حکمران کی ساکھ۔ منصور آفاق
دیوار پہ دستک

حکمران کی ساکھ

حکمران کی ساکھ

منصور آفاق

دہشت گردی کا عفریت جس نے ساٹھ ستر ہزار پاکستانیوں کونگل لیاہے۔نواز شریف کے اسی دور میں اُس خوفناک سینکڑوں سروں والی بلا کا جنرل راحیل شریف نے تقریباً خاتمہ ہی کردیا ہے ۔اُس بلا کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں مگر یہ خطرہ ابھی تک موجود ہے کہ اُس کے ٹکڑے پھرسے جڑ نہ جائیں۔نواز شریف کو جب حکومت ملی توملک معاشی بدحالی کی پستیوں میں گرچکا تھا۔بے شک پچھلے تین سال میں ان پستیوں کی گہرائیوں میں کئی گنا اضافہ ہوایعنی قرضے کئی گنا بڑھ گئے مگر پاک چین اقتصادی راہداری کی روشنی جس کے پس منظر میں بھی جنرل راحیل شریف کی چمکتی ہوئی آنکھیں نظر آرہی ہیں ۔اُس روشنی نے پاکستانیوں کی آنکھوں کو چمک بخش دی ہے۔یہ امید کی روشنی بھی نواز شریف کے دور میں افق پر نمودار ہوئی ہے۔چوتھائی صدی سے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے کراچی کو بے شک رینجرز نے دوبارہ زرتار شعاعوں سے بھر دیا ہے مگر یہ نور آمیز عمل بھی نواز شریف کے دورِ حکومت میں ہواہے۔لیکن اِس دور کے ماتھے پر جو بات صدیوںتک ایک بھیانک داغ کی طرح چمکتی رہے گی وہ انصاف کا قتل عام ہے۔جسے کرپشن کہتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون سے لے کر پاناما لیکس تک نا انصافیوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔سچائی کی میز پرظلم سے بھری کرپشن کی فائلیں ہی فائلیں ہیں ۔

کتنی عجیب و غریب بات ہے کہ اکیسویں گریڈ کے ایک سرکاری افسر کے گھر سے63کروڑ کی نقد رقم ملی ہے۔ کروڑوں کاسونا علیحدہ ہے۔یہ صاحب پچھلے چھ سال سے سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے طور پر کام کررہے تھے۔اس نے اِس عرصہ میں نجانے کتنے اربوںروپے کا ملک کو نقصان پہنچایا ہوگا۔یہ توبیوروکریسی کے الحمرا کا ایک شاہکار تھا۔کئی اِس سے بڑے بڑے شاہکار بھی موجود ہیں ۔کتنی واضح بات ہے مگر دکھائی کسی کو نہیں دیتی کہ اکیس بائیس گریڈ کا پروفیسر جب ریٹائر ہوتا ہے تو اسکا ذاتی مکان بھی نہیں ہوتا اُس کے مقابلے میں جب کوئی بیوروکریٹ ریٹائر ہوتا ہے تو اس کے اثاثے کروڑوں اربوں کے ہوتے ہیں حالانکہ دونوں کو تنخواہ ایک جتنی ملتی ہے ۔اسی فہرست میںجنرلز اور جج صاحبان کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے ۔پاکستانی قوم کئی ایسے سرمایہ داروں کو جانتی ہے جن کے والدِ محترم سروس میں تھے ۔پاناما لیکس کے مطابق پوری دنیا میں صرف ایک جج ہے جس کی آف شور کمپنی ہے اور اُس جج کا تعلق پاکستان سے ہے ۔سوال وہی ہے جو عمران خان نے اٹھایا ہے کہ اگر سربراہِ مملکت ہی منی لانڈرنگ کرنے لگے ۔ ٹیکس ادا نہیں کرے ۔اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرے تو اس کے نیچے کام کرنے والوں سے دیانت داری کی امید کس طرح رکھی جاسکتی ہے ۔جنرل راحیل شریف ایک دیانت دار چیف آف آرمی اسٹاف ہیں سو فوج میں موجود کرپٹ عناصر اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں ۔ مگر وزیر اعظم کے نام کے سامنے مسلسل سوالیہ نشان دکھائی دے رہا ہے ۔اب تو امریکہ نے بھی آف شور کمپنیوں کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے ۔ممکن ہے وزیر اعظم نواز شریف پر یہ تمام الزامات غلط ہوں مگرجب کوئی سوال پاناما لیکس کے متعلق کرتا ہے اور جواب میں حکومت کے بڑے بڑے وزراء ’’عمران خان بھی چور ہے‘‘کے نعرے لگانے لگتے ہیںتو معاملہ مشکوک لگنے لگتاہے ۔ خاص طور پر لندن والے فلیٹس تو کسی زنبور کی طرح ان کی ناک کو ہی ڈس گئے ہیں۔لندن میں ہائیڈپارک کے بالکل سامنےایون فیلڈ ہائوس (Avenfield House)نام کی ایک بلڈنگ ہے جس میں بہت سے فلیٹس ہیں ۔اسی بلڈنگ کے تیسرے فلور پر شریف خاندان کے رہائشی فلیٹ ہیں۔چند پیراگراف میں، سہیل وڑائچ کی کتاب’’ غدار کون‘‘ سے درج کر رہا ہوں۔

’’ فلیٹ 16میں نواز شریف کا خاندان رہائش پذیر ہے فلیٹ 17میں شہباز شریف رہتے ہیں تاہم میاں نواز شریف کی لندن آمد کے موقع پر اس فلیٹ کو ملاقاتوں اور میٹنگز کےلئے مختص کردیا گیا ہے 17-Aمیں ان دنوں کیپٹن صفدر اور مریم نواز شریف رہائش پذیر ہیں ۔ میاں نواز شریف کی لندن آمد سے پہلے گھروں کی نئے سرے سے آرائش کی گئی ہے جس میں سادگی کو مدنظر رکھا گیا ہے البتہ فرنیچر ، پردوں ، دیواروں اور قالینوں کے رنگوں میں نمایاں تبدیلی لائی گئی ہے کشنز میں گہرے سرخ رنگ یعنی گلاب کے پھول کا رنگ غالب ہے اتفاق سے گلاب کا پھول میاں نواز شریف کا پسندیدہ پھول بھی ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جدہ کے ڈرائنگ روم اور میاں خاندان کے ماڈل ٹائون والے گھر میں بھی یہ رنگ کثرت سے نظر آتا تھا ایک کمرے کے صوفے کے کشنز پر شیر بنے ہوئے ہیں ۔میاں نواز شریف کی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان بھی شیر ہی ہے شاید اسی وجہ سے شیر کی شبیہہ لندن میں ان کے فلیٹ میں بھی موجود ہے۔‘‘

’’پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حال ہی میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئےآکسفورڈ اسٹریٹ میں سیلف رجز اسٹور کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن( کا دفتر قائم کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن )کی ورکنگ کمیٹی کے لندن اجلاس کے بعد اس آفس میں بہت رونق رہی فرسٹ فلور پر واقع فلیٹ نمبر 10،بنیادی طور پر تین بیڈ روم کا فرنیشڈ فلیٹ تھا جسے میاں نواز شریف کے فرزند حسن نواز شریف کی کمپنی نے خرید کر فرنش کیا تھا اب اسے ان سے کرائے پر لیا گیا ہے‘‘

’’میاں نواز شریف صبح ہی سے سیاسی سرگرمیاں شروع کردیتے ہیں البتہ حسن نواز شریف اپنے والد کے لندن آنے سے پہلے صبح آٹھ بجے پکاڈلی روڈ پر گرین پارک کے بالمقابل اپنے دفتر روانہ ہوجاتے تھے ۔میاں نواز شریف نے ایک روز حسن کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ حسن نے خاندانی بزنس سے ہٹ کر یعنی صنعت کاری سے الگ رئیل اسٹیٹ اور انوسٹمنٹ کا کاروبار شروع کیا اور ماشا اللہ تھوڑے ہی عرصے میں اس نے کاروبار میں بہت ترقی کرلی ہے حسن جہاں ورلڈ مارکیٹس میں شیئر ز اور انوسٹمنٹ کا کاروبار کرتے ہیں وہاں وہ لندن میں پراپرٹی خرید کر خود اس کو ڈویلپ (تعمیرات( کرتے ہیں چند سالوں میں ہی انہوں نے ملین آف پائونڈز کما کر برطانیہ میں اپنی ساکھ بنا لی ہے۔‘‘سارا مسئلہ ہی ساکھ کا ہے ۔اس وقت میں وزیراعظم کی ساکھ پر کیا تبصرہ کروں۔حضرت عمر بن عبدالعزیز یاد آرہے ہیں ۔وہ جب خلیفہ بنے تھے تو سب سے پہلے اپنے شاہی خاندان کے وظائف بند کر دئیے تھے۔ اپنا تمام ذاتی سامان ، ہر چیز حتیٰ کہ لباس و عطرتک بیچ کر ان کی قیمت سرکاری خزانے میں جمع کرادی تھی اور اپنی اہلیہ سے کہاتھا’’ وہ قیمتی ہیراجو کہ تمہیں اپنے باپ طرف سے ملا ہے اس کو سرکاری خزانے میں جمع کرادویا مجھے چھوڑنے کو تیار ہوجائو‘‘ چنانچہ انہوں نے وہ بیش قیمت ہیرا بلا چوں و چرا بیت المال میں جمع کرادیاتھا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے