سالزبرگ میں پاکستان زندہ باد . منصورآفاق
دیوار پہ دستک

سالزبرگ میں پاکستان زندہ باد

سالزبرگ میں پاکستان زندہ باد

منصورآفاق

اہل ِ پاکستان !مبارک باد۔گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اسی سال ایرانی گیس پاکستانی گھروں اور فیکٹریوں میں پہنچ جائے گی ۔نواز شریف اور راحیل شریف ریاض اور تہران کے درمیان خیر کی راہداری بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔محبت کی سڑک تعمیرہونے والی ہے۔یقینا اس راہداری کے اثرات دمشق پر بھی مرتب ہونگے ۔میں اہل ِ دمشق کے چہروں پر اداسیاں دیکھ دیکھ کر ابھی اندر سے باہر نکلا ہوں ۔ ہرطرف سفید کاٹن کی طرح برف بچھی ہوئی ہے ۔دور ایک اکیلاگہر اسیاہ پرندہ پھڑپھڑاکر اپنے پر جھاڑ رہا ہے۔ کسی مسلمان مہاجرکی طرح۔ لٹھے کی چادرپرایک اکیلا داغ۔ برف اڑاتی ہوئی فوجی گاڑی قریب سے گزر ی ہے۔سکوت کے ٹکڑے سڑک پرگر رہے ہیں ۔میں اس وقت آسڑیا کے شہر سالز برگ کے مہاجر کیمپ میںہوں۔ بنیادی طور پریہ ملٹری کا کیمپ ہے ۔چاروں طرف آسٹریا کے فوجی چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں۔مہاجرین کیلئے اس کیمپ کی حیثیت ایک ٹرانزٹ کیمپ کی ہے ۔ شام کے اجڑے ہوئے کچھ دن یہاں قیام کرتے ہیں ۔ پھر آگے جرمنی چلے جاتے ہیں ۔اب تک یہاں سے تقریباًساڑھے تین لاکھ مہاجر جرمنی منتقل ہوچکے ہیں،دنیا میں ہجرت کے مسائل زیادہ تر مسلمانوں کو ہی درپیش ہیں۔یہ لوگ جب پہلی بار آسٹریا پہنچے تھے توکئی دن کے بھوکے تھے مگر انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا۔ کہ مسلمان صرف وہی کھا سکتا ہے جو اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ حکومت کیلئے مسئلہ بن گیا کہ ان لوگوںکے لئے حلال فوڈ کہاں سے فراہم کیا جائے ۔جب یہ خبر برطانیہ کی معروف انسان دوست شخصیت سیدلخت ِحسنین شاہ تک پہنچی تو انہوں نے یہاں کی حکومت سے درخواست کی کہ وہ یہ کارِ خیر کرنے کیلئے تیار ہیں۔ان کی آفر قبول کر لی گئی ۔یوں اس وقت تک وہ اِس کیمپ میںتین لاکھ سے زیادہ لوگوں کو کھانا فراہم کر چکے ہیں ۔قارئین !سالز برگ میںمیری موجودگی کاسبب تو سمجھ میں آگیا ہوگا۔یہاں میرے علاوہ وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات شاہ ، مسلم ہینڈکے ڈائریکٹر انٹرنیشنل افئیر اورخدمت ِخلق کی بین الاقوامی شخصیت طارق نصیر ،معروف صحافی طاہر چوہدری ، سعید نیازی اورمبین چوہدری بھی موجود ہیں ۔رات کو آسٹریا کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے مجھے جاوید انوریاد آیا۔اُس نے آسٹریا کی شہریت لے کر میرے لئے آسٹریا کو محترم بنا دیاتھا۔پھر اس کی موت یاد آئی ۔رک گئیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دھڑکنیں حرف کی، لفظ مردہ ہوئے ۔سو گئیں جاگتی گھنٹیاں چرچ کی۔اک ا سپیکر سے اٹھتی اذاں گر پڑی۔ایک بہتا ہوا گیت جم سا گیا۔مرگئی نظم قوسِ قزح پر مچلتی ہوئی ۔دور تک سرد سورج کی کالی چتا۔ دور تک راکھ چہرے پہ مل مل کے آتی ہوئی ۔ایڑیوں سے اندھیرے اڑاتی ہوئی ۔کچھ نہیں چار سو۔تیرگی سے بھری دھول ہی دھول ہے ۔موت کے فلسفے کے شبستان میں ۔اک سدھارتھ صفت سو گیا خاک پر ۔رنگ پتھرا گئے ۔کرچیاں ہو گئیںبوتلیںخواب کی ۔بہہ گئی ارمغانِ حرم دشت میں۔ناگا ساکی سے میت اٹھی خیر کی ۔صبح ِ عیسی سے شام اپنی خالی ہوئی ۔ہوچی منہ سے نیام اپنی خالی ہوئی ۔گرپڑا لورکا بھی کلائی سے باندھا ہوا۔ساڑھے تین بجے کے بجے رہ گئے ۔

چھوڑ منصور آفاق۔یہ ماتم خوانی کیسی ؟۔عراق ، یمن ، فلسطین اورشام سے لے کر پاکستان تک جوکچھ ہو رہا ہے ۔اس پر آنسو مت بہا ۔درد کی انجمن میں بین مت کر ۔چل لختِ حسنین شاہ کے ساتھ چل ۔اور انسانیت کیلئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کر ۔جہاں برہنگی وہاں لباس پہنچا۔ جہاں بھوک مچلتی پھرتی ہے وہاںمن و سلویٰ کا بندوبست کر ۔جن کے سروں پر چھتیں نہیں ہیں ۔انہیں ٹین کی سہی چھتیں فراہم کر ۔جن کے پاس پینے کا پانی نہیں۔ان تک صاف شفاف پانی پہنچا۔کوشش کر کہ کسی کی دھڑکنیں نہ رکیں ۔دشت میں ارمغانِ حرم اور نہ بہے ۔غربت کے خلاف جنگ جاری رکھ ۔ تھر میں مرتے ہوئے معصوم بچوں کی جان بچا۔آہ کیا یاد آگیا ہے ۔ تھرپارکر ۔درد کی یہ ہولناک داستان یاد آتی تو ہول آتا ہے دو سال پہلے میں علامہ سید ظفراللہ شاہ کے ساتھ تھر گیا تھاآج بھی وہاں کا ایک ایک منظر آنکھوں میں جما ہوا ہے ۔وہاں کی ستر فیصد آبادی اتنی غریب ہے کہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔کسی بچے کے پاس اگر قمیض ہے تو شلوار موجود نہیں ۔بچوں کے پائوں میں جوتوں کا تصور ہی نہیں ۔گھروں میں لوگ سالوں میں ایک مرتبہ کبھی ایک بار سالن پکاتے ہیں ۔ہر سال قحط پڑتا ہے ۔ہرسال بچے مرتے ہیں ۔ اب پھر مررہے ہیں ۔

کہاں سے کہاں آگیا ہوں میں تو سالزبرگ کی سڑکوں پر آوارہ گردی کر رہا تھا۔جہاں دنیا کا سب سے بڑا آرٹ فیسٹیول ہوا کرتا ہے ۔ہاںجی یہ سالز برگ ہے جہاں ہر شے سے آرٹ جھلکتا ہے مگراس وقت عمارتوں پر صرف برف پڑی ہوئی ہے ۔چاروں طرف ویران خاموشی ہے ۔ آسماں البتہ صاف ہے۔چاند نکلا ہوا ہے۔چاندنی پھیلی ہوئی ہے ۔مگر جنوری کی اس برف بستہ رات میں چاند دیکھنے والا میرے علاوہ اور کوئی نہیں۔چاند تو میرے دیس میں بھی نکلا ہواہوگا۔یقینا وہاں اسے دیکھنے والے بھی ہونگے ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے جب میں نے پیر امین الحسنات کو مبارک دی کہ نواز شریف اور راحیل شریف کا دورہ کامیابی سے ہمکنار ہو چکاہے تو کہنے لگے ۔’’بس دعا کرو کہ کہیں نظر نہ لگ جائے۔سعودی عرب اور ایران کی دوستی سے پورے مشرق وسطی میں تبدیلی آئے گی ۔ پاک چین راہداری کے بعد پاک ایران گیس پروجیکٹ ہمیں اندھیروں سے نکالنے کیلئے کافی ہوگا۔مجھے تو ہمیشہ سے ان اندھیروں میں امید کا ایک چمکتا ہوا چاند دکھائی دیتا ہے۔پاکستان زندہ باد‘‘

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے