سارتر اور نجم سیٹھی. منصور آفاق
دیوار پہ دستک

سارتر اور نجم سیٹھی

سارتر اور نجم سیٹھی

منصور آفاق

مجھے بے پناہ خوشی ہوئی جب میں نے توقع کے برعکس نجم سیٹھی کی زبان سے یہ الفاظ سنے کہ ’’بھارتی وزیر اعظم نے بلوچستان میں انڈین مداخلت کو تسلیم کر کے خود ہی بھارتی موقف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ۔ بلوچستان اور کشمیر کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جبکہ بلوچستان پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ‘‘ کچھ لوگوں کا تاثر تھا کہ وہ کئی معاملات میں بھارت کو ترجیح دیتے ہیں۔جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا تھا ۔خاص طور پر کشمیر کے معاملے میں تو ہمارے بڑے بڑے اہل قلم خاموش رہے جن میں معروف ادیب و شعرا بھی شامل ہیں۔ اس وقت بھی جلتے ہوئے کشمیر پر ہمارے بہت سے اہل قلم کی خاموشی حیرت انگیز ہے ۔مجھے بار بار سارتر یاد آرہا ہے ۔اردو کے مقبول قیوم نظر ایک بار سارتر سے ملنے چلے گئے ۔سارتر نے ان سے پاکستان کی سیاسی صورتحال کے بارے میں دریافت کیاتو قیوم نظر نے کہا کہ میں تو صرف ایک شاعر ہوں میرا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے جس پر سارتر نے انہیں اپنے کمرے سے نکال دیا تھا ۔سارتر کے بارے میں ٹیڈ ہیوز نے لکھا تھا۔ یہ 1974کا ایک خوش گوار دن تھا ژاں پال سارتر جرمنی کے ایک قید خانے میںاس وقت کے مشہور دہشت گرد Andreas Baaderسے ملاقات کر رہا تھا دنیابھر کا میڈیااس کے اردگرد موجود تھااور ایک سوال جو ملاقات سے پہلے سارتر سے ہر صحافی نے کیا تھا وہی سوال اس دہشت گرد کی زبان پر بھی تھا کہ’’ آپ مجھ سے کیوں ملنے آئے ہیں؟‘‘ سارتر کا وہ جواب تاریخ کے ماتھے پر پتھرا گیا ہے کہ ’’میں تمہارے ساتھ اِظہار یک جہتی کیلئے یہاں موجود ہوں ‘‘۔یقین کیجئے کہ دنیائے ادب میں سارتر ایک ایسا عجیب و غریب کردار ہے کہ اس کے نزدیک آرٹ کا نصب العین دنیا کو زیادہ سے زیادہ انسانی آزادی کے وسائل فراہم کرتے ہوئے بازیاب کرنا ہے۔ سارتراگرچہ کیمونسٹ نظریات کے زیادہ قریب تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے1956میں روس کے خلاف ہنگری کے لوگوں کی آزادی کیلئے کام کیا۔1958میں چیک لوگوں کے لئے بہت زیادہ کام کیاحتیٰ کہ الجرائز کی آزادی کی تحریک میں کام کرتے رہے ۔فرانس کا صدرڈیگال سارتر کے خلاف تھا جب اسے کہا کہ وہ حکم دے کہ سارتر کو گرفتار کر لیا جائے تو اس نے کہا تھا

’’سارتر کو کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے سارتر تو فرانس ہے‘‘۔ 1967میں انڈوچائنا میںامریکہ میں فوجی کارروائیوں پر فیصلہ کیلئے برٹرینڈرسل کے قائم کردہ انٹرنیشنل وار کرائمز ٹربیونل میں سارتر کو سربراہ مقر ر کیا گیا۔انہوں نے1968میں ویت نام کی جنگ کے خلاف طلباء کے جارحانہ اقدامات میں ان کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔وہ باقاعدہ فوج میں بھی شامل ہوئے اور 1939میں لڑتے ہوئے جرمنی کی قید میں چلے گئے تھے جہاں سے ایک سال کے بعد انہیں رہائی ملی ۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جرمن قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔سارتر کے نزدیک انسانی آزادی کا مقام ہر شے سے بلند تر تھا ۔انہوں نے 1947میں اپنی کتاب’’ادب کیا ہے ‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ادب کا سب سے بلند نقطہ ء نظر یہ ہے کہ ادیب دنیا کو زیادہ سے زیادہ آزادیوں سے بارور کرانے کیلئے لکھے۔سارتر کے نزدیک آزادی چھوٹی اور بڑی اشیا ء میںاپنی پسند و نا پسند کے اظہار کا نام ہے ۔آزادی ایک ایسا جذبہ ہے جسے موت نہیں آسکتی۔ضمیر کی ایک ایسی کیفیت ہے جہاں سے فیصلہ کرنے کی غیر فانی ساعت طلوع ہوتی ہے۔سارتر اپنے نظریات کے ساتھ اس قدر مخلص تھے کہ جب 1964میں انہیں نوبل انعام دیا گیا توانہوں نے سرمایہ دارانہ طبقے کے مفادات کی حامی خود غرض مادیت پرست معاشرت کی قدروںکے خلاف احتجاج کے طور پر انعام لینے سے انکار کردیا۔ ادب کا نوبل پرائز لینے سے سارتر ہی انکار کر سکتا تھا۔ 1947میں سارتر نے اپنی کتاب ’’سچویشن ‘‘ میں اپنے اس فلسفہ کو تھوڑا سا اور آگے بڑھایا اورآگہی ، زندگی اور موت کی حدود کا مکمل احساس رکھتے ہوئے کہا کہ انسان اس چیز کا مجموعہ نہیں جو کچھ اس کے پاس ہے بلکہ اس کا ’’کُل‘‘ وہ ہے جو کچھ ابھی اس کے پاس نہیں ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہو سکتا ہے۔ادبی تنقید میں سارتر نے شاعری کو پینٹنگ ، بت تراشی اور موسیقی کے ساتھ شامل کیا ہے۔ اُن کے خیال میں یہ سب اشارے نہیں چیزیں ہیںشاعر کا جذبہ بھی ایک شے ہے ۔ادیب بھی ایک چیز کی حیثیت سے حالات پر نگاہ ڈالتا ہے وہ سیاسی اور سماجی مسائل سے دامن نہیں چھڑا سکتا۔سارتر چاہتے ہیںایک قلم کار کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ کوئی بھی دنیا سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے۔

پچھلی دو دہائیوں نے سارتر جیسا ایک شخص بھی پیدا نہیں کیا وگرنہ عین ممکن ہے کہ ِاس وقت دنیا اتنی زیادہ سنگین صورت حال سے دوچار نہ ہوتی ۔حیرت انگیز بات ہے کہ دنیا کے تمام بڑے ادیب امریکہ کی موجودہ جنگی حکمت عملی پر خاموش ہیں۔حالانکہ اس کا انجام بڑا بدصورت ہے ۔پتہ نہیں دنیا یہ بات کیوں بھول جاتی ہے کہ کسی مقصد کی خاطر جان کی قربانی دینے والے دہشت گرد نہیں ہوسکتے ۔وہ تو زندگی کو خوبصورت بنانے کیلئے ،آزادی کیلئے، سچائی کیلئے جان دے رہے ہوتے ہیں ۔ہم انہیں دہشت گرد کہہ کر اُن حقائق سے آنکھیں چرالیتے ہیں جن کیلئے انہوں نے قربانی دی ہوتی ہے۔ہمیں دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے سب کو اُن کے حقوق دینے ہونگے ۔مسئلہ فلسطین و کشمیر حل کرنا ہوگا ۔عراق و افغانستان کو آگ و خون کے جہنم سے نکالنا ہو گا ۔ دنیا کو غربت سے نجات دلانی ہو گی۔ اب یہ زیادہ دیر نہیں ہو سکے گا کہ چند قومیں پیٹ بھرکر سوئیں اور باقی تمام فاقوں میں مبتلا رہیں ۔اور نہ ہی ایسا انصاف دیر پا ثابت ہوسکے گاکہ آپ دنیامیںخود کو جمہوریت کے علمبردار کہیں مگر اپنے مفادات کی خاطر آپ کو بادشاہت بھی قبول ہو۔فوجی حکمران بھی آپ کے دوست ہوں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد پاس ہو جائے تو اس پر کبھی بھی عمل درآمد نہ ہوسکے مگر عراق پر حملے کی قرارداد پاس نہ بھی ہو تو آپ اس پر حملہ آور ہو جائیں ۔یہ دو رُخی پالیسیاں اب زیادہ دیر نہیں چل سکتیں۔میں نے سارتر کے حوالے سے بات شروع کی تھی کہ وہ ان حریت پسندوںکو بھی دوست رکھتا تھا جن کے بارے میں اسے یقین تھا کہ یہ سچ کی خاطراپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے پھرتے ہیں ۔ ہاںغیر مرئی خوف کے لپکتے ہوئے سائے دیکھنے کیلئے کسی چھٹی حِس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن یہ سائے تو سارتر کے بھی ساتھ ساتھ رہے ۔ وہ جہاں رہتے تھے وہاں دو مرتبہ بموں کے آتشیں دھماکے بھی کئے گئے مگر اُس آزادی کے پیغامبرکا قلم چلتا رہا، کاغذ کالے ہوتے رہے ، اشاعتی ادارے کتابیں چھاپتے رہے ، پابندیاں عائد ہوتی رہیں اورسارتر سڑکوں پرگرفتار ہوتے رہے۔ میری پاکستانی سارتروں سے درخواست ہے کہ اور کچھ نہیں تو قلم کے ٹکڑے ہی سڑک پر بکھیر دو کسی زباں میں تو تمہیں احتجاج کرنا چاہئے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے