
مشورے کا شور
مشورے کا شور
منصور آفاق
عطاالحق قاسمی اور مجیب الرحمن شامی دو دن پہلے لندن میں نواز شریف سے ملے ۔عوامی بیان یہ ہے کہ عیادت کےلئے آئے ۔خصوصی ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں مشورے کےلئے بلایا گیا تھا ۔یہ تو خیر سب کو معلوم ہے کہ ان حالات میں وزیر اعظم نواز شریف کو کس بات کا مشورہ چاہئے ۔ان دو بزرگوں کی لندن میں مشورے کےلئے آمد سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف مسلسل تذبذب کی کیفیت میں ہیں ۔انہیں مشکل فیصلوں کا سامنا ہےجہاں تک دونوں بزرگوں کے مشورے کی بات ہے تو عطاالحق قاسمی مزاجاً صلح جُو آدمی ہیں ۔حقائق سے آنکھیں چراتے نہیں ہیں بلکہ انہیں تسلیم کر کے آگے بڑھنے کا راستہ نکالتے ہیں ۔یقیناً ان کا مشورہ ٹکرائو سے اجتناب کا ہوگا ۔مجیب الرحمن شامی انتہائی دانشمند تصور ہوتے ہیں اور سیاست کو بہت سمجھتے ہیں ۔سووہ عطاالحق قاسمی کے بالکل برعکس بھی مشورہ دے سکتے ہیں ۔میں اس بات پر وزیر اعظم نواز شریف کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے مشورے کےلئے اتنی اہم شخصیات کو بلایا ہے ۔میرے خیال میں اگرکچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم اپنے بیوروکریٹس کو چھوڑ کر انہی بزرگوں سے مشورہ لے لیتے تو حالات اتنے دگرگوں نہ ہوئے ہوتے ۔ایک خوبصورت نثر لکھنے والے بزرگ بھی انہوں نے میڈیا سے ادھار لے کر اپنے پاس رکھے ہوئےہیں جس کے سبب حکومت کے ساتھ اردو ادب کو بھی خاصا نقصان ہورہا ہے ۔
وزیر اعظم کو مشورے دینے کےسلسلے میں وزیر اطلاعات پرویز رشید بھی بہت مشہورہیں ۔گزشتہ دنوں جب وہ خورشید شاہ سےجھک کر مل رہے تھے توان کے اِس طرح جھک کر ملنے پر بلاول زرداری کا تبصرہ مجھے اچھا نہیں لگا۔ میں تو بچپن سے یہی سنتا آیا ہوں جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں ۔صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہےپیمانہ ۔اب مجھے یہ معلوم نہیں پرویز رشید ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں یا انہوں نے یہ خوبصورت عادت اب اپنائی ہے ۔ویسے انہوں نے کہا تو یہی ہے کہ میری تربیت ہی کچھ ایسی ہوئی ہے میں سب سے جھک کر ملتا ہوں ۔ویسے بھی وہ الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کے تقرر کے سلسلے میں خورشید شاہ سے مشورہ کرنے گئے تھے ۔یار لوگوں نے یونہی یہ افواہ پھیلا دی کہ وہ پانامہ لیکس کے ڈیڈلاک کے خاتمے کےلئے کچھ مشورے دینے گئے تھے ۔وزیر اطلاعات پرویز رشید کو ایک اوربات پر بھی میرا مبارک باد دینے کو جی چاہ رہا ہے کہ انہوں نے پی ٹی وی پرشوکت خانم اسپتال کے ڈاکٹر فیصل سلطان کو خاصا وقت دیا۔یہ بالکل نئی بات ہے وگرنہ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے پی ٹی وی پر عمران خان کو بھی وقت دینے سے انکار کردیا تھا ۔لگتا ہے وزیر اطلاعات کو بھی کچھ اچھے مشورے دینے والے میسر آگئے ہیں ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی قسمت میں اچھے مشورے دینے والے لوگ نہیں آئے ۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں ۔دیکھئے ان کے مشیروں کے مشوروں کے سبب پنجاب کا بجٹ کتنا اچھا دیا گیاہے ۔بجٹ پرکسی شوخ نے تبصرہ کیا ہے کہ انتخابی سال کے بجٹ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ۔ویسے کچھ دنوں کے لئےاگر وزیر اعظم وزیراعلیٰ پنجاب سے ان کے مشیر ادھار لے لیں تو ممکن ہے الجھے ہوئے معاملات سلجھ جائیں ۔ ویسے اب بہت دیر ہوچکی ہے ۔منیر نیازی یاد آگئے ہیں ۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں… ہر کام کرنے میں …ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو…اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو ۔۔۔ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں…مشورے کا حکم تو خدا نے بھی دے رکھاہے کہ اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کرلو توخدا پر بھروسہ کرو۔بلا شبہ خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ خدا پربھروسہ کیا جاتا ہے یا نہیں ۔مشورہ پر ریاض مجید ایک شعر یاد آ گیا ہے ۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس شعر سے موجودہ سیاسی مشوروں کا کوئی تعلق نہیں ۔
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
مشورہ تو مولانا فضل الرحمن نے بھی وزیراعظم نواز شریف کو دیا تھا مگر وہ بن مانگا مشورہ تھا۔ سو وزیراعظم نے لینے سے انکار کردیا۔ غیرضروری چیزیں پاس نہیں رکھنی چاہئیں۔ یہ بالکل ویسا ہی مشورہ تھا جیسا ڈاکٹر عاصم حسین نے جناح اسپتال کے کسی کمرے میں بیٹھ کر وزیراعظم کو اپنی آٹو بائیو گرافی لکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ سنا ہے سابق صدر آصف زرداری اپنی آٹو بائیو گرافی لکھنے کے لئے لندن سے واپس دبئی پہنچ گئے ہیں اور اسے مکمل کرنے کےلئے کسی وقت بھی پاکستان آ سکتے ہیں ۔
وزیر اعظم نواز شریف کو اصل مشورہ تو جنرل راحیل شریف سے مانگنا چاہئے ۔میرے نزدیک نواز شریف کا ان سے زیادہ خیر خواہ اور کوئی نہیں ۔پتہ نہیں وزیر اعظم اپنے آرمی چیف سے مشورہ کیوں نہیں مانگ رہے ۔خاص طور پر امریکہ سے تعلقات کی مکمل خرابی کے بعد تو بہت ضروری تھا کہ وہ آرمی چیف سے پوچھتے کہ اب خارجہ پالیسی کے رہنما اصول کیا ہونگے ۔یہ مشورہ بھی بڑا ضروری تھی کہ افغان بارڈر جو سلگنے لگا ہے ۔اگر اس کے پس منظر میں امریکہ کے ساتھ مراسم کا مسئلہ ہے تو اسے کس طرح حل کرنا ہے ۔یہ ساری باتیں بڑی ضروری ہیں اور ٹیلی فون پر نہیں کی جا سکتیں ۔پھروزیر اعظم نواز شریف پاکستان کےوزیر خارجہ بھی ہیں ۔ انہوں نے اسی لئے یہ وزارت اپنے پاس رکھی تھی کہ وہ جانتے تھے کہ خارجہ پالیسی کو صرف سرتاج عزیز پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کہتے ہیں سب سے زیادہ مشورے بیمار آدمی کو دیئے جاتے ہیں۔ ہر شخص اپنی حکمت مریض پر آزمانے کا خواہش مند ہوتا ہے اس وقت پاکستان کی حالت بھی اسی مریض جیسی ہے اور ہرکوئی چاہتا ہے کہ اس مریض کا علاج میری تجویز کردہ دوائی سے کیا جائے۔

