عمران خان کا نیا پاکستان. منصور آفاق
دیوار پہ دستک

عمران خان کا نیا پاکستان

عمران خان کا نیا پاکستان

منصور آفاق

بائیس سال کے بعد پھر وہی رات تھی ، وہی آکسفورڈ سٹی کی سڑکیں تھیں ۔وہی سینکڑوں سال پرانے کالجوں کی عمارتیں تھیں ،وہی یونیورسٹی تھی ،وہی میں اورامجد علی خان تھے ۔بائیس سال پہلے جب امجد علی خان اور میں اس ایجوکیشنل سٹی میں آئے تھے تو اس وقت امجد علی خان پیپلز پارٹی کے ایک وفاقی وزیرکابیٹا تھا اور میںایک شاعر۔آج امجد علی خان خودتحریک انصاف کا ایم این اے ہے ۔اور میں ۔آج بھی ایک شاعر ہوں ۔امجد علی خان اورمیں یادیںتازہ کرتے رہے ۔دنیا بھر کے موضوعات پر گفت و شنید جاری رہی۔میں نے اس سے سوال کیا کہ ’’یار مجھے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ عمران خان کا یہ ’’نیا پاکستان ‘‘ کیا چیز ہے ۔ تمہارے خیال میں یہ کیسا ہوگا تو امجد علی خان نے کہا’’عمران خان کے نئے پاکستان میںہر پیدا ہونے والا بچہ ،پیدائش کے بعد حکومت کی ذمہ داری قرار پائے گا۔اس کیلئے اس کے والدین کو باقاعدہ ہر ہفتے اس کے اخراجات کی رقم ملے گی ۔اس کی تعلیم اس کی صحت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی ۔چاہے وہ امیر کاہو یا غریب کا بچہ۔ہر وہ شخص جس کے پاس روزگار نہیں ہوگا اسے اُس وقت تک بے روزگاری الائونس ملے گا جب تک اسے روزگار نہیں مل جاتا ۔وہ تمام عورتیں اور مردجن کی عمر 65سال سے زیادہ ہوجائے گی انہیں پنشن ملے گی چاہے زندگی میں کبھی انہوں نے نوکری کی ہو یا نہ کی ہو ۔ ہر وہ آدمی جس کے پاس گھر نہیں ہوگا حکومت اسے کرائے پر گھر فراہم کرے گی اور اس وقت تک اس کا کرایہ خود ادا کرے گی جب تک وہ کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔ہیلتھ کی سہولتیں تمام لوگوں کیلئے مفت ہوں گی۔
نئے پاکستان میں ہر شخص جو کام کرتا ہوگا وہ ضرور ٹیکس ادا کرے گا وگرنہ حکومت زبردستی لے گی ۔ ٹیکس کی شرح آمدن کے ساتھ بڑھتی جائے گی مثال کے طور پر سال میں دو لاکھ روپے کمانے والے پر بیس فیصد ٹیکس ہوگا دو لاکھ سے لے کر پچاس لاکھ کمانے والے پر چالیس فیصد ٹیکس ہوگا اور اس سے زیادہ کمانے والے کو ساٹھ فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ ہر شخص کامکمل ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ ہوگا۔کوئی شخص اپنی آمدنی چھپا نہیں سکے گا اور آمدنی چھپانے پر جرمانے کے ساتھ قید بامشقت کی سزا بھی ملے گی ۔ کوئی بڑا آدمی ہو یا چھوٹا سب کیلئے انصاف برابر ہوگا۔عدالتیں ہر شخص کو مکمل انصاف فراہم کریں گی۔ مقدمہ لڑنے کیلئے اگر کسی کے پاس رقم نہیں ہوگی تو اسے وکیل حکومت فراہم کرے گی۔‘‘ امجد علی خان نے عمران خان کے نئے پاکستان کاجو نقشہ بیان کیا وہ میرے لئے بہت حیران کن تھا۔چلتے چلتے امجد علی خان ایک جگہ رک گیا اور کہنے لگا ’’تمہیںیاد ہے یہاں بیٹھ کر ہم دونوں نے جاگتی ہوئی آنکھوں سے ایک خواب دیکھا تھا تم نے اس خواب پر نظم لکھی تھی ‘‘ میں نے کہاہاں ۔ نالج سٹی کا خواب ۔میانوالی میںآکسفورڈ جیسی ایجوکیشنل سٹی بنا نے کا خواب‘‘امجد علی خان نے فخر سے کہا ’’ عمران خان ہمارے خواب کو تعبیر دے رہا ہے ۔بس اتنا فرق ہے کہ تم نے اور میں نے وہ نالج سٹی دریائے سندھ کے کنارے پر آباد کرنے کا سوچا تھا عمران خان اسے نمل جھیل کے کناروں پر آباد کرنا چاہ رہا ہے ۔یہ نمل یونیورسٹی اسی نالج سٹی کا ابتدائی خاکہ ہے ۔‘‘ میں نے امجد علی خان سے کہا ’’عمران خان نے تو ہمیشہ اپنی ماں کی فیملی کو اہمیت دی ہے ایک عرصہ تک دنیا اسے برکی فیملی کا ایک فرد سمجھتی رہی ہے ۔وہ اب بھی اپنے نام کے ساتھ نیازی لکھنا پسند نہیں کرتا‘‘امجد علی خان بولا ’’ نہیں یہ سچ نہیں ہے دراصل برکی فیملی بہت مشہور تھی دوسراعمران خان شروع میں ماجد خان وغیرہ کے ساتھ دکھائی بھی بہت دیتا تھااس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ شاید عمران خان کا تعلق برکی خاندان سے ہے مگر خود عمران خان نے ہمیشہ خود کو میانوالی کا ہی سمجھا ہے انہوں نے اپنی زندگی کا پہلا الیکشن میانوالی ہی سے لڑا تھا ۔جہاں تک نام کے ساتھ نیازی لگانےکا تعلق ہے تو میں بھی نہیں لکھتا ۔ تم جانتے ہوابو (ڈاکٹر شیر افگن خان ) تو اپنے نام کے ساتھ خود خان بھی نہیں لکھا کرتے تھے ۔‘‘

میں نے امجد خان سے کہا ’’ایک اور شکایت لوگ بہت کرتے ہیں کہ عمران خان کسی کو چائے بھی نہیں پلاتا ۔یعنی وہ اخلاقی قدروں سے واقف ہی نہیں ‘‘امجد علی خان بولا ’’تم خود کئی مرتبہ عمران خان سے مل چکے ہو کیا تمہیں چائے نہیں پلائی بلکہ ہم اکٹھے گئے تھے تو کھانا بھی کھا کر آئے تھے ۔ دراصل قصہ یہ ہے عمران خان ایسے خواص کوچائے نہیں پلاتا جو اپنے آپ کو بہت بڑی شے سمجھتے ہیں لیکن عوام کو ضرور پلاتا ہے ۔عوام کیلئے تو عمران خان کے پاس چائے کے علاوہ کھانے کا بندوبست بھی ہوتا ہے ۔ایک اور بات بھی ہے وہ خود کھانے پینے کے تکلفات میں پڑنے کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہے اسے جب بھوک لگتی ہے لوگوں کے بیچ اکیلا بیٹھ کر کھانا کھالیتا ہے ۔سادہ آدمی ہے ۔اپنے تمام ذاتی کام اپنا ہاتھ سے کرتا ہے۔ ایمان داری اورسچائی اس کی گھٹی میں موجود ہے۔سخت جفاکش ہے ۔ہار نہیں مانتا اپنے مقصد کیلئے مسلسل تگ و دو کرتا رہتا ہے ۔ کھانے پینے جیسی چھوٹی موٹی باتیں اس کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔‘‘

میں نے پوچھا کہ’’ صوبہ پختونخوا کے بارے میں عمران خان نے بڑے نعرے لگائے تھے مگر وہاں کوئی بڑی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی‘‘

امجدعلی خان کہنے لگا ’’ پولیس بدل کر رکھ دی ہے ۔ ایجوکیشن سسٹم نیا لے آئے ہیں بلدیات میں بے پناہ بہتری ہوئی ہے۔ ہیلتھ کے محکمے کوسچ مچ صحت عامہ کا محکمہ بنا دیا ہے۔ ریونیوکو کہاں سے کہاں لے گئے ہیں۔ کروڑوں درخت لگوائے ہیں۔ اس کے باوجودبھی اگر کوئی کہے کہ وہاں تبدیلی نہیںآئی تو اس کی مرضی ۔صوبہ پختونخوا کی انقلابی تبدیلیوں کو انٹرنیشنل رپورٹس میںبھی تسلیم کیا گیاہے ‘‘ میں نے پوچھا ’’کہتے ہیں خان ضدی بہت ہے ‘‘ تو کہنے لگا ’’یہ بات بھی بالکل غلط ہے ۔ عمران خان خالصتاً جمہوری مزاج کا حامل ہے ۔ اگر زیادہ لوگ ان کی رائے کےخلاف ہوں تو وہ اپنی رائے پر کبھی بضد نہیں ہوئے ۔‘‘ باتیں تو امجد علی خان سے اور بھی بہت سی ہوئیں مگر اس کالم کا آخری سوال یہ ہے کہ ’’ عمران خان ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر سات اگست سے اْحتجاجی تحریک شروع کررہے ہیں ۔اگر تحریک کو کامیاب ہوتے ہوئے دیکھ کر حکومت نے اپوزیشن کے ٹی او آرز تسلیم کرلئے تو کیا عمران خان احتجاجی تحریک ختم کردیں گے ۔ امجد علی خان نے کہا ’’نہیں ٹی او آرز کا وقت گزر چکا ہے ۔اب واپسی کا کوئی امکان نہیں ۔اب تو ماڈل ٹائون کے شہیدوں کا قصاص ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ عمران خان بھی مانگنے والا ہے ۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے