عمران خان پر بے معنی الزامات. منصورآفاق
دیوار پہ دستک

عمران خان پر بے معنی الزامات

عمران خان پر بے معنی الزامات

منصور آفاق

یہ کوئی ایک سال پرانی بات ہے۔ جرمن اخبار ’’زیتوشے زائتونگ ‘‘کے دفتر میںایک شخص نے فون کیا اور اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پرپاناما کی مشہور لا فرم ’’ موزیک فونیسکا ‘‘ کے تمام آف شور کمپنیوں کے ڈاکومنٹس دینے کی پیشکش کی۔اُس شخص نے ان کے عوض کسی طرح کی رقم بھی نہیں مانگی۔اخبار نے اندازہ کرلیا تھا کہ یہ شخص کسی خفیہ ایجنسی کا کارندہ ہے ۔ اخبار کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ اتنے زیادہ ڈاکو منٹس کی خود تحقیق کر سکے کہ یہ درست ہیں یا نہیں ۔کیونکہ اگر غلط ثابت ہوجاتے تو اخبار کو ہرجانے میں اتنی بڑی رقم دینا پڑتی کہ اُس کا دیوالیہ ہوجاتا اگرچہ ’’زیتوشے زائتونگ ‘‘ میوزیخ کا سب سے بڑا اخبار ہے مگر یہ ڈاکو منٹس کو صحیح طور پرجانچنا اس کی استطاعت سے باہرتھا ۔ اخبار نے یہ تمام ڈاکومنٹس ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس ‘‘کے سپرد کر دئیے۔اس انٹرنیشنل کنسورشیم نے ان پر کام شروع کیا۔دنیا کی 80صحافتی تنظیموں کے 107 نمائندگان نے پورے ایک سال تک اپنی تحقیقات جاری رکھیں اورجب مکمل طور پر یقین کر لیا گیا کہ یہ تمام ڈاکومنٹس بالکل درست تھے تو اخبار نے اس ڈیٹا کی ایک اجمالی رپورٹ شائع کی ۔ پاناما پیپرز لیک ‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہونے والے ان ڈاکو منٹس کی تعداد تقریباً ایک کروڑ پچیس لاکھ کے قریب ہے ۔اس کا کمپیوٹرائز ڈیٹا 26سو جی بی پر مشتمل ہے ۔یہ پاناما کی’’ موزیک فونیسکا ‘‘نامی لا فرم کا مکمل ڈیٹا ہے۔دنیا کے تقریباً چالیس شہروں میں اس فرم کے دفاتر موجود ہیں ۔یہ لاء فرم قانونی طور پر بڑی شخصیات کے اثاثے پوشیدہ رکھنے اور ٹیکس سے بچانے میں مدد دینے والی دنیا کی چوتھی بڑی لا فرم ہے ۔ان ڈاکو منٹس میں ویسے توسینکڑوں لوگوں کے نام شامل ہیں مگرپاکستان کے علاوہ آئس لینڈ، روس، عراق، یوکرائن اور برطانیہ کے بارہ ایسے لوگ شامل ہیں جو یا توخودوہاں کے نیشنل لیڈر ہیںیا ماضی میں رہے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ کہا جا سکے کہ پاناما لیکس میںجن کے نام آئے ہیںان تمام لوگوں کی دولت غیر قانونی ہے۔اگر یہ دولت غیر قانونی ہوتی تو دنیا کی کوئی لاء فرم بھی اسے قانونی تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تھی۔مسئلہ صرف ان ممالک کے قوانین کا ہے جن سے اِن آف شورکمپنیوں کے مالکان کا تعلق ہے ۔اگر اِس سرمایہ پر اُس ملک کے قانون کے مطابق ٹیکس دیا گیا ہے تو یہ کمپنی کا سرمایہ کسی طور پر غیر قانونی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ٹیکس ادا کردہ سرمایہ جب وہ ایک ملک سے دوسرے میں ٹرانسفر ہوتا ہے تووہ قانونی طور پر ہوتا ہے مگر وہ رقم جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا ۔اسے غیر قانونی طور پر ملک سے باہر منتقل کرنا پڑتا ہے ۔اِس کام کومنی لارڈرنگ کہتے ہیں ۔

وزیر قانون رانا ثنااللہ نے کہا پاناما لیکس دراصل پاجامہ لیکس ہے ۔بے شک کئی ممالک میں پاناما لیکس پاجامہ لیکس ثابت ہوئے ۔خاص طور پر نیوزی لینڈ ،آسٹریلیا،بھارت اورہانگ گانگ ،فرانس ،ا سپین میں ان لوگوں کے خلاف تفتیش شروع کردی گئی ہے جن کے نام پاناما لیکس میںآئے ہیں ۔ان بینکوں کے خلاف بھی کارروائی شروع کردی گئی ہے جنہوں نے اس لاء فرم کے ساتھ کسی طرح کا کاروبار کیاتھا۔پاناما کے وزیر اعظم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میںکسی شخص کو کسی طرح کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔پاناما کی حکومت دنیا کے ہر ملک کے ساتھ اس سلسلے میں مکمل تعاون کرے گی ۔ آئس لینڈ میں وزیراعظم کے خلاف بھی احتجاج شروع ہوچکا ہے ۔ہزاروں افراد نے باقاعدہ دستخط کر کے وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے ۔سب سے دلچسپ صورتحال برطانیہ کی ہے۔برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد گرامی کی آف شور کمپنیاںبھی سامنے آگئی ہیں ۔ ڈیوڈ کیمرون نے آئندہ آف شور کمپنیوں کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس بچانے کے اس عمل کو ٹیکس چوری کے زمرے میں لایا جائے۔ لیکن برطانوی ادارے اس بات کی بھی تفتیش کررہے ہیں کہ کیا باپ کی وفات کے بعد ان کمپنیوں کے بارے میں ڈیوڈکیمرون کو معلوم تھا۔اگر یہ بات ثابت ہوگئی تو اس بات کا امکان ہے کہ ڈیوڈ کیمرون وزیر اعظم شپ چھوڑ دیں گے ۔اب آتے ہیں پاکستان کی طرف ۔وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بیٹے اور بیٹی کا نام بھی اس فہرست میں موجود ہے ۔لیکن ان کیلئے پریشانی کی کوئی بات اس لئے نہیں ہونی چاہئے تھی کہ انہوں نے یہ سرمایہ ایک خلیجی ملک سے ان آف شور کمپنیوں میں منتقل کیا تھا۔سو اُس سرمائے پر نہ توٹیکس چوری کا الزام آسکتا ہے اور نہ ہی منی لانڈرنگ کا۔ مگروزیر اطلاعات پرویز رشید نے اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے عمران خان پرالزامات کی بوچھاڑ کردی جیسےیہ سارا کچھ انہی کا کیا دھرا ہو۔بلکہ ایسے لایعنی الزام بھی لگائے جن سے عمران خان کی عزت میں اور اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کہ عمران خان بتائیں کہ ان کے بچے برطانیہ میں رہتے ہیں اُن کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں ۔کون نہیں جانتا کہ عمران خان کے بیٹے اپنی والدہ کے پاس ہوتے ہیں جو برطانیہ کی امیر ترین خواتین میں سے ایک ہیں ۔
وزیر اطلاعات کی پریس کانفرنس سے شریف فیملی کے معاملات کچھ اور مشکوک ہوئے ہیں ۔انہیں چاہئے کہ وہ پریس کانفرنس میں کہتے کہ ہم برطانوی اخبار ’’گارڈین کے خلاف برطانوی عدالت میںمقدمہ دائر کر رہے ہیںکہ اس نے اپنی فہرست میں وزیر اعظم نواز شریف کا نام کیوں شامل کیا جب کہ ڈاکومنٹس میں ان کا نام کہیں موجود نہیں ۔اس معاملے میں ڈیوڈ کیمرون اور نواز شریف کی صورتحال ایک جیسی ہے ۔ڈیوڈد کیمرون کانام باپ کی وجہ سے آرہا ہے اور نواز شریف کا نام بیٹیوں کی وجہ سے ۔وزیر اطلاعات کو بتانا چاہئے تھا کہ بے شک یہ آف شور کمپنیاں 1994میں بنائی گئی تھیں مگر ان کا سرمایہ ایک خلیجی ملک کی اسٹیل مل فروخت کرنے کے بعد ٹرانسفر کیا گیاہے ۔یوں تمام الزامات کی حقیقت سامنے آجاتی ۔صرف ایک مسئلہ رہ جانا تھا کہ انتخابات میں جب اثاثے ظاہر کئے گئے تھے اُن میں اِن کمپنیوں کے نام شامل نہیں تھے ۔اِس پر قوم سے معذرت کی جاسکتی تھی مگرنون لیگ کے لوگوں نے جس انداز میں معاملے کو پیش کیا۔ اُس سے حکومتی پوزیشن خاصی خراب ہوئی ۔اب بھی وقت ہے حکومت کو فوری طور پران تمام آف شور کمپنیوںکے بارے میں تحقیقات کا حکم دینا چاہئے جن کا نام پاناما لیکس میں آیا ہے اور وہ سرمایہ دار جن کا سرمایہ خلیجی ریاستوں یا کسی اور ملک سے ان کمپنیوں میںمنتقل ہوا ہے اور جنہوں نے تمام قانونی تقاضے پورے کئے ہیں ۔ان کی عزت بحال کرائی جائے اور جن لوگوں نے غیر فانونی طور منی لانڈرنگ کرتے ہوئے سرمایہ ان کمپنیوں میںجمع کرایا ہے ان کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے۔تمام ممالک میں تحقیقات انہی بنیادوں پرشروع کی گئی ہیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے