لڑکھڑاتی ہوئی زبانیں. منصورآفاق
دیوار پہ دستک

لڑکھڑاتی ہوئی زبانیں

لڑکھڑاتی ہوئی زبانیں

منصورآفاق

وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا’’وزیراعظم آزاد کشمیر نے رات گئے لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں مجھ سے سخت باتیں کی ‘‘انہوں نے اِس غلط فہمی کا بھی اظہار کیاکہ میں سمجھاتھا شاید تھکاوٹ کی وجہ سے زبان لڑکھڑا رہی ہے ۔زبان لڑکھڑانے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں بقول احسان شاہد

طبیعت خرابے پہ آئی تو سچ کہہ دیا
نشے میں زباں لڑکھڑائی تو سچ کہہ دیا

مگر میری نظرمیں سلگتا ہوا سوال یہ ہے کہ اِس خرابے کا ذمہ دار کون ہے۔پیپلز پارٹی کے جیالے کا خون کس کی گردن پر جما ہوا ہے ۔الزامات کی آگ تو دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے ۔کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ انتخابی عمل میں اتفاقی طور پر قتل ہونے والے ایک شخص کو بنیاد بنا کر پیپلز پارٹی کوئی اور کھیل شروع کرنا چاہتی ہے۔آزاد کشمیر میں حکومتی احتجاج۔ یوم سیاہ کے جلوس۔خوفناک تقاریر۔لاشیں گرانے کے نعرے۔یہ سب کیا ہے۔یقینایہ سب کچھ دیکھ کرشادابیوں کی آخری حدتک پہنچی ہوئی وادی گریز اشکبارہوگی۔اشکبار تو وہ پہلے بھی ہر کشمیری کی شہادت پر ہوتی ہے مگرپہلے اشکباری کا سبب بھارتی فوجیوں کی گولیاں ہوتی تھیں۔ہلمت کی بے پناہ بلندی پہ بادلوں میں بہتا ہوا پانی اپنے رنگ کو سرخ ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوگا۔ اگرچہ اس کے پانیوں میں یہ سرخی کوئی نئی چیز نہیں۔بس سمت کا فرق ہے۔ اس مرتبہ یہ سرخی اُس رخ سے آئی ہے جس رخ سے پانی واپس نہیں جایا کرتا۔ مجھے لگتا ہے اس صور ت حال پرلاکھوں برس قدیم گھنے جنگلوں کا بارود سے بھرا ہوا کیل بھی رودیا ہوگا۔صحنِ شاردا میں کہیں بدھ کی آتماخوں سے داغدارہوکر اپنے معمول سے کچھ زیادہ چکراتی پھررہی ہوگی ۔

ان باتوں کا سبب صرف ایک جیالے کی شہادت نہیں۔ نکیال کے حادثے سے نکلنے والی وہ سیاہی ہے جو تحریک ِکشمیر کی روشنیوں کو سنولا رہی ہے۔جس کے سبب معصوم داکھن کی مقدس سفیدیوں کا عہدِ انتظاربڑھ رہا ہے۔جس کی وجہ سے شمسہ بری کے پیچھے چناروں کا سرخ رو مقتل بجھنے کی امید بجھ رہی ہے۔اب درختوں کے تھال میںرکھی ہوئی بنجوسہ جھیل کی پکارکہیں سنائی نہیں دے رہی۔ایسا لگتا ہے جیسے چکوٹھی کی گود میںسوئے ہوئے کشمیر ی شہیدوں کا لہورائیگانی کی طرف رواں دواںہے۔امن و سلامتی کے پیمبرآپس میں دست و گریباں ہوگئے ہیں۔ بنام صبح کہسار چیرتی ہوئی جہلم کی موجیں ،بہتی ہوئی چنار بدن میتیںچوم چوم کر بین کر رہی ہیں۔لیپا سے قاضی ناگ کی پرشور سسکیاںسنائی دے رہی ہیں۔ چناری بچشم ِنم، پانڈو پہ آفتاب کے شعلوں کی سرد شام ہر صبح دیکھتی ہے اور انتظار کا ایک اور بلب روشن کرلیتی ہے۔پُرجہاد جیالوں کی لاش پررونے کیلئے ہرلمحہ کہیںسے چھم کا پُرشورآبشارگرتا ہے مگر ہوس ِ اقتدار ان تمام منظروں کی آوازیںگل کئے جارہی ہے۔ خون میں ڈوبی ہوئی تحریک ِکشمیر کو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والی اقتدار کی رسہ کشی تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔یہ کیا ہوا ۔ کیسے ہوا۔ پہلی بار آزاد کشمیر کے کسی وزیر اعظم نے پاکستانی وزیر اعظم کوبھی اُسی نظرِبدسے دیکھا جس نگاہِ تُندسے وہ بھارتی وزیر اعظم دیکھتا چلا آرہا ہے۔کیا یہ کسی قیامت سے کم ہے کہ پوری دنیا کے سامنے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کیلئے نواز شریف اور نریندرمودی ایک جیسے ہوگئے ۔یہ کتنی خوفناک بات ہے۔ اس کا صحیح اندازہ شایدپاکستان میں رہنے والے نہ لگاسکیں ۔ مگر برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی اِس بات کے زہرسے پوری طرح آشنا ہیں ۔

قصہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ برطانیہ میں کچھ پاکستان مخالف لوگوں نے یہ تحریک شروع کررکھی ہے کہ کشمیریوں کو کسی طرح پاکستان سے بدظن کیا جائے ۔وہ لوگ خود مختار کشمیر کے نام پر لوگوں سے کہتے پھرتے ہیںکہ اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم کر رہا ہے تو آزاد کشمیر میں بھی کچھ کم نہیںہو رہا ۔خیال کیا جاتا ہے کہ اس تحریک کے پیچھے کسی بھارتی ایجنسی کا ہاتھ ہے ۔یہاںمیں اُ ن کشمیریوں کی عظمت کو سلام پیش کرناچاہتا ہوں جو اس پروپیگنڈا مہم کا بھرپور مقابلہ کررہے ہیں مگر صاحبانِ دروغ کو جھوٹ کے فروغ کیلئے کسی نہ کسی واقعہ کی ضرورت ہوتی ہے جسے بنیاد بناکروہ اپنی کمپین کو بڑھا سکیں ۔ابھی پچھلے دنوں انہوں نے تحریک چلائی تھی کہ وہ کشمیری جنہوں نے برطانیہ آتے ہوئے پاکستانی پاسپورٹس کے سبب اپنی قومیت کے خانے میں پاکستانی لکھا تھا وہ وہاں کشمیری لکھوائیں اس مقصد کیلئے باقاعدہ فارم حاصل کئے گئے اور پھر انہیںہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیا گیابلکہ کچھ لوگ ٹولیوں کی شکل میں گھروں میںجاتے تھے اور خود فارم بھربھر کر بھیجتے تھے۔اِس ساری کارروائی کا مقصد صرف پاکستان سے علیحدگی کے احساس کو اجاگر کرنا تھا۔دنیا بھر میں یہی لوگ دن رات خود مختار کشمیر کے نام پر پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔جیسے ہی کوٹلی کا واقعہ ہوا تو یہاں برطانیہ میں یہی لوگ پھر متحرک ہوگئے ۔پھر ہمیں زہربھرے جملوں سے ڈسا جانے لگا۔

بہرحال تلخی بڑھ رہی ہے مگر جس تلخی پر میں ذرا پریشان ہوں وہ وزیر اعظم نواز شریف کی کابینہ کے لہجوں کی ہے ۔ایسا لگتا ہے وہ کسی بڑی الجھن میں ہیں ۔پی آئی اے کی ہڑتال کے وقت حکومتی لہجوں کی خوفناکی پوری قوم نے محسوس کی۔ اس ہڑتال کے کچھ شہیدوں کی میتیں ابھی تک انصاف مانگتی پھرتی ہیں ۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت جلدی جلدی کچھ کرنا چاہتی ہے اور نہیں کر پارہی یا کسی آتے ہوئے زلزلے کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے اور نہیں روک پا رہی ۔جس کے سبب اُس کاغصہ بڑھتا چلا جا رہاہے ۔شاید حکومت کی زبان غصے کے عالم میں لڑکھڑا رہی ہے ۔بہر حال زبانیں دونوں سمت لڑکھڑا رہی ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی لڑکھڑاہٹ جلد ختم کرے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے