
عظیم منزل
عظیم منزل
منصور آفاق
میانوالی میں جہاں میرا گھر ہے اس کاگرد و نواح بہت ہی مردم خیز واقع ہوا ہے ۔ میرے گھر سے کوئی سو گز کے فاصلے پر وہ عظیم منزل ہے جس میں پانچ بڑے آدمی پیدا ہوئے ۔ امان اللہ خان ایڈوکیٹ جنہوں نے اپنے وقت کے طاقتور ترین گورنرامیر محمد خان نواب آف کالاباغ کے ساتھ مقابلہ پوری پامردی سے کیا تھا۔اسی مخالفت میں نواب امیر محمد خان نے عمران خان کے والد اکرام اللہ خان کو بھی ملازمت سے برطرف کرا دیا تھا ۔یعنی عمران بھی اسی گھرکے ایک چشم و چراغ ہیں۔حفیظ اللہ نیازی اور انعام اللہ نیازی نے بھی اِسی گھر میں جنم لیا مگر اس وقت میراموضوع اسی گھر انےکےپانچویں فرد نجیب اللہ خان مرحوم ہیں ۔اسی فیملی کے ایک مکان میں یہیں مولانا عبدالستار خان نیازی نے بھی اپنی ساری زندگی گزاری ۔اسی سڑک پر چند مکانوں کے فاصلے پر کرکٹ کے لازوال کھلاڑی مصباح الحق کا بھی گھر ہے ۔
یعنی قومی کرکٹ کے دونوں کامیاب ترین کپتانوں کا تعلق اسی جگہ سے ہے ۔اس پچیس تیس مکانوں کے رقبے میں اور بہت سی شخصیات پیدا ہوئیں ۔ حضرت مولانا اکبر علی ، میرے بڑے بھائی محمد اشفاق چغتائی ، ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی قیوم نیازی ، گلوکار ایوب نیازی ،عالمی شہرت یافتہ موسیقار امیر حسین امیر ،کئی اور نام بھی ہیں مگراس وقت دل و دماغ کے دریچوں سے صرف نجیب اللہ خان کا چہرہ دکھائی دے رہا ہے ۔
یہ نجیب اللہ خان کی بھکر کی سیاسی پہچان بننے سے بہت پہلے کی بات ہے ۔ ہم دونوں میانوالی کی سڑکوں پر رات گئے تک چاند کے ہمراہ آوارہ گردی کیا کرتے تھے ۔اس وقت میرے ساتھ ساتھ انہیں بھی شاعری کا جنون ہوا کرتا تھا ۔دونوں روشنی اور خوشبوکو لفظوں میں قید کرتے رہتے تھے ۔انہی دنوں ایوب نیازی کے خواہش پر نجیب اللہ خان نے ایک گیت لکھا تھا۔
جب ملا پیا کا دیس
ایسا بدلا میں نےبھیس کہ چوڑیاں ٹوٹ گئیں
اس میں ایک بند تھا
جب للکارا میں نے باطل کو
روکا اپنے ہاتھ سے قاتل کو
ہوا مجھ پہ قتل کاکیس کہ چوڑیاں ٹوٹ گئیں
ایسا بدلا میں نےبھیس کہ چوڑیاں ٹوٹ گئیں
مجھے اُسی وقت احساس ہوگیا تھا کہ وقت آنے پرنجیب اللہ خان بڑے بڑے ظالموں کو للکاریں گے ۔ایک دن اِس نوجوان نے ضرور اُس نظام سے ٹکرا جانا ہے جس نے انسانیت کے بند بند کو مضمحل کر رکھا ہے ۔اگرچہ میں ابھی تک یہی توقعات عمران خان سے بھی رکھتا ہوں ۔وہ بھی مسلسل لوگوں کو فلاح کی طرف بلا رہا ہے ۔نجیب اللہ خان نے بھی زندگی بھر یہی کام کیا ۔نہ صرف لوگوں کو کہا کہ ’’حی علی الفلاح‘‘ آئو فلاح کی طرف ۔بلکہ اپنی عمر کا ایک ایک لمحہ غریبوں کی فلاح و بہبود میں صرف کیا ۔افسوس کہ اس ملک خدا داد میں پانچ وقت یہی اذان دی جاتی ہے مگر کوئی فلاح کی طرف نہیں آتا یہ الگ بات ہے کہ نماز بہت لوگ پڑھتے ہیں ۔
جب حفیظ اللہ نیازی نے نجیب اللہ خان کے متعلق لکھی ہوئی کتاب ’’ ایک شخصیت ایک کارواں ‘‘مجھے دی اور اس کی تقریب رونمائی میں شرکت کےلئے کہا تو میرے دل نے کہا’’منصور اس تقریب میں شریک ہونا تمہارے لئے ایک اعزاز کی بات ہوگی ۔اس بات کی تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہوں گا ۔دراصل میرے جتنے مراسم لوگوں سے ہیں اُس سے کہیں زیادہ میں زندہ قبروں کے ساتھ جڑا ہوا ہوں ۔ہوا یوں کہ جب نجیب اللہ خان کی وفات کے بعد ضمنی انتخابات ہوئے اور انعام اللہ خان ایم پی اے منتخب ہو گئے تو میں نے ان کے ایک مخالف سے طنزیہ کہا ’’تو پھر جیت گئے انعام اللہ خان ‘‘ تو اس نے تلملا کر جواب دیا ’’ لوگوں نے انعام اللہ خان کو ووٹ نہیں دئیےنجیب اللہ خان کی قبر کو ووٹ دئیے ہیں۔یعنی نجیب اللہ خان نے بھکر میں کچھ ایسا کیا کہ اس کی قبر بھی زندہ ہوگئی ہے ۔سلطان العارفین نے فرمایا تھا ’’ نام فقیر تنہاں دا باہو قبر جنہاں دی جیوے ہو ‘‘ ۔ ممکن ہے فقیر کا لفظ نجیب اللہ خان کے حوالے سے اجنبی ہو مگر میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں سے بڑے فقیر اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے والے ہوتے ہیں ۔
نجیب اللہ خان کا ایک اور کارنامہ ایسا ہے جس کی مثال میانوالی اور بھکر کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔بھکر کسی زمانے میں ضلع میانوالی کی تحصیل ہوا کرتا تھا۔اس وقت میانوالی ضلع تقریباً دوسو میل پر پھیلا ہوا تھا۔بھکر کے علاقہ حیدر آباد تھل سے میانوالی تک پہنچنے کےلئے تقریباً ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ طے کرنا پڑ جاتا تھا ۔اس وجہ سے تحصیل بھکر کےلوگ میانوالی والوں سے اسی طرح بیزار ہوتے چلے گئے جس طرح راجن پورکے شاعر عاشق بزدارنے تنگ آکر کہا تھا ’’ اساں قیدی تخت لہور دے‘‘ سو روز بہ روزبھکر اور میانوالی کے لوگوں کے درمیان مراسم خراب ہوتے گئے ۔حتی ٰ کہ بھکر کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا مگر وہ کدورت جو اہل بھکر کے دلوں میں پیدا ہوگئی تھی وہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی کہ اچانک ایک دن نجیب اللہ خان نے میانوالی سے بھکر ہجرت کرلی ۔ شروع شروع میں انہیں خاصی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔انتخابات میں بھی شکست ہوئی مگررفتہ رفتہ نجیب اللہ خان نے اپنے کردار سے آخر کار اہل بھکر کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔تقریباً سو سال کی کدورت نجیب اللہ خان کے عمل سے اس طرح ہوا ہوگئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں ۔اس بات کے ثبوت کےلئے یہی کافی ہے کہ آج بھی میانوالی کے ایک سابق ایم این اے انعام اللہ نیازی ضلع بھکر سے ایم پی اے ہیں ۔اہل بھکر ۔ زندہ باد
سلگتےتھل کے صحر ا میں محبت کے سمندر کو سلام
میانوالی کے لوگوں کی طرف سے اہلِ بھکر کو سلام
mansoor afaq

