
عمران خان کے خلاف ریفرنس
عمران خان کے خلاف ریفرنس
منصور آفاق
ایک دوست نے کہا ’’ عبدالستار ایدھی نے تمام زندگی ولیوں والا کام کیا ہے ۔ میں تو اسے ولی سمجھتا ہوں۔ دوست کہنے لگا ’’عمران خان ایک عرصے سے فلاح و بہبود کے کام کر رہا تھا کیا تم اسے بھی اللہ کا ولی سمجھتے ہو۔‘‘میں نے کہا ’’سمجھنے میںکیا ہے وہ بھی اللہ کا ولی ہے ۔اللہ کا دوست ہے۔اس نے اللہ کی مخلوق کیلئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے ۔اس دوست نے مجھے چار پانچ صلواتیں سنائیں اور کہا’’کپتان کیلئے کئی دلہنیں سجی بیٹھی ہیں۔جا کر پہلے ان کا انتظار تو ختم کر ‘‘یہ جملہ مجھے پیچھے لے گیا۔ لڑکپن کی بات ہے میں ایک بار عیسیٰ خیل اپنے عزیزوں کے پاس گیا ہواتھا سہ پہر کے وقت وہاں لڑکیاں دریا پر گھڑے بھرنے جایا کرتی تھیں میں بھی ان کے ساتھ چلا جاتا تھا ایک دن انہوں نے کہا ’’وہ سندھوبابا‘‘ اور وہاںسے بھاگ کر دور ایک جگہ سے پانی بھرنے لگیں میں وہیں کھڑا رہا۔ وہ سندھو بابا میرے پاس آگیا۔ مجھ سے بڑے پیار سے بولا ’’بیٹے دریا سے باتیں کرنی ہیں ‘‘میں نے پوچھا’’بابا کیا دریا بھی باتیں کرتے ہیں‘‘ تو وہ کہنے لگا’’کیوں نہیں ، موجیں بولتی ہیں سیپیاں گنگناتی ہیں، مچھلیاں قہقہے لگاتی ہیں، کچھوے روتے ہیں اور پانی جلترنگ بجاتے ہیں ‘‘ ۔ میں نے کہا’’مگر بابا مجھے تو کچھ سنائی نہیں دیتا بس ایک شور سا ہے ‘‘ تو اس نے کہا’’میرے ساتھ آئومیں تمہاری پانی کے ساتھ بات کرا دیتا ہوں مگر تم کسی کو بتانا نہیں ‘‘ اور وہ مجھے دریا کے بالکل قریب لے گیا ۔اس نے پانی سے اپنا کان لگا لیا ۔ میں نے بھی اس کی نقل کرتے ہوئے پانی کے سینے پر اپنا کان کسی پر مفہوم دھڑکن کے خیال میں رکھ دیا ۔مجھے پانی سے تو کوئی اورآواز نہیں سنائی دی مگر سندھو بابا کی آواز میرے کانوں میں آج تک گونجتی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا ’’اے میرے ساتھ بہتے سندھو سنا پہاڑوں پر کچھ برف پگھلی ہے، وہ وقت کی شہزادی جو صدیوں سے چل رہی ہے اس کا کیا حال ہے ، ابھی اس کا کتنا سفر اور باقی ہے۔ اس نے میرے نام کوئی اورپیغام بھیجا ہے یا نہیں ؟ یہ تیری ہم عمر بوڑھی ہوا کل مجھے بتا رہی تھی کہ شہزادی میرے انتظار میں روز دلہن کی طرح سجتی ہے اور تجھ سے پوچھا کرتی ہے کہ تو مجھے اس کے پاس کب لے کر جائے گا؟‘‘
سندھو بابا کے اس واقعہ سے عمران خان یا عبدالستار ایدھی کے ولی ہونے کا بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر غور کیا جائے توسندھوبابا کا سفر دراصل حق کی تلاش میں ایسی تکلیف دہ مسافت ہے جس کی گردبھی انسانی جسم کیلئے سوغات سے کم نہیں۔مگر راستے کے صحیح تعین کے بغیر ہونے والے سفردوسری دنیا کے بھٹکتے ہوئے شوق تو ہو سکتے ہیںمنزل کے راز دار نہیں ۔ ریاضت کے یہ کٹھن راستے انسانی تاریخ میں لاکھوں لوگوں نے اختیار کئے اورعرفان کی منزل تک پہنچنے کی جستجو میں رہے مگرشاید خداکے قرب کی سعادت کسی کو نصیب نہ ہوسکی ۔ پانی پر چلنے والے اور ہوا میں اُڑنے والے زندگی بھر اس کے نزدیک ہونے کی خواہش میں زندگی سے جنگ کرتے رہے ۔ افسوس انہیں یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ جس زندگی سے وہ برسرِپیکار ہیں، جس سے نفرت کرتے ہیں وہی اس ذات ِحق کا پرتو ہے ۔آئو محبت کریں زندگی سے ، انسان سے، خوبصورتی سے ،خیرسے کیونکہ یہی خدا سے محبت ہے۔
عبد الستار ایدھی خیر سے محبت کرنے والا تھا ۔سڑک سے اٹھا کرکانپتی ہوئی زندگی کو اپنی آغوش میں چھپا لینے والوں میں سے تھا۔ عمران خان نے بھی لوگوں کے دکھوں کو محسوس کیا اور مسیحا بننے کی ہر کوشش کی جو مسلسل جاری ہے۔اس نے ہمیشہ زندگی سے محبت کی ہے شوکت خانم اسپتال اس بات کی گواہ ہے۔زندگی سے محبت کوئی آسان نہیں۔جہاں زندگی کیا ایک زخم ہے۔ گلتا ہوا زخم۔بہتا ہوا زخم۔ اس سے کیسے محبت کی جاسکتی ہے۔
بے شک وہ زندگی جو ان چم چم کرتی کاروںاور لش لش کرتے بنگلوں میںرہتی ہے۔وہ ان گلیوں اور گرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھروندوں میں بھول کر بھی،کبھی بھٹک کر بھی قدم نہیں رکھتی۔ جس میں دنیا کی نوے فیصد آبادی مقیم ہے۔ ان لوگوں کی زندگی پردکھ کے سائے ہر وقت تھرتھراتے رہتے ہیں۔کہیں کسی کے معصوم سے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔کہیں کسی کی بیوی بیماری سے تڑپ رہی ہے۔تحقیق۔یہ زندگیاں کینسر سے زیادہ اذیت ناک ہیں۔بڑی بے رحم اور ظالم ہیں۔مگر یہ زندگیاں ۔زندگیاں نہیں ۔
حالات کے شکنجے میں جکڑی ہوئی عمریں ہیں ۔یہ لمحوں کا بہتا ہوا دریا ہے۔لوگ جس کے دھارے پربے بس تنکوں کی طرح بہے جارہے ہیں۔مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ جو لوگ اس دھارے کا رخ موڑ لیتے ہیں ان کی زندگی سے ملاقات ہو جاتی ہے۔عمران خا ن بھی وقت کے دھارےموڑنے کیلئے سرگرداں ہیں۔جس جرم میں ان کی ذات پر ایسے ایسےا لزام لگائے جارہے ہیںجنہیں سن کر پوری پاکستانی قوم شرمند گی محسوس کرتی ہے کہ ہم اپنے محسنوں اپنے ہیروز اپنے مسیحائوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔مجھے ا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے قطعاً یہ توقع نہیں تھی کہ عمران خان کے خلاف نون لیگ کے ریفرنس کے دائر ہونے کی اجازت دیں گے۔کیا کہوں یہی کہ شاہ کے مصاحب شاہ کی خوشنودی کیلئے ہر کام کرنے کوتیار ہیں ۔شاید نئے نئے مصاحب بنے ہیں کہ اتراتے پھرتے ہیں ۔معاملہ جو بھی ہے یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وزیر اعظم جسکے متعلق یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ان کے بیٹوں اور بیٹی کے نام اربوں کی جائیداد برسوں سے چلی آرہی ہے۔ جسے تسلیم بھی کر لیا گیا ہے ۔اپنی یہ جائیدادکبھی بھی شریف خاندان نے اپنے انتخابی ڈکلیئریشن میں درج نہیں کی۔میرے خیال میں تویہ ثبوت وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کیلئے کافی سے کچھ زیادہ ہے مگرکتنی حیرت کی بات ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس دائر نہیں ہوسکا ۔ عمران خان کے خلاف دائر ہو گیا۔
mansoor afaq

