سپہ سالار کی بانگِ بلند. منصورآفاق
دیوار پہ دستک

سپہ سالار کی بانگِ بلند

سپہ سالار کی بانگِ بلند

منصورآفاق

سپہ سالار کی طرف سے کہاگیاکہ ’’میں وقت ِ مقرر پر ریٹائر ہوجائوں گا ‘‘شہر میںگفتگوئے رنگ و بو کے دبستان کھل گئے ۔کہیںپھول اداس ہوگئے کہ آتی ہوئی بہارکا اب کیا ہوگا۔ کسی نے سوال کیا کہ جسے تتلیوں اور جگنوئوں نے اپنا مسیحا سمجھا تھاکیا وہ صرف اپنے پیشہ ورانہ وقار کیلئے انہیں کسی آسیب زدہ راستے میں اکیلا چھوڑ جائے گا۔وہ جس نے سبزہ زاروں سے درندوں کو نکالا تھاکیاوہ پھر موسمِ گل کو انہی کے حوالے کر دے گا۔وہ جو ایک گلپوس اور زرتار دور کی تمہید بننے والا تھاکیا واقعی وہ صبحِ نگاراں کو تاریکیوں اور خزائوں کی وادیوں میں چھوڑ کر کہیں جانے والا ہے۔ہائے یہ کیا ہوا ۔شاخ شاخ یہی ڈر پھیل رہا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ پھرگلستان میں اُسی باغبان کادور پلٹ آئے جس میںووٹ اور نوٹ دونوں لٹ گئے تھے ۔چمن سے نکالی ہوئی خوف کی فضا پھر کہیں لوٹ نہ آئے ۔دہشت کے سرسراتے ہوئے سائے پھر کہیں شہروں کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں ۔رکتی ہوئی اجتماعی’’لوٹ ‘‘ کی داستان پھر لیلیٰ ِشب کے لبوں پر مچلنے نہ لگے ۔پھر پہاڑوں پرموت کے عفریت کوجنم دینے والی کرپشن کی ریش دار دیوی کاراج نہ قائم ہوجائے۔

اگر وہ چلا گیا توکیاخطہ پنجاب میں ظلمت ِ شب کے رکھوالوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے روشنیوں کے لشکری آسکیں گے یا تھل کی صحرائی درس گاہوں میں خود کش جیکٹیں تیارہوتی رہیں گی۔ کیابلوچستان میںاقتصادی راہداری کے کناروں پر جھلملاتی ہوئی روشنیوں کو تحفظ مل سکے گا۔کوئٹہ میں ہزارہ کے لوگ جی سکیں گے ۔کیا پختون خواکے زخم زخم پہاڑوں پر کوئی مرہم لگا سکے گا۔کیا وزیر ستان پھر طالبستان نہیں بن جائے گا ۔کیا سندھ کی سڑکوں پر ظلمتیں راج نہیں کرنے لگیں گی ۔کیا زندہ کراچی پھر مردہ نہیں ہوجائے گا۔نیب کے جسم سے جان نہیں نکل جائے گی ۔یہ سلگتے ہوئے سوالوں سے بھرے ہوئے لوگ سوچتے ہیں۔ کہیںاپنے بازار گرم رکھنے کیلئے ہم کشمیریوں کے خون کو بھول تو نہیں جائیں گے ۔کہیں دہشت گردوں کا پھر ہمارے اسپتالوں میں علاج تونہیں ہونے لگے گا۔کہیں ماڈل ٹائون میں پھر کوئی سانحہ کروٹیں تو نہیں لینے لگےگا۔ ایک طرف ایسے بے شمار اندیشہ ہائے دور و درازہیں۔واہمے ہیں۔ وسوسے ہیں۔ماضی کے تلخ تجربات سے نکلے ہوئے خدشے ہیں اور دوسری طرف کسی کے چمن ِ دل میں گلوں میں رنگ بھرتی ہوئی بادِ نو بہار چلنے لگی ہے کہ بس وہ طوفان گزرنے والا ہے جس کے سبب گلشن کا کاروبارٹھپ ہوگیا تھا۔خوشی چہروں سے پھوٹنے لگی ہے کہ بہاروں کے پھاٹک کھلنے والے ہیں۔ جلد ہم ریگزارِعرب کی جسم جھلساتی دھوپ کو چھوڑ کرآب ِ دبیل کے کنارے شام کی سیر کیا کریں گے ۔بادبانوں میں آنچلوں کے رنگ لہرائیں گے ۔عرشوں پر ماڈلنگ ہوگی۔رنگ برنگی روشنیاں سمندرکے پانیوںمیں جگمگائیں گی۔کشتیاں ڈالروں سے بھری ہونگی ۔پھرساحلِ سمندر کی زمینوں پر ہمارا قبضہ ہوگا۔پھر میثاقِ جمہوریت سے نوٹوں کی بارش ہوگی ۔

انہوں نے اِن کھردرے لفظوںکا اِس اہتمام سے خیر مقدم کیا کہ جیسے زندگی میں اِس سے خوبصورت خبر انہیں اور کوئی ملی ہی نہیں۔صرف یہی نہیںاور بھی کچھ لوگ خبر پر رقص کناں دکھائی دئیے ۔خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے دوہزار پندرہ میں پاکستان کی تباہی کا خواب دیکھ رکھا تھا اور ان کے میڈیا نے بھی اِس خبر کو اِس طرح اچھالا کہ شرق و غرب میں پھیلا دیا ۔ شاید اس لئے کہ کہیں سپہ سالار اپنی کہی ہوئی بات سے منحرف نہ ہوجائے۔

تیسری طرف بیٹھے ہوئے لوگ سوچتے ہیں کہ یہ کہیں سورج نے سایوں کو شٹ اپ کال تو نہیں دی ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے لندن کی کسی گلی میں ’’دورانیے ‘‘زیر بحث تھے کہ کیاسپہ سالاری کا دورانیہ تین کی بجائے چار سال کردیا جائے۔مجلسِ نمائندگانِ عوام کا دورانیہ پانچ کی بجائے چار سال پر محیط ہویا نہیں۔ذہنوں میں فائدوں اور نقصانوں کی جمع تفریق جاری ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خوش ہونے والوں کے دلوں میں پریشانیاں کروٹیں لے رہی ہیں ہیں۔کیونکہ گینداب ان کے کورٹ میں واپس آچکی ہے ۔سپہ سالار اعظم بنانے کا نذرانہ پائوں کی ٹھوکر سے کسی کھڈے میں جاگرا ہے ۔دورانیہ بڑھانے کا طرح دار معاوضہ واپس کردیا گیا ہے ۔پریشانی برقرار ہے کہ صبح ِمختار کی نویدسنائی دے گی یا نہیں۔چراغِ منیر کی روشنی ہوٹل کے وسیع وعریض لان سے نکل کرتختِ لاہور کو منورکر سکے گی یا نہیں ۔
ایک چوتھی سمت بھی ہے ۔یہ لوگ نومبر سے پہلے پہلے کسی تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں یا اُس کے خواہش مند ہیں۔ان لوگوں کے خیال کے مطابق اگلے چند ماہ میں دہشت گردی کے خلاف جو کچھ ہونے والا ہے اسے موجودہ حکومت برداشت نہیں کرسکے گی اور معاملات زیادہ خراب ہوجائیں گے۔ سپہ سالار نے دوہزار سولہ میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی نوید سنا رکھی ہے اوروہ کوئی سیاسی لیڈر نہیں جو اپنی تاریخیں بدلتے رہتے ہیں ۔سوپنجاب میں کارروائی کا آغاز ہوا چاہتا ہے ۔خاص طور پر دہشت گردی کے ساتھ جڑی ہوئی کرپشن کے خلاف ایک خوفناک مہم شروع ہونے والی ہے۔یہ بھی انہی لوگوں کا خیال ہے کہ اِسی ضروری عمل کو روکنے کیلئے سپہ سالار کو آفرز دی گئی تھیں جنہیں ٹھکراتے ہوئے اُس نے نوماہ پہلے یہ بیان جاری کرادیا ہے کہ میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا میرے نزدیک ملک کی سالمیت سب سے زیادہ اہم ہے اوراس وقت ملک کی سالمیت پٹھان کوٹ کے واقعہ میں حکومت کی غلط پالیسی اور چارسدہ کالج پر حملے میں بھارت کے ملوث ہونے سے جڑی ہوئی ہے۔شاید وزیر داخلہ چوہدری نثار کی اپنی حکومت سے ناراضی کا سبب بھی انہی معاملات سے جڑا ہوا ہے۔

یہ میں نے چار طرح کے لوگوں کے خیالات بیان کئے ہیں۔اب یہ وقت بتائے گا کہ ان میںسے کون درست سوچ رہا تھا۔البتہ میں ذاتی طور پرمایوس نہیں ہوں۔انشااللہ اوباما کا کہا ہوا غلط ثابت ہوگا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے