
سیاست کا سدھارتھ
سیاست کا سدھارتھ
منصور آفاق
سدھارتھ جو ایک برہمن امیرزادہ ہے جب اسے اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ دانش سیکھنے سکھانے سے نہیں آتی ۔وہ سب کچھ تیاگ دیتا ہے ،باپ کا گھر چھوڑ کر جوگیوں اور سنیاسیوں کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ جہاں اسے تین ہنر حاصل ہوتے ہیں وہ بھوکا رہ سکتا ہے انتظار کر سکتا ہے اور غور وفکر کر سکتا ہے۔ اگرچہ اسے اپنا جسم چھوڑ کر دوسرے جسم میں داخل ہوجانے کی شکتی حاصل ہو چکی ہوتی ہے اور اس کی آتما پرندوں اور جانوروں کے بدن میں داخل ہو کر ایک دنیا گھوم آئی ہوتی ہے مگرسدھارتھ کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے بچپن کے دوست اپنے ہمسفر گوونداسے کہتا ہے کہ ان سادھوؤں سےجو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ تو میں اس سے کہیں زیادہ آسانی سے اور کہیں زیادہ جلدی جواریوں میں یا کسی کے کوٹھے پر رہ کرسیکھ سکتا تھا۔ وہ انہیں جب چھوڑ کر جانے لگتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ وہ اگر وہاں مزید رکے توبوڑھا سادھو اسے پانی پرچلنے کا ہنرسکھانے پر آمادہ ہے۔ مگر سدھارتھ کہتا ہے کہ اسے پانی پر چلنے کی کوئی خواہش نہیں ۔دراصل وہ محسوس کر لیتاہے کہ ان سادھوؤں میں رہ کر وہ روحِ کل یعنی برہما کے نزدیک نہیں ہو سکتا ۔وہ اپنے دوست گووندا کے ساتھ گوتم بدھ سے ملتا ہے ۔گووندا گوتم بدھ کا چیلا بن جاتا ہے۔
سدھارتھ بھی گوتم بدھ سے متاثر ہوتا ہے مگروہ سوچتاہے کہ اس کا چیلا بن جانا اس کی جستجوکا حاصل نہیں۔گوتم بدھ سے اس کی گفتگو اسے اپنی ذات کی طرف متوجہ کر جاتی ہے اور وہ برہما کی تلاش اپنی ذات میں شروع کر دیتا ہے۔ سوچتا ہے کہ اس کا اپنے آپ سے بھاگنے کا عمل غلط تھا۔ وہ اس نامعلوم باطن کی تلاش میں خود سے الگ ہو نا چاہتا تھاجو مرکزِ حیات ہے، مطلق ہے الوہی ہے سواس نے رگ وید ،اتھر وید اور سنیاس کی تعلیمات چھوڑ دیں اور خود اپنی شاگردی اختیار کر لی۔ اس نے خود سے سیکھنا شروع کیا کہ سدھارتھ میں کیا اسرار ہیں۔ اسے دنیا خوبصورت لگنے لگی اس نے خود سے کہا کہ میں بھی کتنا احمق ہوں جب کوئی شخص کسی چیز کو پڑھتا ہے تو اس کے حروف سے اور اعراب سے نفرت نہیں کرتاجیسے یہ کوئی حادثاتی اوربے مقصد چھلکے ہوں بلکہ ان کو حرف بہ حرف یعنی ان کے ہجے کر کے انہیں پڑھتا ہے ان سے محبت کرتا ہے میں اپنی اور برہما کی ذات کی کتاب پڑھنا چاہتا تھا مگر اس کے حروف و اشارات سے نفرت کرتا تھا دنیا کو دھوکہ سمجھتا تھا ۔ وہ دنیا میں پلٹ آیا مگر اپنے باپ کے گھر نہیں گیا کہ وہاں پھر وہی چڑھاوے یوگ اور آسن کے کھیل اس کے منتظر ہوں گے۔ وہ کسی شہرمیں پہنچ جاتاہے اور کملا نامی ایک طوائف کا محبوب بن جاتا ہے ۔ایک تاجر سے شراکت داری کرتا ہے۔ تلاش کے طویل سفر میں اس نے جو صبر اور شعور کے ہنرسیکھے تھے ان کی بدولت وہ محبت اور کاروبار دونوں میں بہت کامیاب ہوتا ہے ۔بہت امیر آدمی بن جاتا ہے۔پہلے پہل یہ سب کچھ اس کے نزدیک ایک کھیل سے زیادہ کچھ نہیں ہوتامگروہ آہستہ آہستہ عزت ، دولت،طاقت،محبت ، امید اورتوقعات کی دنیا میں جذب ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔اور پھر ایک دن ۔۔کملا کی گفتگونے اس کی روح کے تاروں کو چھیڑ دیا۔۔۔ اس کے اندر سوئے ہوئے سدھارتھ نے کروٹ لی اورآنکھ کھلتے ہی وہ سب کچھ بھول کر جنگل کی طرف چل پڑا۔۔۔ وہ زندگی کو متلی کی حد تک چکھ کر دیکھ چکا تھا ۔ موت کی تمنا اس میں کروٹیں لینے لگی تھی۔وہ خود سے اس حد تک بیزار ہو گیا تھا کہ اس نے دریا کے پانی میں اپنا چہرہ دیکھا تو اس پر تھوک دیا۔وہ اب جسم کو فنا کر کے شانتی حاصل کرنا چاہتا تھا۔
سدھارتھ نے دریا کے ساتھ رہنے کا ارادہ کرلیا ۔دریانے اس کی آتما کو اپنی گرفت میں لے لیا تھااس نے دیکھا کہ پانی بہتا ہے اور بہتا چلا جاتا ہے اور پھر بھی ہمیشہ وہیں رہتا ہے اور ایک سا رہتا ہے لیکن ہر لمحہ نیا بھی ہوتا ہے ۔وہ دریا کے کنارے اسی بوڑھے مانجھی واسودیو سے ملاجس نے جوانی میں اسے دریا پار کرایا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ مانجھی دریا کا دوست ہوتا ہے اسے دریا سے یہ معلوم ہو چکا ہوتاہے کہ وقت اپنے تئیں کچھ نہیں ہوتا۔ سدھارتھ کچھ اس کی وساطت سے اور کچھ اپنی ریاضت سے دریا سے باتیں کرنا سیکھ جاتا ہے۔موسم آنے پر جب دریا چنگھاڑنے لگتا ہے تو سدھارتھ کو دریا سے بہت سی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ راجے کی آواز، جنگی سورما کی آواز ، بیل کی آواز، رات کے پرندوں کی بولیاں،حاملہ عورت کی آواز،آدمی کی سسکیوں کی آواز اور ہزاروں دوسری آوازیں اس کے غور کا سبب بن جاتی ہیں اور سدھارتھ کو دریا میں زندگی کا ماضی ، حال اور مستقبل نظر آنے لگتاہے ۔
میں نے اس وقت ’’ہرمن ہیَسے ‘‘ کےناولٹ ’’سدھارتھ‘‘ کی کہانی ایک جیتے ہوئے کردار کی علامت کے طور پر سنائی ہے ۔ممکن ہے کچھ لوگوں پریہ علامت نہ کھلے ۔کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
غالب نے کہا تھا، بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ….کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ۔ ہم پاکستانی برسوں سے علامت کایہی استعمال کرتے آرہے ہیں کہ سچ کے اوپر جھوٹ کی بھی دوچار کی لکیریں کھینچ دی جائیں تاکہ کہا جا سکے کہ ہم نے تو آپ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات نہیں کی تھی۔اس کہانی کو ایک تجریدی پینٹنگ سمجھیے ۔ابھی دوچار دن رہتے ہیں ۔میری علامت غلط بھی ثابت ہو سکتی ہے مگر اس کے امکانات بہت کم رہ گئے ہیں ۔میں کچھ دنوں کے بعد پاکستان کے مقبول ترین کالم نگار ، حسن نثار ،ایاز امیر اور مظہر برلاس کے ساتھ بیٹھ کر کہیں شام ِ غم منانے والا ہوں ۔یہ غم پاکستان کا غم ہے ۔ یہ غم آج کا غم ہے بقول فیض ’’آج کے غم کے نام۔۔آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا۔۔زرد پتوں کا بن۔۔زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے۔۔درد کی انجمن جو مرا دیس ہے۔بہر حال داغِ فراق ِ صحبت ِ شب کی جلی ہوئی آخری امید بھی خاموش ہونے والی ہے ۔وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے ۔
mansoor afaq

