
مارشل لا کے لمبے سائے
مارشل لا کے لمبے سائے
منصور آفاق
اپنے مزاج پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی زمانے میں کہا تھا
اس نے پہلے مارشل لا میرے آنگن میں رکھا
میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا
میں جب پیدا ہوا تھا تو ایوب خان نے مارشل لا لگا رکھا تھاپھر یحییٰ خان نے لگا دیاپھر ذراساجمہوریت کا دور دیکھاتو ایک اور مارشل لا پاکستان کی تاریخ میں مدو جزر پیدا کرنے لگا۔گویامیں بڑے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ تیغوں یعنی سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہوا ہوں۔میری آنکھ ٹکٹکی پر لگتے ہوئے کوڑوں کے شور میں کھلی ہے ۔خوف زدہ ذہن نے علامتوں اور استعاروں کی زبان سے بات کرنا بچپن ہی سے سیکھ لیا تھایعنی مارشل لائوں سے تعلق اپنی سائیکی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اس کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں ۔ہم برصغیر کے مسلمانوں کے زیادہ تر ہیروزسپہ سالا ر ہی ہیں ۔ محمد بن قاسم ، محمود غزنوی ، ظہیر الدین بابر ،تاریخ اسلام کے زیادہ تر بادشاہ سپہ سالار ہی تھے ۔وہ مسلمان جو جمہوریت کو غیراسلامی سمجھتے ہیں کہ ان کے نزدیک تو اسلامی نظام ِ حکومت مارشل لا ہی ہے ۔ میں نے نعت کا ایک شعر کہا تھا
سلام اُس پر کہ جو جمہوریت کا دین لایا تھا
جو لوگوں کی بھلائی کیلئے لوگوں میں آیا تھا
اِس شعر پر کچھ علمائے کرام کے ماتھے تیغ تیور ہوگئے۔ کچھ احباب سے خاصی ہوئی ۔ میں نے بہت سمجھایا کہ دنیا میں جمہوریت کا آغازاسلام نے کیا ہے مگر یہ احمد شاہ ابدالی اور غلام قادرروہیلہ کے ماننے والے میری بات کہاں سنتے ہیں۔
جمع ہوجاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں
برف کے لوگ مری بات کہاں سنتے ہیں
اس وقت پاکستان میں مارشل لا کی بحث ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت سے شروع ہوئی ہے جسے عوام نے ناکام بنا دیا ۔ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی کی وجہ دراصل ترکی پر یورپ کے اثرات ہیں ۔پچھلے ستر اسی سال سے جہاںمارشل لائوں کے سائے میں صرف یورپی تہذیب و ثقافت کو پنپنے کی اجازت تھی ۔ جہاں تک عربی زبان نہیں پڑھی جا سکتی تھی عربی میں اذان دینا ممکن نہیں ہوتا تھا ۔یہ اُس قوم کا فیصلہ تھااگرچہ اب تو وہاںاسلام آزاد ہے مگر اس آزادی کو کچھ عرصہ نہیں ہوا۔سو ترکی کے عوام پر خود کو گمان نہ کیا جائے ۔باقی مسلمان ممالک کو دیکھا جائے جہاں مسلسل مارشل لاء یعنی بادشاہت مسلط ہے۔عمران خان کا یہ بیان کہ پاکستان میں مارشل لاء لگا تو لوگ مٹھا ئیاں تقسیم کریں گے ۔ یہ صرف پاکستانیوں کا نہیں ہم مسلمانوں کا مزاج ہے ۔جمہوریت ہمارا مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ عراق ، شام اور کابل کے معاملات پر گہری نظر ڈالی جائے تو یہی اطلاعات باہر نکلنے لگتی ہے کہ شاید ہم جمہوریت پر ایمان نہیں رکھتے ۔اس سلسلے میں ہمارا مسلک چمکتی ہوئی تلواریں اور لاشوں کو روندتے ہوئے گھوڑے ہی رہے ہیں ۔جمہوریت پر ایمان ہم مسلمانوں کے علاوہ ڈیڑھ ارب چینی بھی نہیں رکھتے ۔کسی زمانے میں پورا سوویت یونین نہیں رکھتا تھا ۔اپنے علامہ اقبال اس کے خلاف تھے کہتے تھے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
بلکہ اقبال تو یہاں تک چلے گئے ہیں
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
جمہوریت کے حوالے سے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوریت دراصل سرمایہ داری اور جاگیرداری کے غلبے کو مستحکم کرتی ہے ۔ کچھ لوگوں کو اسلامی جمہوریت کی اصطلاح بھی اجنبی لگتی ہے ۔ان کے نزدیک یہ لفظ ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔کچھ لوگ جمہوریت کو مانتے ہیں مگر پارلیمانی نظام غیر اسلامی قرار دیتے ہیں ۔انہیں صدارتی نظام اسلام کے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر مسلمانوں کے نزدیک مارشل لاء عین اسلامی نظام ِ حیات ہے ۔اسی لئے جب کبھی ملک میں مارشل لا ء لگایا جاتا ہے تو مساجدمیں علمائے کرام اس کیلئے دعائیں کرتے ہیں ۔سیاستدان شیروانیاں سلوانے لگتے ہیں۔ہر شعبہ ء زندگی میں نئی ترنگ محسوس ہوتی ہے۔عام لوگ مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں ۔جیسے ملک میںواقعی وہ نظام آگیا ہے جو عوام کی خواہشات کے مطابق ہے ۔عوام کی اس سوچ کوزیادہ پختہ جمہوری حکومتوں نے خود کیا ہے ۔پہلی جمہوری حکومت ذوالفقار علی بھٹوکی تھی جس نے پانچ سال پورے کئے تھے ۔مگراس جمہوریت کے خلاف نو ستاروں طلوع ہوئے اور بے حیا ، جنرل ضیا جنرل ضیا کے نعرے لگا لگا کر ملک کو دوسرے مارشل لا کے حوالے کر دیا ۔ اس کی وجہ اس دورِ حکومت کی کچھ خرابیاں بھی تھیں ۔اس کے بعد پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتیں آئیں مگر اپنے کار ہائے نمایاں کے سبب پویلین لوٹ گئیں ۔اس کے بعد پھر جنرل پرویز مشرف کی آمد پر ملک بھر میں مٹھائیاں تقسیم ہوئیں۔جمہوریت کے بڑے بڑے علمبردار ان کی حکومت کومستحکم کرنے کیلئے دن رات مصروف رہے۔قومی اسمبلی کی عمارت مارشل لا ء زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی ۔ان لوگوںمیں سے زیادہ ترلوگ تو اس وقت نون لیگ کے ساتھ ہیں بلکہ حکومت میں ہیں ۔اس وقت بھی اگر مارشل قانون کا نفاذ ہوجاتا ہے تو چند ایک سیاست دانوں کو چھوڑ کر باقی تمام مارشل لا کے گن گا رہے ہونگے ۔ نواز شریف ،عمران خان اور بلاول بھٹو کے ساتھ کسی میز پر بیٹھ کر یہ سوچ رہے ہونگے کہ کیا ایسے کریں کہ وردی میں ملبوس صدر مملکت کی حمایت یافتہ قاف لیگ اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
mansoor afaq

