
عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ
عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ
منصور آفاق
تحریک انصاف میں شامل زیادہ ترلوگ اِس سے پہلے یا تو پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے یا مسلم لیگ نون ف الف قاف وغیرہ وغیرہ کےووٹر تھے ۔وہ اپنی قیادتوں سے مایوس ہو کر عمران خان کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے۔ یہ لوگ ساری پارٹیوں کے دورِ اقتدار کے کمالات دیکھنے کے بعد اِ س نتیجے پر پہنچے تھے کہ چاہے حکمراں جیسا بھی ہو مگر دیانت دار ضرور ہو۔جولوگ ملک میں انصاف قائم نہیں کر سکتے انہیں ملک پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔عمران خان خودبھی بہت پہلے اِسی نتیجے پر پہنچ گئے تھے اسی لئے تو انہوں نے اپنی پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف رکھا مگر ایک عرصے تک لوگوں نے اُن کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا تھا ا ور انہی پارٹیوں سے انصاف کی امید جاری رکھی جو تسلسل سے حکومت کرتی آرہی تھیں مگرمایوس عوام نے آخر کار تھک ہار کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا تو انہیں عمران خان نظر آئے جن کے دامن پر سرمائے کے حوالے سے کسی طرح کی کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھااوروہ مسلسل ملک میں انصاف کا نظام قائم کرنے کی کوشش میں تھے۔سو جیسے ہی مایوس عوام عمران خان کے اردگرد جمع ہوئے تواقتدار کے پرانے شکاری پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ہوا۔انہوں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ پر الزام دیا کبھی بیرونی قوتوں کی کہانی لوگوں کو سنا کر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔دراصل پہلے یہ تھا کہ دو طرف جال لگے ہوئے تھے عوام نے کسی ایک جال میں جا کر گرنا ہوتا تھا مگر جیسےہی عوام ایک تیسرے شخص کو سامنے لائے تو مسائل نے جنم لے لیا ۔پرانے شکاری شکار کے بڑے ڈھنگ جانتے تھے ۔وہ آپس میں بیٹھ گئے اور طے کر لیا گیاکہ نئے شکاری کو کیسے ناک آئوٹ کرناہے ۔ عمران خان سیدھے سادے اور کھرے آدمی تھے اور ہیں۔وہ اُس وقت توشطرنج کی ان چالوں سے بالکل واقف نہیں تھے جنہوںنے پورے ملک کے نظام کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا سو پیپلز پارٹی نے جب اپنا دورِ اقتدار مکمل کیا تو آسانی کے ساتھ حکومت مسلم لیگ نون کے حوالے کر دی ۔اس امید کے ساتھ کہ جب وقت آئے گا یہ اقتدار ہمیں واپس مل جائےگا ۔یعنی اپنی باری کا انتظار شروع کردیا گیا۔عمران خان کو جب اندازہ ہوا کہ اس کے ساتھ ’’دھرو‘‘ ہوا ہے تو انہوں نے احتجاجی تحریک شروع کی ۔ڈی چوک پر ایک سو چھبیس دنوں کا دھرنا دیا مگرانصاف نہ مل سکا بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ وہ انصاف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور اس کی واحد وجہ پاکستان پیپلز پارٹی بنی جس نے اپنے تمام حواریوں سمیت بھرپور اندازمیں نون لیگ کی حکومت کا ساتھ دیا۔ پیپلز پارٹی کی باگ ڈور جب بلاول بھٹوزرداری کے ہاتھ میں آئی تو اسے معلوم ہوا کہ اقتدار صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے جب پنجاب کے لوگ پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں ۔پنجاب کے احوال پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں پیپلز پارٹی کا وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے وہاں تو مسلم لیگ نون ہے یا تحریک انصاف ۔انہوں نے پنجاب میں اپنے پرانے ورکرز کو واپس لانے کی کوشش شروع کی ۔انہیں اندازہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کے پرانے ورکر زیادہ تر تحریک انصاف کےساتھ ہیں کیونکہ وہ ذہنی طور پر ابھی تک مسلم لیگ کوقبول نہیں کرسکے ۔بلاول زرداری بھٹونے حکومت کے خلاف تقاریر کاسلسلہ شروع کیااور تحریک انصاف کے ساتھ مل کر پاناما لیکس کے معاملہ پر حکومت کے تحریک چلانےکی کوشش کی ۔پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ وہ اس طرح آہستہ آہستہ دوہزار اٹھارہ تک پنجاب میں اپنی طاقت مجتمع کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور وعدہ اور باری کے مطابق اگلا وزیر اعظم بلاول بن جائے گا۔اگرچہ عمران خان کو معلوم تھا کہ پیپلز پارٹی کیا چاہتی ہے ۔اُس نے تحریک انصاف کی طرف کیوں دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے مگر اس کے باوجود کچھ عرصہ تک اخلاقی طور پر اس نے پیپلز پارٹی کو اپنے ساتھ چلنے سے روکا نہیں ۔اپنے جلسوں میں پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کو آنے دیا ۔اپنی تقاریر میں سابق صدر آصف علی زرداری کےنام سے صرف ِ نظر کرتے رہے۔اس عمل سے عمران کی مقبولیت میں کمی ہوئی وہ تمام لوگ جو پیپلز پارٹی سے مایوس ہوکر عمران خان کے پاس آئے تھے یا وہ لوگ جومسلم لیگوں کو چھوڑ کر اس لئے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے کہ مسلم لیگیں اوپر کہیں پہنچ کر زرداری لیگس بن جاتی ہیں۔
وہ عمران خان سے مایوس ہونے لگے تھے کہ اچانک عمران خان نے مروت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ایک ہی زبان استعمال کی اور پیپلز پارٹی کو مائنس ون کا مشورہ دے ڈالا ۔اس مشورے کے میڈیا پر آتے ہی ملک بھر میں لاکھوں ٹوٹے ہوئے دل پھرسےعمران خان کے ساتھ جڑ گئے ۔تحریک انصاف کے اندر کا انتشار کم ہوا۔عمران خان نےنون لیگی طرزِ سیاست کا مشورہ دینے والے مشیروں کو خاموش کرا دیا اور اپنی پرانی ڈگر پر واپس آ گئے ۔سچائی کی ڈگر پر ۔ دیانت کی ڈگر پر ۔انصاف کی ڈگر پر ۔جہاں لیڈر اپنے مفادات سے بلند تر ہوکر قوم کےلئے سوچتا ہے ۔نظریے اوراخلاقیات سے مبرا سیاست کی طرف قدم رکھتےہوئے واپس آگئے۔انہوں نے جیب میں پڑے کھوٹے سکوں کی آواز پر کان دھرنے کی جگہ اپنے دل کی آواز سن لی۔جہاں تک کھوٹے سکوں کی بات ہے تووہ بھی ضروری ہوتے ہیں وگرنہ خالی جیب سکڑ جاتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کی جیب خالی نہیں اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں باشعور عوام ہیں مگرتحریک انصاف ایک پارٹی بھی ہے ۔ جس کی قوت اس کے ورکر ہیں ۔اُس پارٹی میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ لیڈرز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے ماضی میں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ والی سیاست کی ۔سو مکمل سچائی کی سیاست سے یا پورے انصاف کی سیاست سے وہ کچھ زیادہ آشنا نہیں ۔اس لئے تحریک انصاف میں کئی طرح کے چھوٹے چھوٹے گروپ بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں مگر تمام چھوٹے بڑے لیڈروں کو اس بات کا علم ہے کہ تحریک انصاف اگر کچھ ہے تو صرف اور صرف عمران خان کی ذات کے سبب ہے ۔تحریک انصاف میں لوگ اورکسی شخص کی وجہ سے شامل نہیں ہیں۔بہر حال عمران خان سے محبت کرنے والوں کو بہت خوشی ہوئی ہے کہ وہ ڈھلوان پر پائوں رکھتے رکھتے سنبھل گئے ہیں ۔اپنی سچائی کی طرف لوٹ آئے ہیں اب پھر وہ سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم نواز شریف کو ایک نظر سے دیکھنے لگےہیں ۔یقین کیجئے اس عمل سے یک لخت عمران خان کی عوامی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ بلاول زرداری بھٹو بھی زیادہ دیرحقیقی اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کرسکے ۔ عمران خان کے ایک ہی بیان نے انہیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ جا کھڑا کیا ہے۔
mansoor afaq

