لندن کی گہماگہمی
منصورآفاق
اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف آصف زرداری کے دربار میں حاضری دینے لندن گئے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ سابق صدروزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات نہیں کریں گے ۔میرے نزدیک دونوں صاحبان کے اعلان درست نہیں ہیں۔سچ یہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اپنے چیک اپ کیلئے برطانیہ گئے ہیں ۔اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی وجہ اور بھی ہے جس کی کسی کو ہوا بھی نہیں لگ سکی ۔
قصہ یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں کے اندر امریکہ اور یورپ میں دولت کے حوالے سے جو قانون سازیاں ہوئی ہیںان سے مسائل خاصے گمبھیر ہوگئے ہیں۔اب یورپ میں قانوناً بلیک منی نہیں آسکتی۔ سرمایہ لانے والے کو سرمائے کے جائز ہونے کا ثبوت فراہم کرنا پڑتا ہے اور جہاں ثبوت نہیں ملتا وہاں سرمایہ منی لانڈرنگ کے قانون کی زد میں آجاتا ہے ۔اسی قانون کےتحت ایم کیو ایم کے دفتر سے لاکھوں پونڈ برطانوی پولیس اٹھا کر لے گئی تھی ۔ یورپ اور امریکہ میں آف شور کمپنیاںبھی کرپشن کے ذیل میں آتی ہیں۔اسی بات سے اندازہ لگا لیجئے کہ پاناما لیکس پر بات کرتے ہوئے امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ’’ امریکہ کرپشن کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتا ہے مگر یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔
پاناما کے قوانین کے مطابق وہاں آف شور کمپنیاں بنائی جاسکتی ہیں ۔ سرمایہ خفیہ طور پر رکھا جاسکتا ہے مگراس کے ظاہر ہوجانے کے بعد اُس سرمائے پر وہی قانون لاگو ہوتے ہیں جو یورپ اور امریکہ میں ہیں۔اسی سبب وہ تمام لوگ پریشان ہیںجن کی پاناما میں آف شور کمپنیاں تھیں۔پریشانی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اب اِس سرمائے کو منی لانڈرنگ کے قوانین سے کیسے بچایا جائے۔اسے کہاں منتقل کیا جائے ۔دنیا کی نظر سے کیسے اوجھل کیا جائے۔اس کے روٹس بتائے بغیر اسے کیسے وائٹ کیا جائیگا ۔ حسن نواز اور حسین نواز کیلئے بھی یہی مسئلہ سب سے اہم ہے ۔ ان کیلئے دو بڑی پریشانیاں ہیں ۔ایک تو برطانیہ جو سرمایہ منتقل کیا گیا تھا وہ انہی آف شور کمپنیوں سے آیا ہوا ہے برطانوی حکومت کسی وقت بھی اُس کے متعلق پوچھ سکتی ہے ۔دوسرا جو سرمایہ ابھی آف شور کمپنیوںکے اکائونٹس میں موجود ہے ۔ اس کو اب کہاں منتقل کیا جائے ۔شاید برطانیہ آتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف جو تھوڑی دیر کیلئے ماسکو رکے تھے اس کا سبب بھی یہی تھا۔اسحاق ڈار بھی اسی سلسلے میں پاناما گئے تھے ۔جس کاذکر سی این این پر پاناماکی حکومت کے ایک وزیر نے کیا ۔وہاں کے معاملات اس وجہ سے خاصے پیچیدہ ہوچکے ہیںکہ پاناما کی اُس لاء فرم موزیک فانسیکاکا تمام ریکارڈ حکومتِ پانامانے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ سرمائےکے ڈوب جانے کاخطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
جہاں تک آصف زرداری اور نواز شریف کی ملاقات کی بات ہے تو اس کو جان بوجھ کرمیڈیا میں اہمیت دلائی گئی ہے ۔حقیقت میں اس ملاقات کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ۔کیونکہ دونوں رہنمائوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ تو کبھی ٹوٹا ہی نہیں ۔ ہاں وزیر اعظم نواز شریف سابق صدر سے صرف اس وقت بات کرتے ہیں جب وہ جاتی امرا میں ہوتے ہیں ۔ برطانیہ پہنچنے کے بعد بھی کئی بار فون پر بات ہوچکی ہے بلکہ سابق صدر کاایک آدھ فون تو صحافیوں کی موجودگی میں بھی آگیاتھا ۔ دونوں ہر معاملے میں ایک پیج پر ہیںاور پا ناما لیکس کے معاملے میں ایک دوسرے کی بھرپور مدد کر رہے ہیں ۔سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات بھی اسی سلسلے کا حصہ تھی اب ا نہیں برطانیہ بھی اسی سلسلے میں بلا لیا گیا ہے۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ سابق صدر ،رحمان ملک سے اُس آف شور کمپنی کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے پاناما لیکس کی فہرست میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رحمان ملک کا نام آیا ہے۔
کیونکہ اُس آف شور کمپنی کے متعلق سابق صدر کچھ نہیں جانتے تھے ۔میری اطلاع کے مطابق یہ بالکل غلط بات ہے۔جہاں تک بلاول بھٹوکے بیانات کا تعلق ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ نواز شریف سے تعلق کے سبب پیپلز پارٹی زوال کا شکار ہوئی ہے ۔سو پیپلز پارٹی کوموجودہ حکومت سے اتنا فاصلہ ضرور رکھنا چاہئے کہ لوگ اسے نون لیگ کی بی ٹیم نہ قرار دیں مگر یہ بھی طے ہے کہ نون لیگ کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جس سے سچ مچ نون لیگ کی حکومت کو کوئی پریشانی لا حق ہوجائے۔ پاناما لیکس میں ایک نام جاوید پاشا کا بھی ہے۔ عام لوگ جاوید پاشا کے بارے میں شایدکچھ نہیں جانتے ۔وہ میرے قریبی جاننے والوں میں سے ہیں۔برطانیہ میں سرے محل کی وہی دیکھ بھال کرتے تھے ۔اہل ِ سرمایہ انہیں سابق صدر کے فرنٹ مین کے طور پرجانتے ہیں ۔سابق صدر کی دولت کی تفتیش کرنے والی پاکستانی ایجنسیاں ان سے کئی مرتبہ انٹرویو کرچکی ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ان سے ہمیشہ نالاں رہیں۔وہ سمجھتی تھیں کہ جاوید پاشاہی وہ شخص ہے جس نے سابق صدر آصف زرداری کو سرمایہ پرستی کے راستے پرڈالا ہے ۔
میرے نزدیک کرپشن کے خلاف اس نئی جنگ میں عمران خان پھر اکیلے ہیں ۔وہ بھی لندن میں ہی ہیں ۔ اگرچہ وہ فنڈ جمع کرنے آئے ہیں مگرانہوں نے فرانزک آڈیٹرزسے ملاقاتیں کی ہیں۔پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیق کیلئے ان کے ساتھ معاملات بھی طے کر لئے ہیں اور فرانزک آڈیٹرز نے اپنا کام بھی شروع کردیا ہے۔کچھ دنوں میں وہ آڈیٹرز پاکستان بھی آئیں گے۔اگرچہ فرانزک آڈیٹرز سے تفتیش پر تمام اپوزیشن متفق ہے مگریہ ضروری نہیں کہ پیپلز پارٹی یا اپوزیشن کی دوسری جماعتیں بھی عمران خان کے منتخب کردہ آڈیٹرز پر اعتماد کا اظہار کریں ۔جہاںتک ہوائی جہاز کے سفر میں ہونے والی عمران خان اور چوہدری نثار علی خان کی میٹنگ کا تعلق ہے تواس میں اِس کے علاوہ کوئی اور اہم بات نہیں ہوئی کہ ایف نائن پارک میں پی ٹی آئی کاجلسہ ہوگا ۔ایک افواہ ہے کہ وہاں نواز شریف کے مستعفی ہونے پر بھی بات ہوئی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ نواز شریف نے اگر اپنی جگہ چوہدری نثار علی خان کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا(جس کا امکان بہت کم ہے ) تو پی ٹی آئی اس فیصلے کو خوش آمدید کہے گی ۔چوہدری نثار علی خان ذاتی دورے پر جرمنی پہنچے ہیں ۔اطلاع کے مطابق ان کے ذاتی معاملات میں یہ بھی شامل ہے کہ پاناما لیکس کی دوسری قسط شائع کرنے والےجرمن اخبارتک رسائی حاصل کریں مگرسب سے عجیب بات یہ ہے کہ پوری دنیا نے پاناما لیکس کے پیپرز کو تسلیم کرلیا ہے کہ یہ کرپشن کے حقائق منظر عام پر آئے ہیں ۔کسی ملک نے ان پر کوئی شبہ نہیں کیابلکہ لوگ بڑے بڑے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ سوائے پاکستان کے جہاں مسلسل تحقیقات کرانے سےمتعلق گفت و شنید جاری ہے۔
mansoor afaq
Like this:
Like Loading...