
عمران خان کی تقریر
عمران خان کی تقریر
منصور آفاق
پھرانرجی کی قلت آسیب کی طرح پھیل رہی ہے ۔قصبوں میں تاریکی کاجن پھرآگیا ہے۔چھوٹے شہروں میں شام ڈھلے رات ہونے لگی ہے۔ گائوں میں لوڈ شیڈنگ کا وحشی دورانیہ خطرے کے نشان سے بڑھ گیا ہے۔چودہ چودہ گھنٹے بجلی نہ ہونے کا عمل معمول کی طرف رواں دواںہے۔فیکٹریاں خاموش ہیں۔مزدوروں کو کام نہیں مل رہا۔فیصل آباد میںاحتجاج کرنے والےتاجروں کے نصیب میں صرف لاٹھی چارج لکھا گیا ہے ۔مہنگائی کی شدت گرمی کے درجہ حرارت کی طرح بلندیوں کو چھورہی ہے ۔لوگوں کی قوتِ خرید میںکچھ اورکمی واقع ہوئی ہے۔غریب ، غریب تر ہورہا ہے ۔ اور پوری حکومت پاناما کے چاک رفو کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے کہا تھا
اپنی عریانی چھپانے کیلئے تُو نے سارے شہر کو ننگا کیا
دوسری طرف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ بھی میدان میں اتر آئی ہے۔لگ رہا ہے کہ پاناما لیکس کے مسئلے پراپوزیشن جلسے جلوس اور دھرنوںکا بھی آغاز کرنے والی ہے۔پھر عمران خان کے کنج ِ لب سے نیا پاکستان طلوع ہونے والا ہے اور اس پرکیا کہوں کہ اس مرتبہ تحریک انصاف نے احتجاج کیلئے ڈی چوک کی بجائے جاتی امرا کا انتخاب کیا ہے۔لاہور کی احتجاجی تحریکیں بڑی خطرناک ہوتی ہیں ۔ماضی میں یہی نظر آتا ہے کہ لاہور کی چیخ ہمیشہ فیصلہ کن ثابت ہوئی ہے ۔ہر طرف ایک شور و غل جاری ہے ۔ذرائع ابلاغ سے صدائیں بلند ہورہی ہیں۔اسمبلیوں کے شور شرابے میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ۔اس معاملے میں مجھے دلچسپ ترین بات یہ محسوس ہوئی کہ اچانک عمران خان کے دماغ میں کہیں سے یہ خیال آیا کہ یہ جو پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن ہے یہ تو ایک قومی ادارہ ہے جس کو ہر پاکستانی اپنے بجلی کے بل کے ساتھ ماہوار 35 روپے ادا کرتاہے۔ یہ صرف نواز شریف کا تو نہیں ۔نون لیگ کی حکومت اس پر بیٹھ کر کس طرح شوکت خانم اسپتال کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کر سکتی ہے ۔سو ان کے حکم پر پی ٹی وی کو خط لکھ دیا گیا ہے کہ عمران خان بھی پی ٹی وی پر تقریر کرنا چاہتے ہیں ۔پی ٹی وی ویسے تو کارپوریشن ہے مگر اسے وزارت ِ اطلاعات کے ماتحت کیا گیا ہے تاکہ حکومت اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل کر سکے۔سو چیئرمین پی ٹی وی عطاالحق قاسمی کویہ اختیار استعمال نہیںکرنے دیا گیا کہ جہاں بے شمار اور لوگ پی ٹی وی پر پروگرام کر رہے ہیں، وہاں عمران خان کو بھی ایک آدھ گھنٹے کا ٹائم دے دیا جائے ۔یقینا اس تقریر سے پی ٹی وی کی ریٹنگ میں بہتری آتی مگرپی ٹی وی کی طرف سے وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی وی سے صرف صدر یا وزیراعظم کی تقاریر نشر کی جاسکتی ہیں۔ حالانکہ پی ٹی وی پرمذہبی حکما سے لے کرثقافتی اور سیاسی حکماء تک کون ایسا ہے جس نے جی بھر کے اپنی گفتگو کے پھول نہ بکھیرے ہوں ۔میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی وی ایک خود مختار ادارہ ہے اسے وزارتِ اطلاعات کے ماتحت کیوں کیا گیا ہے ۔بلکہ اگریہ کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ وزارتِ اطلاعات کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ وزارت اطلاعات کے بارے میں ایک اہم مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تھاکہ ’’ منسٹری آف انفارمیشن کے وجود کا جواز ناقابل فہم ہے۔ شاید یہ غلامی کے دور کی ضرورت رہی ہوگی، جسے حاکم اپنے غلاموں کو حسبِ منشا انفارمیشن فراہم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہوں گے۔‘‘وزارتِ اطلاعات کا آغاز پہلی جنگ عظیم کے دنوں میں ہوا تھا ۔جنگی صورت احوال کے پیش نظر برطانیہ نے پروپیگنڈے اور پبلسٹی کیلئے ایک وزارت قائم کی تھی۔اس کا اہم کام خبروں اور معلومات پر کنٹرول رکھنا تھاتاکہ عوام تک صرف وہی بات پہنچے جو ان تک پہنچنی چاہئے ۔یعنی اس وزارت کا سب سے اہم کام سنسرشپ تھا۔برطانیہ نے اِس وزارت کو1945میں تحلیل کردیا تھا کہ اب اس کی ضرورت ختم ہوچکی ہے ۔ تقسیم ہند کے وقت اگرچہ یہ وزارت برطانیہ میں ختم ہوچکی تھی مگرلوگوں تک درست معلومات پہنچانے کیلئے پاکستان اور بھارت نے اس کی ضرورت کو محسوس کیا اور وزارت اطلاعات قائم کر لی گئی۔جب بنگلہ دیش بنا تو اُس نے بھی بھارت اور پاکستان کی طرح اطلاعات کی وزارت قائم کی۔دنیا کے وہ ممالک جو برطانیہ کے زیر تسلط تھے ،آزادی کے بعدتقریباً انہی ممالک نے یہ وزارت قائم کی مگر ترقی یافتہ ممالک نے اس کی ضرورت قطعاً محسوس نہیں کی ۔ذرا سوچئے کہ جس وزارت کوبرطانیہ 1945ءمیں ختم کرچکا ہے ہم ابھی تک اسے سینے سے لگائے پھرتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزارت اطلاعات کیا کام کرتی ہے ۔یہی کہ مختلف محکموں کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دیتی ہے حالانکہ تمام محکموں میں ان کے اپنے ترجمان موجود ہیں ۔اس کے علاوہ مختلف محکموں نے جو اشتہارات دینے ہوتے ہیں وہ اپنے اشتہار وزارت اطلاعات کو بھیجتے ہیں۔ اورپھریہ وزارت انہیں آگے اپنی مرضی سے تقسیم کرتی ہے ۔ہر محکمہ اپنے اشتہارات خود میڈیا کوبھی بھیج سکتا ہے ۔اس درمیانی محکمے کی اس کام کیلئے بھی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ یہ محکمہ وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں کے پاس بھی موجود ہے ۔یعنی صرف حکمرانوں کی تعریف و توصیف کیلئے یہ محکمے قومی خزانے کیلئے بوجھ کی حیثیت سے موجود ہیں ۔پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں بھی اس وزارت کو ختم کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا گیا تھا مگر قمرزمان کائرہ اس وزارت کے آگے دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے تھے ۔آزادی اظہار کے حوالے سے بھی وزارتِ اطلاعات کی تاریخ بہت بھیانک ہے ۔سچ لکھنے پر ڈکلیئریشن کی منسوخی ،صحافیوں کیلئے قید و بند کی صعوبتیں ،نیوز پرنٹ پر کنٹرول،تعداد اشاعت کا
سرٹیفکیٹ،سنسر شپ کی تلواراورسیکرٹ فنڈزکی کہانیاں بہت لمبی ہیں۔انہیں کسی اور کالم کیلئے چھوڑتے ہیں ۔ہاں توبات شروع کی تھی پاکستان ٹیلی وژن سے ۔پی ٹی وی کی پاکستان میں وہی حیثیت ہے جو برطانیہ میں بی بی سی کی ہے مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ برطانوی وزیراعظم نے بی بی سی کو صرف اپنی تقریر کیلئے استعمال کیا ہو۔ جیسا پاکستان میں کہا جارہاہے کہ پی ٹی وی صرف صدر اور وزیر اعظم کی تقاریر نشر کر سکتا ہے۔ پتہ نہیں یہ قانون کس نے بنایا ہے اور کس لئے بنایا ہے۔اصولاً تو ہر پارٹی کے سربراہ کو اس قومی ٹیلی وژن پر برابر کا حصہ ملنا چاہئے ۔پارٹی کی حیثیت کے مطابق۔ خورشید شاہ نے بھی اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے کہ حکومت نے پاکستان ٹیلی وژن سے اپوزیشن کو آئوٹ کر رکھا ہے۔اس سلسلے میں برطانیہ میں باقاعدہ ایک چینل موجودہے ۔جو قوم کو اسمبلی کی تمام کارروائی لائیو دکھاتا ہے۔پی ٹی وی کو بھی ایک ایسا چینل شروع کرنا چاہئے یا پھر تمام نیوزچینل کو قومی اسمبلی کی کارروائی ریکارڈ کرنے کی اجازت دے دینی چاہئے۔اگر موجودہ حکومت یہ نیک کام کرے گی تو اس کی عزت میں اضافہ ہوگاوگرنہ وقت کوتواس بدنما دیوار کو گرا ہی دینا ہے۔

