مدرسہ حقانیہ کے تیس کروڑ. منصور آفاق
دیوار پہ دستک

مدرسہ حقانیہ کے تیس کروڑ

مدرسہ حقانیہ کے تیس کروڑ

منصور آفاق

مجھ سےعمران خان کے ایک دوست اور ملک کےاہم ترین کالم نگار نے کہا’’افواج پاکستان نے گانا بنایا ‘ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے. پختونخوا حکومت نے لبیک کہا اور 30 کروڑ دارالعلوم حقانیہ کے لئے مختص کر دئیے۔مولانا سمیع الحق کی خیر ہو ۔سوچتا ہوں اس رقم سے اب کتنے اور طالبان ِ اسلام تیار ہونگے ۔ایک طالب پر ایک لاکھ خرچ کیا جائے تو ہماری قسمت میں زیادہ نہیں صرف تین ہزار طالبانِ اسلام آئیں گے ۔عمران خان نے اسلام کی جو یہ خدمت کی ہےاسے یقینا ً ہماری آنے والی نسلیں آسمان کی چھاتی پر اپنے لہو سے لکھیں گی۔ آنے والی نسلوں تک ممکن ہے معاملہ نہ پہنچے ۔ہمیں ہی اپنے لہو سے یہ کام سر انجام دینا پڑے۔(ذرا سا سانس لیا اور پھر کہنے لگے )مجھے حیرت ہے شاہ محمود قریشی پر کہ تحریک انصاف میں اس کی موجودگی میں اتنا بڑا ظلم ہوا ہے۔عمران خان کو انہوں نے مولانا سمیع الحق کی شخصیت اور نظریات کے بارے میں کچھ نہ بتا کر صرف تحریک انصاف کے ساتھ ظلم نہیں کیا ہے بلکہ پوری قوم کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا ہے ۔لوگ پریشان ہیں کہ کیا واقعی عمران خان کے دل میں طالبان کےلئے ہمدردی کا جذبہ موجود ہے ۔ میں خود حیران بلکہ پریشان ہوں کہ یہ کیا ہوا ہے۔عمران خان ایسا نہیں ہوسکتا ۔ نہیں نہیں ۔ عمران خان کو میں اُس صف میں کھڑا نہیں کر سکتا جس میں سمیع الحق کھڑا ہے ۔ مگرکیا کروں ۔معاملہ ہی کچھ ایسا ہے۔یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نےاقتدار کےلئے انگریزوں کی ہمنوائی میں سکھوں سے جنگیں لڑیں ۔ریشمی رومال تحریک بھی انہی کی تھی اور اب طالبان کی شکل میں یہاں خونی انقلاب لانے کی تگ و دو میں تھے جسے افواج پاکستان نے تقریباً اپنے انجام تک پہنچا دیا ہے ‘‘

میں نے پوچھا ’’ آپ نے خود عمران خان سے اس معاملےمیں بات نہیں کی ‘‘کہنے لگے’’ کی ہے ۔کالم بھی لکھا ہے مگر وہ اپنی بات پراڑا ہوا ہے ‘‘میں نے کہا ’’توچلیں پھر میں آپ کو بتا تاہوں کہ وہ اپنی بات پر کیوں اڑے ہوئے ہیں ۔وہ جو کچھ آپ کو دکھائی نہیں دے رہا ممکن ہے اُس کے بعد نظر آنے لگے‘‘۔ بڑے تلخ لہجے میں بولے ۔ ’’ بولو ۔کیا یہ تم ثابت کر سکتے ہو ۔دہشت گردی میں ملوث سینکڑوں افراد اسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔‘‘میں نے کہا ’’آپ سنیں گے تو میں بات کروں گا ‘‘اور پھر وہ کرسی پر پیچھے ٹیک کر آرام سے بیٹھ گئے اور بولے ’’چلو تم بتائو اس نے ایسا کیوں کیا ‘‘اور میں نے یوں بات شروع کی ۔

’’میرے خیال میں عمران خان نے یہ فنڈنگ دہشت گردی کے خاتمے کےلئے کی ہے ۔اس ادارے کے طلبہ کو معاشرے کا حصہ بنانے کےلئے کی ہے انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کےلئے کی ہے۔ انھیں بنیاد پرستی سے دور رکھنے کے لئے کی ہے۔انہیں اُن علوم سے روشناس کرانے کےلئے کی ہے جوبند دماغوں کی کھڑکیاں کھولتے ہیں۔وہاں جب ہر طالب علم کےلئے انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہوگی تو اس کی آنکھوں میں روشنی آئے گی ۔وہ جب خوبصورت دنیا کو دیکھے گا تو غور کرے گا کہ ان کی زندگیوں میں خوبصورتیاں کیسے آسکتی ہیں ۔وہاں کے طالب علم جب مذہبی علوم کے علاوہ دوسرے علوم بھی پڑھیں گے توصان کے ذہن میں وسعت پیدا ہوگی اور اس مدرسے میں پڑھ کردہشت گرد نہیں سچے اور کھرے پاکستانی بنیں گے ۔جہاں تک مولانا سمیع الحق کے نظریات کا تعلق ہے تو وہ قطعاً دہشت گردی کے حق میں نہیں ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حمایت کرتے ہیں مگر تحریک طالبان پاکستان کے مخالف ہیں ۔ولی خان نے بھی اس مدرسے کا دورہ کیا تھا۔ امریکی سفیر بھی اس مدرسہ میں مولانا سمیع الحق سے ملنے گیا تھا اگر یہ مدرسہ اور مولانا سمیع الحق کا تعلق واقعی دہشت گردوں سے ہوتا تو ابھی ضرب عضب انہیں ختم کرچکا ہوتا ۔جہاں تک افغانستان میں طالبان کی حمایت کی بات ہے تو وہ بڑی بحث طلب ہے۔مولانا سمیع الحق پڑھے لکھے آدمی ہیں۔پختون خوا میں انسداد پولیو مہم میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا اور ایسے وقت میں کیا تھا جب طالبان نے باقاعدہ پولیو ورکرزکو قتل کرنا شروع کردیا تھا ۔لیکن ان سب باتوں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عمران خان پورے پختون خوامیں ایک تعلیمی نظام رائج کرنا چاہ رہے ہیں ۔ گورنمنٹ اسکولوں کےلئے پرائیویٹ اسکولوں کےلئے اور مدارس کےلئے ۔ یہ فنڈنگ اسی سلسلے کاایک آغاز ہے کہ پہلے بڑے بڑے مدارس کو اس سطح پر لے آیا جائے جہاں انہیں کالج یا یونیورسٹی کا باقاعدہ درجہ دیا جاسکے اور اس میں وہ علوم پڑھائے جاسکیں جو دوسرے سرکاری اداروں میں پڑھائے جاتے ہیں ۔اسی بجٹ میں پختونخوا حکومت نے ابتدائی طور پر سو مدارس کو پرائمری اسکول میں ڈھالنے کا بھی اعلان کیا ہے ۔مجھے پورا یقین ہے کہ یہی تیس کروڑ روپے اس مدرسہ میں دہشت گرد بنانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہونگے ۔‘‘

میری لمبی گفتگو سن کر انہوں نے کہا ’’تم نے جو کچھ کہا ہے اس میں اگرچہ کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے مگرمیں سمجھتا ہوں کہ یہ عمران خان کا بہت غلط فیصلہ ہے ۔دہشت گرد اچھے یا برے نہیں ہوتے ۔وہ دہشت گرد ہی ہوتے ہیں ۔یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ دہشت گرد افغانستان تو مجاہدین اسلام ہیں مگر پاکستان میں واجبِ القتل ہیں ۔میں ایسی باتیں نہیں مانتا ‘‘میں نے ہنس کر کہا ’’آپ تو اسٹبلشمنٹ پاکستان کے بڑے حق میں ہیں ۔یہ فارمولا صرف مولانا سمیع الحق کا نہیں کسی حد تک اسٹبلشمنٹ کا بھی ہے ۔ان کے بھی تو کچھ طالبان سے اچھے مراسم ہیں جس کے سبب وہ انہیں مذاکرات کی میز پر لے آتے ہیں ۔ابھی ملا منصور پر ہونے والے ڈرون حملے پر پاکستان کے احتجاج کی وجہ بھی یہی تھی وگرنہ ڈرون حملے تو ایک عرصہ سے ہوتے چلے آ رہے ہیں ۔‘‘۔کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگے ’’یار بڑی امیدیں ہیں جنرل راحیل شریف سے ۔چھوڑو یہ بتائو ۔عمران خان کے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کتنے نون لیگ نے خرید رکھے ہیں ۔یہ اپنے اسحاق ڈار دو دن پہلے آدھی رات کو جنوبی پنجاب سے منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے نامور ایم این اے اور لیڈرکے گھر کیا لینےگئے تھے ‘‘میں نے بڑی تکلیف سے کہا ’’آپ اب حد سے بڑھتے جارہے ہیں ۔لگتا ہے عمران خان سے آپ کی لڑائی ہوچکی ہے ۔‘‘وہ ہنس پڑے اور بولے ’’جب الیکشن کمیشن ختم ہوا تو پہنچ گئے نواز شریف کے خلاف پٹیشن لے کر ۔چلو عید کے بعد دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہےکنٹینر کہاں کھڑا ہوتا ہے اور اس پرکون کون جلوہ گر ہوتا ہے ۔‘‘

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے