر ہوں تو کمال ہوجاتا ہے ۔سو ورلڈ کپ میں یہ ٹیم تمام پریکٹس میچزہار گئی ۔ پھر سری لنکا سے شکست کھائی ۔پھر سائوتھ افریقہ سےہار گئی ۔یعنی ٹیم وہاں پہنچ چکی تھی جہاں بڑی بڑی ٹیمیں ہاتھ کھڑے کردیتی ہیں عمران خان نے وہاں سے واپسی کاسفر شروع کیااور کرکٹ کی تاریخ بدل دی۔وہ لوگ جویہ سوچ کر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخاب میں تحریک انصاف کی شکست یادو ڈھائی ہزار ووٹوں سے علیم خان کی شکست کا مفہوم یہ ہے کہ اب عمران خان پاکستانی سیاست کا ورلڈ کپ نہیں جیت سکتا تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں یا خود فریبی کا شکار ہیں۔تحریک انصاف جو اس وقت واحد اپوزیشن جماعت ہے ۔وہ کسی بھی وقت ملک کاسیاسی منظرنامہ بدل سکتی ہے ۔ میں نے پی ٹی آئی کو واحد اپوزیشن پارٹی اس لئے کہا کہ اسپیکر کے انتخابات میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ باقی تمام پارٹیاں دراصل نون لیگ کی ہی ایک مختلف شکل ہیں اور تو اور اس مرتبہ ایاز صادق کیلئے پرویز الہٰی بھی ووٹ مانگتے پھرتے تھے۔ خود پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر نے مجھ سے کہا کہ ایک سو بائیس پر ہمارے دو امیدوار تھے۔ ایک بلاول بھٹو کو دکھانے کیلئے لڑا رہے تھے اور دوسرا آصف زرداری کی طرف سے جیتنے کیلئے تھا اور وہی جیتایعنی ایاز صادق۔ ایاز صادق پھر اسپیکر بن گئے ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ عمران خان ا ب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ پھر دھاندلی ہوئی ہے اس لئے ایاز صادق زیادہ دیر تک اسپیکر نہیں رہ سکیں گے ۔بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے درمیان بہت سے معاملات پر بالکل وہی صورت احوال ہے جوتا ثر ہے کہ افواج پاکستان اور موجودہ حکومت کے بیچ ہے ۔یعنی دونوں ایک پیج پر ہیں بھی اور نہیں بھی ۔آصف زرداری چاہتے ہیں کہ پنجاب کو مکمل نون لیگ کے حوالے کردیا جائے اور پیپلز پارٹی کوسندھ اور باقی صوبوں میں مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے ۔جبکہ بلاول بھٹو کا خیال ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کا وجود پنجاب میں زندہ نہیں رہے گا تو وہ ملک میں کبھی دوبارہ اقتدار حاصل نہیں کرسکے گی۔ اس کے برعکس آصف زرداری آئندہ حکومت نون لیگ کے ساتھ مل کر بنانا چاہتے ہیں ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ جب تک پیپلز پارٹی سے آصف زرداری کا سایہ مکمل طور پر اٹھ نہیں جاتا ۔اس وقت تک اِس پارٹی کے مردہ جسم میں جان نہیں پڑ سکتی مگر بلاول بھٹو کیلئے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آصف زرداری ان کے والد ِ محترم ہیں ۔ کچھ لوگوں نے بلاول بھٹو سے کہا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جس طرح اپنی والدہ محترمہ نصرت بھٹو سے پیپلز پارٹی واپس لے لی تھی بالکل اسی طرح وہ بھی اپنے والد سے اپنی پارٹی کو مکمل طور پر واپس لے لیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلاول بھٹو اگر فیصل کریم کنڈی اورندیم افضل چن جیسے بے داغ لیڈروں کو سامنے لائیں اور خورشید شاہ اور قائم علی شاہ جیسے اپنے بزرگوں سے رہائی حاصل کرلیں توعین ممکن ہے کہ پارٹی کی رگوں میں خون دوڑنے لگے لیکن ان سے بھی زیادہ ضروری بات پیپلز پارٹی کیلئے پالیسی کی تبدیلی ہے ۔پیپلز پارٹی اگر نون لیگ کو چھوڑ کر تحریک انصاف کے قریب آتی ہے تو دوبارہ زندہ ہوجائےگی ۔اس بات سے کسی موسم شناس کوانکار نہیں کہ مستقبل قریب میں تحریک انصاف کی حیثیت اُس پارس کے پتھر کی ہوگی جس کے چھو لینے سے چیزیں سونا بن جایا کرتی ہیں ۔بلاول بھٹو کے پاس فیصل کریم کنڈی ایک ایسی طاقت ہے کہ اگر بلاول بھٹو اِس طاقت کا درست استعمال کرلیتے ہیں تو انہیں پنجاب اور صوبہ پختون خوا میں حیرت انگیز کامیابیاں نصیب ہونگی ۔میں فیصل کریم کنڈی کو ذاتی طور پرجانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتو ں سے نوازا ہے ۔وہ جہاں بڑے سے بڑے سیاسی خاندان کو دوبارہ پیپلز پارٹی میں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہاں سڑک پر جوتے پالش کرنے والے بچے کو اٹھا کر اپنی چھاتی سے لگا نے کی ہمت بھی رکھتے ہیں۔ انکے دامن میں سینکڑوں لٹے پٹے خاندان اب بھی عزت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ویسے میرے نزدیک تو فیصل کریم کنڈی جیسے لوگوں کو تحریک انصاف میں ہونا چاہئے۔

