1947سے پہلے پاکستان کا دارالحکومت ’’لندن ‘‘ تھا۔وہیں سے جب ٹیلی گرا ف آتا تھا تو یہاں موسم تبدیل ہوجاتا تھا پاکستان بننے کے بعد یہ مقام و مرتبہ لندن کی بجائے واشنگٹن کو حاصل ہوا ۔مگر لندن کی عظمت ورفعت اپنی جگہ پر مسلمہ رہی ۔ 1947 سے پہلے یہاں ملکہ برطانیہ کےلئے مساجد تک میں دعائیں مانگی جاتی تھیں ۔ملکہ کے شہزادوں کی سالگرہ کی تقریبات ہوا کرتی تھیں ۔ ملکہ کی لائبریری میں آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں اردو قصائد موجود ہیں جو یہاں کے بڑے بڑے شاعروں نے ان کی شان میں لکھے تھے ۔یعنی لندن کیساتھ پاکستانیوں کی محبت بہت پرانی ہے ۔آج بھی پاکستانی بے شمار معاملات میں لندن کی طرف دیکھتے ہیں۔تقریباً تمام امیر و کبیر پاکستانیوں کی وہاں رہائش گاہیں موجود ہیں ۔بڑے بڑے پاکستانی سرمایہ کاروں نے وہاں سر مایہ کاری کر رکھی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق صرف برطانیہ میں پاکستانیوں کی دولت ایک ہزار ارب پائونڈ سے زیادہ ہے ۔کوئی اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں اس کے آٹھ دس چکر لندن کے ہرسال یونہی لگ جاتے ہیں ۔
ویسے تو میں بھی لندن میں رہتا ہوں مگر میں سرمایہ دار نہیں شاعر ہوں ۔سو ندیم بھابھہ کا ایک مصرعہ یادآ رہا ہے ’’واقعہ ایک ہے کردار بدل جاتے ہیں‘‘ ۔یعنی ایک واقعہ کی طرح ہے جہاں پاکستانی سیاست کے کرداربدلتے رہتے ہیں۔ہر ایک ہی تمثیل نئے کرداروں کیساتھ وارد ہوجاتی ہے ۔لندن میں ہمیشہ پاکستانی سیاست کا ایک تھیٹر لگا رہتا تھا۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے مل کر جب دھرنا دیا تھا تو کسی لندن پلان کو بڑی شہرت ملی تھی ۔کہا گیا تھا اس کاا سکرپٹ لندن میں بیٹھ کر عمران خان ، ڈاکٹر طاہر القادری اور چوہدری پرویز الٰہی نے تحریر کیا ہے حتیٰ کہ یہاں تک کہا گیا کہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہورہا ہے ایسی افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ حساس ادارے کے سابق چیف نے کینیڈا میں جا کر ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کی ہے ۔لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ سب باتیں کہانیاں قصے تھے داستانیں تھیں ۔پاکستانی سیاست میں آج کل پھر ایک لندن پلان کی بڑی شہرت ہے ۔سنا ہے دوسری بارلندن اپنے میڈیکل چیک اپ کے لئے جانے والی ایک بڑی شخصیت کا اصل مقصد دراصل یہی ہے ۔وہاں سابق صدر آصف زرداری بھی موجود ہیں اور الطاف حسین بھی۔ اطلاع ہے کہ تینوں صاحبان ایک اسپتال سے اپنا علاج کرا رہے ہیں یعنی زبان میر تقی میر ایک ہی عطار کے لونڈے سے دوالے رہے ہیں۔اس لندن پلان کے بارے میں افواہ ہے کہ یہ پہلا پاکستانی سیاست دانوں کا پلان ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بنایا جارہا ہے۔ممکن ہے وقت پر یہ پلان دھرنے والے لندن پلان کی طرح کا ثابت ہو مگر ابھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
ایک بات طے ہے کہ اس پلان میں شریک تینوں رہنمائوں کے چہرے اترے ہوئے ہیں ۔خاص طور پر حکومتی افراد کے چہروں پر ان دنوں ایک رنگ آتا ہے اور ایک رنگ جاتا ہے ۔رویئے بدلے ہوئے ہیں۔ماتھوں پر لگی ہوئی آنکھیں واپس اپنی جگہ پر دکھائی دے رہی ہیں ۔بظاہر خاموشی ہے مگر اندر طوفان دھڑک رہا ہے ۔کچھ تبدیلیاں ان دکھائی دے رہی ہیں کہ اندر کا خوف آ نکھوں سے نکل کر رخساروں پر پھیل گیا ہے۔خوف بھی عجیب شے ہے ۔جب یہ اپنی آخری حد تک پہنچتا ہے تو خوفزدگی کچھ کر لیتی ہے ۔بلکہ اکثر اوقات خوف زدہ آدمی انتہائے خوف پہ پہنچ کر بے پناہ بہادر ہوجاتا ہے ۔اس میں استقامت آ جاتی ہے ۔اور وہ چیخ کر کہتا ہے ۔ ستمگر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی ۔ ہمیں تو دیکھنا یہ ہے کہ تُو ظالم کہاں تک ہے ۔تجھے ہے ناز طاقت پر تو غرہ پرصبر ہم کو ۔ لگا لے زور تو سارا ،تری طاقت جہاں تک ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جب کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دیتا تو بھیڑ بھیڑیئے سے بھی لڑجاتی ہے ۔ جان بچانےکےلئے آخر ی دائو استعمال کرتے ہوئے کئی بار مرغی نے بلی کی آنکھیں نکال دی ہیں ۔ممولوں سے شہبازوں کا شکار بھی ممکن ہے ۔
یہ لندن پلان بھی اسی خود کا شاخسانہ ہے ۔ میرا ایک دوست جو وزیر اعلیٰ کا مشیرتھا گزشتہ روز اس نے استعفیٰ دے دیا ۔میں نے اس سے کہا کہ’’ یار دوماہ صبر کر لیتے ‘‘ابھی میں نے اپنا جملہ مکمل نہیں کیا تھاکہ وہاں موجود ایک سرکاری اعلیٰ عہدیدار نے کہا ’’یہ دوماہ دو سالوں سے سن رہے ہیں ہم جانے والے نہیں ۔ تم سب خواب دیکھتے رہو۔حکومت کہیں نہیں جائے گی ‘‘میں اس کی بات سُن کر حیران و پریشان ہو گیا کیونکہ اپنے دوست کو اس لئے دو ماہ صبر کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ اس کے بعد جو کام شروع کرنا ہے وہ دو ماہ کے بعد شروع ہوگا۔سو دوماہ یونہی بےکار رہنے کا کیا فائدہ ۔ مگر اُس اعلیٰ سرکاری عہدیدار کاجملہ سن کرمجھے محسوس ہوا کہ خوف کا کیا عالم ہے ۔ یقینا اہل اقتدار کواگلے دو ماہ اپنے اقتدار کےلئے بہت بھاری لگ رہے ہیں ۔یعنی حکومتی وزیروں اور مشیروں کو یہ خطرہ ہے کہ ان دوماہ میں ان کی حکومت ختم بھی ہو سکتی ہے۔بظاہر اس بات کاکوئی امکان نہیں مگر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان گڈگورننس کی خواہش رکھتے ہیں مگر ضروری تو نہیں کہ ہر خواہش پوری ہو جائے ۔
لندن پلان کے تینوں کرداروں کا خیال ہے کہ انہیں سیاست سے بارہ پتھر کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ان تینوں صاحبان پر ویسے تو کئی الزامات لگائے گئے ہیں مگر جس الزام کے سبب وہ بہت پریشان ہیں وہ منی لانڈرنگ کا ہے ۔اس وقت منی لانڈرنگ صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں جرم قرار دی جاچکی ہے۔میرے نزدیک لندن پلان’’ سرمایہ بچائوپلان ‘‘ہے جس کی کامیابی کے امکانات بحث طلب ہیں۔لیکن سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم دوسری مرتبہ برطانیہ میں موجود ہیں مگر ان سے کسی اہم برطانوی حکومتی شخصیت نے ملاقات کا شرف حاصل نہیں کیا۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں ساڑھے لندن بجے کے بجے ہی نہ رہ جائیں اور اسلام آباد کا گھڑیال ٹن ٹن کرنے لگے۔