لیک سے فیڈ تک۔ منصورآفاق
دیوار پہ دستک

لیک سے فیڈ تک

لیک سے فیڈ تک

منصور آفاق

چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفر نس کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مفروضے کے طورپرایک بات کرتا ہوں کہ کل خدا نخواستہ میں آپ میں سے کسی کو بلائوں اور کہوں کہ ایک میٹنگ ہوئی ہے جس میں فیصلہ ہوا ہے کہ چونکہ پاکستان سخت اکنامک پریشر میں ہے ۔اس لئے ہم اپنے نیوکلیئر نالج بیچیں گے توکیا آپ بحیثیت پاکستانی یہ نہیں سوچیں گے کہ اگرمیں اس خبر کو شائع کرتا ہوں توپاکستان کےلئے کیا مسائل پیدا ہوں گے۔‘‘

میں نے جب سے یہ جملہ سنا مسلسل یہی سوچے جا رہا ہوں کہ وزیر داخلہ کے ذہن میں کچھ فروخت کرنے کا مفروضہ کیوں آیا۔اور پھر فروخت کرنے کے حوالےسے سوچ ’’نیوکلیئر ‘‘کی طرف کیوں گئی۔ مفروضے کے طورپر یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ اکنامک پریشر کو کم کرنے کےلئےہم نے ’’یادگار ِ پاکستان ‘‘فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ شالاماباغ یابادشاہی مسجد گروی رکھنے کی بات کر سکتے تھے ۔ صدر ہائوس یا قومی اسمبلی فروخت کرنے کا مفروضہ بھی سوچا جاسکتا تھا ۔موٹر وے تو خیر ہم گروی رکھ چکے ہیں ۔پھر ایسے وقت پر جب وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحق ڈار کہہ رہے ہیں کہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح 24.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔اور ہمارے وزیر داخلہ کومفروضہ بناتے ہوئے یہ خیال آرہا ہے کہ پاکستان سخت اکنامک پریشر میں ہے ۔

اس مفروضے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سرل المیڈانے جو خبر دی تھی وہ غلط نہیں تھی لیکن ملک کے مفاد کےلئے اسےیہ خبر شائع نہیں کرنی چاہئے تھی جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور میٹنگ کے دوسرے شرکا اس خبر کی تردید کرچکے ہیں کہ اُ س میٹنگ میں ایسی بات نہیں ہوئی ۔وزیر داخلہ نے بار بار خبر کے لیک ہونے کےا لفاظ استعمال کئے ۔ اور کہا ’’ جس نے بھی یہ خبر لیک کی ہے اسے کٹہرے میں لانا ہے ‘‘۔لیک ہونے کا مفہوم یہی ہے کہ اُس میٹنگ میں یہ بات ہوئی تھی مگر اسے میڈیا تک نہیں پہنچناچاہئے تھا۔یہی بات اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی کہی کہ یہ خبر تو ٹھیک تھی مگر لیک نہیں ہونی چاہئے تھی۔ افواج پاکستان کو باقاعدہ اس سلسلہ میں وضاحت کرنا پڑی کہ یہ خبر لیک نہیں ہوئی بلکہ ایک غلط خبر فیڈ کی گئی ہے اور قومی سلامتی کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ اچھی بات ہے وزیر داخلہ نے سرل المیڈا کا نام ای سی ایل سے نکال دیا ہے۔اُس کا نام شامل ہی نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ کسی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی ذمہ داری صرف رپورٹرپر نہیں ڈالی جاسکتی۔جہاں تک ذہن میں بیچنے کے مفروضے کے جنم لینے کا تعلق ہے تو ایسا ہمیشہ کاروباری لوگ سوچتے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ اس حکومت میں وزیر داخلہ ہی وہ اہم ترین وزیر ہیں جو بزنس مین نہیں ہیں مگرلگتا ہے ان پر بھی تاجرانہ سوچ حاوی ہوتی جارہی ہے ۔ویسے کاروبار کرنا اچھی بات ہے ۔مگر عنانِ اقتدار کو سنبھالنے کے بعد کاروبار کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

اب آتے ہیں موٹر وے کو گروی رکھنے کے معاملہ پر۔ اگر وہ کسی پاکستانی کے پاس رکھی گئی ہوتی تو میں قطعا اس بات کو برا نہ سمجھتا لیکن بحیثیت پاکستانی یہ گوارا نہیں کرسکتاکہ کسی غیر ملکی ادارے کے پاس ہم اپنی زمین کا کوئی بھی ٹکڑا گروی رکھ دیں۔خاصی پرانی بات ہے۔ یہودیت کےبڑے بڑے لیڈروں نے عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید دوم سے درخواست کی تھی کہ یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں خریدنے کا حق دے دیا جائے مگرخلیفہ نے انکار کر دیاتھا۔وہ اپنی یاد داشتوں میں لکھتے ہیں کہ’’ ان کی ملی غیرت نے گوارا نہیں کیا تھاکہ وہ یہودیوں کو یہ موقع فراہم کریں۔ ‘‘جب فلسطین برطانیہ کے قبضے میں گیا تو وہ قانون منسوخ کر دیا گیا جس کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے اور سکونت اختیار کرنے سے روکا گیا تھا۔ اس کے بعد دنیا بھر سے یہودی وہاں آنا شروع ہوگئے اور فلسطین میں زمینیں اور مکانات خریدنے لگے۔اگرچہ اس سلسلے میں مفتی اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینیؒ نے باقاعدہ فتویٰ جاری کردیا کہ فلسطین کی زمین یہودیوں کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ نے بھی اس فتویٰ کی تائید کی تھی مگر اس فتویٰ کے باوجود فلسطین میں یہودیوں کو زمینوں اور مکانات فروخت ہوتے رہے۔

صرف اتنا فرق آیاکہ زمینوں کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں مگر یہودی دنیا بھر سے وہاںمسلسل آتے رہے اوردُگنی چوگنی قیمتوں پرزمینیں خریدتے رہےاس مقصد کےلئے باقاعدہ ایک بہت بڑا فنڈ ترتیب دیا گیا۔یوں فلسطین کا ایک بڑا حصہ خرید لیاگیا۔یعنی اسلام بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ کسی مسلم ملک کی زمین غیر مسلم ملک کے پاس گروی رکھی جا ئے یا فروخت کی جائے ۔جہاں تک بات ہے اُس متنازع خبر کی جو کوئی سچی نہیں تھی اور نہ ہی لیک ہوئی تھی بلکہ ایک جھوٹی خبر تھی جو فیڈ کی گئی تھی تودیکھنا یہ ہے کہ انکوائری کےبعد کیا ہوتا ہے ۔مجھے مشاہد اللہ یاد آرہے ہیں وہ بھی کبھی وزیر ہوا کرتے تھے مگر جب قربانی کا وقت آیا تو انہوں نے بڑے حوصلے سے دی ۔ اب بھی کئی وزیر اس قربانی کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔دیکھتے ہیں قرعہ ِ فال کس کے نام نکلتا ہے ۔بہر حال کئی لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ (میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا قرعہ فال مرے نام کا اکثر نکلا)
خیال یہی ہے کہ یہ امریکی مطالبہ اس خبر کے نتیجے میں سامنے آیا کہ پاکستان اپنے ملک کے اندر موجوددہشت گردوں کا تعاقب کرے اور بلا امتیاز تمام گروپوں کے خلاف کارروائی کرے

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے