
سرفراز کی سرفرازی
سرفراز کی سرفرازی
منصورآفاق
میں نے کبھی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے حق میں کلمہ ء خیر نہیں کہامگر گزشتہ پانچ چھ دنوں میں کچھ ایسے مناظر دیکھے ہیں ان کی قصیدہ گوئی پر مجبور ہوگیاہوں۔ان منظروں کا تعلق عمران خان کے شہر میانوالی میں آنے والی حیرت انگیز تبدیلی سے ہے ۔وہ جو شہر ِ اشک و آہ ہوا کرتاتھا وہ روشنیوں اور خوشبوئوں کا نگر کیسے بن گیا۔وہ شہر جس کی پہچان ہمیشہ سے قتل و غارت تھی اسے امن کو گہوارہ کس نے بنادیا۔
میں گزشتہ ماہِ رمضان میں میانوالی آیا تھاتو اُس ایک ماہ میں اس ضلع میں 54قتل کی وارداتیں ہوئی تھیں۔پورے شہرمیں چوروں اور ڈاکوئوں کا راج تھا۔لوگ استراحت کی بجائے رات بھر جاگ کر اپنے گھروں کی حفاطت کرتے تھے ۔اس کے باوجود روزانہ دوچار گھر لوٹ لئے جاتے تھے ۔ ڈاکو،دن دیہاڑے وارداتیں کرتے تھے اور پولیس ان کی رکھوالی کرتی تھی۔ چند با اثر لوگ جسے چاہتے تھے گرفتار کر ادیتے تھے اور جسے چاہتے تھے رہا کرا دیتے تھے ۔ہر تھانے میں ایس ایچ او سے لے کر سپاہی تک انہی جرائم پیشہ لوگوں کے سرپرستوں کی مرضی سے تعینات کیا جاتا تھا ۔یعنی میانوالی میں پولیس کا امیج اور مجرموں کا امیج ایک جیسا تھا۔
سود خوروں نے بازار میں دکانیں کھولی ہوئی تھیں ۔ہر بااثر شخصیت کا اپناقبضہ گروپ تھاجوطاقت ور لوگوں کو میانوالی چھوڑ نے پر مجبور کر دیتے تھے اورپھر ان کے مکانات پر قابض ہوجاتے تھے۔گلی گلی میں ہیروئن فروخت ہوتی تھی ۔کچے کا علاقہ اشہاری مجرموں کیلئے جنت تھا۔ یہاں غیر قانونی اسلحے کے انبار تھے۔ دور دور سے جرائم پیشہ لوگ اسلحے اور منشیات کی خریداری کیلئے یہیں آتے تھے ۔یہاں غریب آدمی کی زندگی شرمندگی تھی۔جیون موت سے بدتر تھا۔میانوالی کے کچھ علاقوںسے تو لوگ ہجرت کرنے لگے تھے اور یہ المیہ اُس مقام تک پہنچ گیا تھا کہ عطااللہ عیسٰی خیلوی کو یہ گیت گانا پڑ گیا کہ (کوئی تاں نشانی دس چناں توں پیار دی ۔۔کیوں گھٹ گئی ہے ابادی تیرے شار دی۔ کوٹھیاں دا کاٹھ پٹ چلے کمزور وے )
میں میانوالی کو ایسی صورت حال میں چھوڑ کر برطانیہ آگیا تھامگر گزشتہ ہفتے جب واپس آیا تو میانوالی ایک بالکل مختلف شہر تھا۔لوگ سڑکوں پر آ جا رہے تھے مگر کسی کے کندھے پر رائفل نہیں لٹک رہی تھی۔یہ تو وہ شہر تھا جہاں ہر تیسرا آدمی گھر سے بندوق یا پستول لے کر باہر نکلتا تھا۔کسی گلی میں کوئی منشیات بیچنے والا موجود نہیں تھا۔رات کو بھی گھروں کے دروازے بند کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔سود خوروں کی دکانیں بند ہو چکی تھیں۔مکانوں اور زمینوں کے قبضے مالکان کو واپس مل گئے تھے ۔وہ بدمعاش جن کے پیچھے اسلحہ برداروں کی کئی کئی گاڑیاںچلتی تھیں جیلوں میں منتقل ہوچکے تھے ۔وہ جنہوں نے نمائش کیلئے اپنے ڈیروں میں اینٹی ایئر کرافٹ گنیں تک سجارکھی تھیں ان کی تھانوں میں چھترول ہورہی تھی ۔ حتیٰ کہ رشوت خورپولیس انسپکٹروں کو چھتر مارے جا رہے تھے ۔اور ہر زبان پر بس ایک ہی نام تھا ’’سرفراز خان ورک ‘‘ مائیں بہنیں اسے ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں دے رہی تھیں ۔ضلع بھر میں اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جگہ جگہ لوگوں نے اس کے نام کے بینر لگا رکھے تھے۔ہر مسجد میں جمعہ کےروز اس کیلئے خاص طور پر دعائیں مانگی جارہی تھیں ۔یہ ضلع میانوالی کا ڈی پی او تھا۔بلکہ ہے ۔کوئی سات مہینے پہلے اس کی پوسٹنگ اِس ضلع میں ہوئی تھی۔اور اس نے اتنی قلیل مدت میں میانوالی کو ایسا مثالی شہر بنا دیا تھاجس کی کوئی مثال ممکن نہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے استحصالی طبقہ غریب لوگوں کو ڈی پی او کے نام سے ڈرایا کرتا تھا کہ ابھی تمہاری چھترول کراتا ہوں اور اب یہ حالات ہیںکہ غریب لوگ استحصالی طبقے کو سرفراز کے نام سے ڈراتے ہیں ۔بڑے سے بڑے بدمعاش یا وڈیرے کو جب کوئی غریب یہ دھمکی دیتا ہے کہ میں سرفراز خان ورک کو فون کروںتو وہ ہاتھ جوڑنے لگ جاتے ہیں کہ بس اس مرتبہ معاف کر دو۔غلطی ہوگئی ہے ۔ڈی پی او کا نمبر ہر شخص کے پاس موجود ہے انہوںنے ہر چوک پر اپنے ٹیلی فون نمبر کے بڑے بڑے بینر لگوا دئیے ہیںاور اعلان کرادیا ہے کہ کوئی بھی شخص مجھے فون کر سکتا ہے ۔گزشتہ دنوں جب ایک سود خوروڈیرے نے جیل میں بیٹھ کر اُس غریب شخص کو قتل کرانے کی کوشش کی جس کی شکایت پراسے گرفتار کیا گیا تھا توسرفراز نے کہا کہ یہ گولی اس غریب کی ٹانگ میں نہیں میری ٹانگ میں لگی ہے ۔ اورپھر یوں ہواکہ وہ سود خور وڈیرہ عبرت کا نشان بن گیا۔تقریباً تمام اشتہاری مجرموں نے خود آکر گرفتاریاں دے دی ہیںکہ سچ مچ کے پولیس مقابلے میں مرنے سے کہیں بہتر ہے کہ باقی زندگی جیل میں گزار دی جائے ۔
میانوالی میں اس نوجوان ڈی پی اوکی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ایک اسکول میں دوران تقریب اٹھ کر جب وہ جانے لگے تو تمام اسٹوڈنٹ تقریب چھوڑ کر اس کی طرف لپکے ہر طالب علم کی خواہش تھی کہ ان کے ساتھ تصویر بنوائے۔ اسکول والوں کےلئے تقریب جاری رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔میانوالی کے تمام استحصالی طبقے مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح اس ڈی پی او کا تبادلہ کرادیا جائے تاکہ وہ پھر اپنے ظلم و ستم کا آغاز کرسکیں ۔اس حوالے سے میں شہباز شریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک تو میانوالی کے عوام کو ایسا تحفہ دیا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں اور اس کے ساتھ سرفراز خان کی پشت پر مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں۔میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ وہ اگر پنجاب کے ہر ضلع میں ایسا ہی ڈی پی او لگادیں تو پورا پنجاب جنت نظیر بن جائے گا۔

