ضربِ عضب کا دائرہ. منصورآفاق
دیوار پہ دستک

ضربِ عضب کا دائرہ

ضربِ عضب کا دائرہ

منصورآفاق

کیا کہوں ظالم پاناما لیکس والوں کو ۔ہمارے اچھے صحت مند وزیر اعظم کو علیل کردیا ۔اللہ کا شکر ہے اب طبیعت بہتر ہے ۔اُدھر ڈاکٹر عاصم نے بھی کسی بنانا لیکس کا نعرہ بلند کر دیاہے ۔مجھے سابق صدر آصف زرداری کی صحت بھی خراب ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے ۔وہ بیچارے پہلے ہی علاج کیلئے ملکوں ملکوں پھر رہے ہیں ۔کہتے ہیں کہ مریض کیلئے ڈاکٹرزکا مشورہ نظر انداز کرنا اچھا نہیں ہوتا مگروزیر اعظم نواز شریف کو کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔وہ وزیر اعظم ہیں ان کے جی میں آئے تو کسی کی سنیں ،جی میں نہ آئے تو چاہے اپنی بھی نہ سنیں ۔بہر حال ہوا یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف ڈاکٹر ز کے مشوروںکو نظر انداز کرکےگزشتہ روزواپس وطن آگئے ہیں ۔ ویسے اچھا کیا ہے ۔ ڈاکٹرز نے آرام کرنے کا ہی مشورہ دیا تھا تو آرام یہاں بھی کیا جاسکتا ہے ۔بس ٹیلی وژن دیکھنا چھوڑ دیں۔ اخبار پڑھنا بند کردیں ۔صرف وزیر اطلاعات کی اطلاعات پر بھروسہ کریں تو آرام ہی آرام ہے۔انہیںمیڈیا کی چیختی دھاڑتی ، حملہ آور خبروں اور تجزیوں کے سامنے آکھڑا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ صرف اچھی خبریں سنا کریں ۔اچھے لوگوں سے ملا کریں ۔پتہ نہیں ،خدا جانے یہ دلدار خبر انہیں جہاز پر سوار ہونے سے پہلے ملی تھی یا ایئر پورٹ پر اترنے کے بعدکہ ضربِ عضب کا دائرہ پورے ملک پر پھیلا دیا گیا ہے ۔یعنی پورے ملک میںجس جگہ پر بھی وزیرستان ہونے کا شک ہو گا وہیں کارروائی شروع کر دی جائے گی۔ یقینا یہ ایک ایسی خبرہے جو ان کیلئے شادابی ء قلب و نظر اور انبساط ِ روح کا سبب بنی ہوگی ۔

آخر وہ بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل طور پرخاتمہ ہوجائے ۔ ملک میں سکھ چین کی بانسری سنائی دے ۔نیرو کی نہیں ۔کچھ بے وقوف لوگوں نے یہ سوال اٹھانے کی بھی ناکام کوشش کی ہے کہ جنرل راحیل نے اس تازہ ترین اعلان کیلئے کسی طرح کی قانونی اجازت کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔او بھئی جب پوری قوم ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی ہے تو انہیں کسی ایسے تکلف کی کیا ضرورت ہے ۔صرف وزیر اعظم نواز شریف ہی نہیں ، عمران خان ، آصف زرداری حتیٰ کہ ایم کیو ایم کے قائد بھی اس معاملے میں ان کے شانہ بشانہ ہیں ۔ دہشت گردی ہے ہی ایسا عمل۔جس کے حق میں انسان تو کجا جانور بھی نہیں ہوسکتے ۔ میرے خیال میں تو کراچی کے آپریشن کو بھی ضربِ عضب کا حصہ قرار دیا جائے ۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ رینجرزکوہر تین ماہ کے بعدسندھ میں کارروائی کی اجازت لینی پڑے ۔عسکری حلقوں میں یہ افواہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ پنجاب میں چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن ختم ہوتے ہی لاہور کے گرد و نواح میں آپریشن شروع کردیا جائیگا ۔اور اگر کسی کی بدقسمتی سے چھوٹو کو زندہ گرفتار کرلیا گیا تو پنجاب میں کچھ حیرت انگیز گرفتاریاں بھی عمل میں آسکتی ہیں ۔بے شک ضرب ِعضب کا ٹارگٹ دہشتگردہیں مگرسننے میں آیا ہے کہ اِس ملک گیرآپریشن میںدہشت گردوں کے سہولت کاروںکے خلاف پہلے کارروائی ہوگی ۔وزیر قانون رانا ثنااللہ کیلئے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ فاٹا سے باہرہونے والے اس آپریشن میں سب سے زیادہ کارروائیاں پنجاب میں کی جائیں گی ۔چونکہ صوبہ بلوچستان ، صوبہ سندھ اور صوبہ پختون خوا میں تو یہ آپریشن ایک عرصے سے جاری ہے مگر پنجاب میں ابھی شروع کیا گیا ہے۔اس لئے اسے پنجاب میں ہی بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے گا تاکہ دہشت گردوں کی نرسریوں کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے ۔پنجاب میں فوجی آپریشن کے راستے میں جوچھوٹی موٹی رکاوٹیں کھڑی تھیں وہ ساری اس بڑے آپریشن کے اعلان کیساتھ ہی بہہ گئی ہیں ۔ پنجاب میں فوجی آپریشن کیوں ضروری تھا اِس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز وزیرستان سے نہیںپنجاب سے ہواہے۔ ضلع جھنگ میں قائم ہونے والی ایک کالعدم تنظیم نے پاکستان میں مذہبی قتل و غارت کی ابتداکی۔ نوے کی دہائی میں ہونے والی زیادہ تردہشت گردی اِسی علاقے سے متعلق تھی۔کہا جاتا ہے کہ یہیںسے کئی مراکز وجود میں آئے ۔بیرونی فنڈنگ بارش کی طرح برسی ۔دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم ہوئیں پلاننگ بھی یہیں ہونے لگی۔جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تواس تنظیم کے لوگوں نے فاٹا کے علاقے میںتحریک طالبان پاکستان بنانے میں اہم کردار کیا۔کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کو ابتدائی سرمایہ اور اسلحہ وغیرہ بھی انہی لوگوں نے فراہم کیا۔اطلاع کے مطابق وزیرستان سے بھاگے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے کئی رہنما اس وقت بھی مبینہ طور پر انہی مراکز میںموجود ہیں ۔پنجابی طالبان کی کارروائیاں توخیر ایک عرصے سے جاری ہیں مگر آج تک ان کے خلاف کوئی بڑا آپریشن نہیں کیا گیاتھا۔آج بھی جنوبی پنجاب کے بعض علاقے پنجابی طالبان کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں ۔یہیں سے درجنوں ایسے مشتبہ افرادگرفتار کئے گئے جوداعش کیلئے نوجوانوں کو بھرتی کر رہے تھے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ یہاں ہزاروں تعلیمی مراکز کی کڑی نگرانی جا ری ہے۔ایک اندازے کے مطابق جنوبی پنجاب میں20ہزارسے زائد مذہبی تعلیمی مراکزموجود ہیں۔

یہ خبر بھی بڑی اہم ہے کہ وہ سہولت کارجنہوں نے دہشت گردی کیلئے رقم فراہم کی سب سے پہلے انہی کے خلاف کارروائی شروع کی جائے گی۔ یعنی دہشت گردی کے ساتھ جڑی ہوئی کرپشن پر وار ہونے والا ہے ۔اور اس سے بھی زیادہ اہم خبر یہ ہے کہ وہ دوسوپاکستانی افراد جن کے نام پاناما لیکس میں شامل ہیں،ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کا نام سہولت کاروں کی فہرست میں بھی شامل ہے یعنی پاناما لیکس کے معاملات بھی کسی وقت ضرب ِ عضب کا حصہ بن سکتے ہیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے