
دست بریدہ نسلیں
دست بریدہ نسلیں
منصورآفاق
غلط کہا تھا ساحر نے کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔ جھوٹ بولا تھافیض نے بھی کہ اک ذرا صبر کہ اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں ۔ شیخوپورہ میںظلم کی ایک اور خوفناک داستان لکھ دی گئی ہے ۔اپنا جائز حق مانگنے پرسولہ سالہ ابوبکر کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے گئے ہیں۔پچھلے سال ظالموں نے یہی داستان گجرات کے ایک گائوں میں لکھی تھی ایک کمسن بچے کو دونوں ہاتھوں سے محروم کردیا تھا ۔وہ ماں جس نے ایک خوبصورت اور مکمل بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں مٹھائی بانٹی تھی جب اس کے کٹے ہوئے ہاتھ دیکھتی ہوگی تو اس کے دل پر کیا کیا قیامت گزرتی ہوگی ۔وہ باپ جو جوان ہوتے ہوئے بیٹے کو دیکھ کرایک تابناک مستقبل کے خواب دیکھتا تھا جب اس کے سامنے اس کے بریدہ ہاتھ آئے ہوں گے تو کلیجہ منہ کو نہ آیا ہوگا۔میں سوچتا ہوں توکانپ کانپ جاتا ہوں کہ دست بریدہ لوگ کیسے زندگی گزارتے ہونگے ۔کوئی بتائے کہ جسم سے تو ہاتھ کٹ جاتے ہیں مگر روح سے کیسے نکلتے ہونگے۔ ہاتھ ملاتے ہوئے، کسی کو رخصت کرتے ہوئے ،پانی پیتے ہوئے، سرکھجلاتے ہوئے،کسی کو رستہ بتاتے ہوئے ۔بچوں کو بانہوں میں لیتے ہوئے،غصے میں مکا دکھلاتے ہوئے،کیا وہ ہاتھ اچانک جسم سے نکل نہیں آتے ہونگے۔
زمانہ قدیم سے ہر طاقت ور حق مانگنے والوںکے ہاتھ کاٹتاآرہا ہے ۔قدیم انسان کے اندرمشکل حالات میں زندہ رہنے کیلئے تشدد اور ضررسانی کی ضرورت جبلت بن کر لہو میں رچ بس گئی تھی۔ آج بھی اگر کچھ لوگوں کو کسی درندوں سے بھرے ہوئے ویران جزیرے میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے اندرزندہ رہنے کیلئے دوسروں سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوگی اور ایک دوسرے کو مار دینے کی جبلت ابھر آئے گی۔شایداسی حقیقت کو ڈارون نے کسی اور پہلو سے دیکھتے ہوئے ہمیں survival of the fittest جیسی تھیوری سے آشنا کیا تھا۔ طاقت حاصل کرنے اسے بڑھانے اور برقرار رکھنے کی جبلت کچھ لوگوں میں اتنی شدت کے ساتھ ابھرتی ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے دوسروں کو تکلیف اور خوف میں مبتلا رکھتے ہیں تاکہ وہ اُن کے سامنے سر نہ اُٹھا سکیں۔ ان کے اندر دوسروں کو زیر رکھنے کی خواہش اور خود کو ایک حاکم تسلیم کرانے کی تمنا دراصل ایک ایسا عمل ہے جس میںکسی منطقی فکر یا تہذیبی اصولوں کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور جب منطقی سوچ اور تہذیبی اصول یعنی قاعدے اور قانون نابود ہو جائیں تو ورثے میں ملی ہوئی وحشیانہ جبلت شدت کے ساتھ ابھرآتی ہے۔ اس وقت بھی دنیا کچھ لوگوں کی اسی جبلت کے ہاتھوں لہو لہان ہے۔ طاقت کی وحشی جبلت نے جگہ جگہ سڑکوں، گلیوں اور مکانوںمیں خوف اور تکلیف سے بھری ہوئی اتنی تصویریں لگا رکھی ہیںکہ انسان آنکھیں بند کر کے جینے پر مجبور ہو گیا ہے لیکن مایوسی کی بھی کوئی بات نہیں بعض جبلتوں پر وقت کے ساتھ ساتھ انسان نے قابو پانے کی کوشش کی ہے اور اس میں کسی قدر کامیاب بھی ہوا ہے۔انسان کے اندر یہ قوت بھی موجود ہے کہ وہ کسی جبلت کو بھی دبا سکتا ہے وہ اپنے منفی رجحان ،درندگی ، بھوک اور اپنی محرومی کے ہاتھ میں کٹھ پتلی نہیں ہے۔تاہم یہ اجتماعی فہم کے ساتھ مشروط ہے۔ جبلت کیا ہے۔جبلت ایسا انسانی عمل ہے جو صرف کسی فوری اور شعوری وجہ کے نتیجے میںنہ ہو بلکہ اس کی جڑیں باطنی گہرائیوں، موروثی اور غیر موروثی خواہشوں اور عادتوںسے لے کرایسی ذہنی حالتوں تک جاتی ہوں جہاں فوری طور پر کسی منطقی ردعمل کا اظہار نہیں ہوتااور غیر محسوس جذباتی دھارے کے تحت انسا ن قدم بڑھاتا ہے ۔کسی بھی مقصد کے حصول کی آرزواسے حرکت پر مجبور کرتی ہے۔ اسی عمل کو جبلت کہتے ہیں مثال کے طور پرمظلوم کی طرف لپکتے ہوئے ہاتھ کے پس منظر میںپہلی شے تو درندگی کا جذبہ ہے جوانسانی ذہن کی ایک شعوری سطح ہے اوربے ساختہ مظلوم کی طرف ظالم کا ہاتھ بڑھنا بھی کوئی لاشعوری عمل نہیں لیکن صدیوں کے تسلسل میںیہ عمل انسانی جبلت کی صورت اختیار کر گیاہے سو اسے ہم کسی حد تک لاشعوری عمل بھی کہہ سکتے ہیںمگر وہ جبلت جس کا اظہار ہاتھوں سے ہوتا ہے ہاتھ کٹ جانے کے بعد اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے اس کا لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔یہ دو نوں مظلوم فردجن کے ہاتھ کاٹے گئے ، پاکستان کا فردا تھے ۔ یقیناً یہ دست بریدگی کبھی عرش کی جانب نظر کرتی ہوگی تو کبھی اپنے گرد و نواح پر کہ آخر اِس طرح ہمیں ہاتھوں سے محروم کر دینے کا کسی کو کیا حق ہے۔ اگرکسی کو یہ حق حاصل ہے تو پھِر اپنا حق مانگنے والے عوام کے ہر فرد کو اُس کا حق تلف کرنے والے کو دست بریدہ کرنے کا حق کیوں نہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم سب دست بریدہ ہیں ۔ہمیں اپنے ہاتھ صرف دکھائی دیتے ہیں محسوس ہوتے ہیںلیکن جہاں ہم نے حق حاصل کرنا ہوتا ہے وہاں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے توہاتھ کٹے ہوئے ہیں ۔مزدور جب اپنی اجرت طلب کرتا ہے ۔کسان جب اپنی فصل کی قیمت مانگتا ہے۔ غریب کا بچہ جب اچھی تعلیم کاحق مانگتا ہے ۔بیمار عورت جب دوائی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ملازم جب زندہ رہنے کیلئے تنخواہ مانگتا ہے۔لوڈشیڈنگ کے مارے شہر جب بجلی مانگتے ہیں۔جب بھوک روٹی مانگتی ہے ۔جب پیاس پینے کے صاف پانی کا تقاضا کرتی ہے ۔جب جسم سردیوں میں گرم لباس مانگتا ہے ۔جب آدمی عزت نفس مانگتا ہے۔ جب لوگ کرپشن سے نجات مانگتے ہیں۔جب پاکستان عالمی بنکوں کی بیڑیوں سے رہائی مانگتا ہے تو خبر ہوتی ہے کہ اس کے ہاتھ ہی کٹے ہوئے ہیں ۔ اپنی یہ دست بریدہ نسلیں کئی دہائیوں سے اِسی طرح چلتی چلی آرہی ہیں ۔بازوئوں سے ہاتھ نکلتے ہی نہیں ۔ایک آخری امید راحیل شریف سے ہے دیکھتے ہیں کب باریاب ہوتی ہے ۔
mansoor afaq

