
جنرل راحیل شریف ضروری ہیں
جنرل راحیل شریف ضروری ہیں
منصور آفاق
مدنیہ منورہ میں ہونے والے خود کش دھماکے ہر مسلمان کے دل میں ہوئے ہیں ۔پورا عالم ِ اسلام کانپ گیا ہے ۔دنیا کے ڈیڑھ ارب لوگ تکلیف میں ہیں رحمت ِ دوعالمﷺ کے دروازے پر دہشت گردی ۔دہشت گردآخری حد سے بھی کچھ آگے بڑھ گئے ہیں ۔گنجائش ختم ہوگئی ہے ۔میں یقین رکھتا ہوں کہ اس واقعہ کے بعد کسی کے دل میں کسی دہشت گرد کی ہمدردی کا ذرہ بھی نہیں برقرار رہ سکتا۔بلکہ آج توبہت سے دہشت گرد بھی یہ سوچ رہے ہونگے کہ جس عظیم المرتبت ہستی کے حضور صرف آواز بلند کرنےوالوں کی زندگی بھرکی نیکیاں چھن جاتی ہیں وہاں دھماکے کرنے والے کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں ۔مگر اطلاع یہی ہے کہ وہ نسلاً مسلمان تھے ۔جدہ میں دھماکہ کرنے والا خود کش تو خیر پاکستانی بھی تھا مگرنمازیں تو وہ بھی پڑھتے تھے جنہوں نے نواسہ رسولﷺ کو شہید کردیا تھا ۔دنیا میںمذہبی دہشت گردی کا آغاز اس وقت ہوا جب سوویت یونین ٹوٹ گیا ۔واشنگٹن کی تلواروں سے مجاہدین نے افغانستان میں فتح کے پرچم لہرا دئیے۔ اس وقت نیٹو کے سربراہ سے سوال کیا گیا کہ کیا اب نیٹو کا ادارہ ختم کردیا جائے گاکیونکہ اُس کا جو مقصد تھا وہ پورا ہوچکا ہے تو نیٹو کے سربراہ نے کہا ’’نہیں ابھی اسلام موجود ہے ‘‘میں ذاتی طور پر اس واقعہ کو ہمیشہ ایک فسانہ ہی سمجھتاتھا مگر گزشتہ دنوں میرے ایک بہت ہی قریبی دوست جو برطانیہ کی بڑی اہم شخصیت ہیں ۔جنہیں ملکہ برطانیہ نے کمانڈر آف برٹش امپائر کا خطاب بھی دیا ہوا ہے ۔انہیں ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں نیٹو کے ہیڈکوارٹر میں بلایا گیا ۔پروجیکٹ یہ تھا کہ مسلمانوں میں نیٹو کے امیج کو کس طرح بہتر بنایاجائے ۔میرے دوست نےوہاں یہی بات سنائی کہ مسلمانوں میں نیٹو کے بارے میں ایسا پروپیگنڈا پھیلا ہوا ہے تو نیٹو کے آفیسر نے کہا ’’ یہ غلط پروپیگنڈا نہیں ہے ۔ اُس نے واقعی یہی کہا تھا ۔نیٹو میں کافی لوگ تھے جو یہی سمجھتے تھے مگر انہیں رفتہ رفتہ نیٹو سے نکال دیا گیا ہے ۔‘‘ اسی بات پرنیٹو نے میرے دوست کووہ پروجیکٹ نہیں دیا ۔ یقینا مسلم امہ کی بات کرنے والا برطانوی مسلمان ان کے کام کا نہیں تھا۔
کہنے کا مطلب یہی ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعدمغرب کو محفوظ بنانے والوں کی توجہ مسلمانوں پر مرتکز ہوگئی تھی ۔سو سب سے پہلے تو شدت پسند مسلمان پیدا کئے گئے جو عالم گیر غلبہ اسلام کےلئے دہشت گردی کا راستہ اختیار کر لیں ۔پھراُن مسلمان ممالک پر توجہ دی گئی جو فوجی قوت رکھتے ہیں ۔چار مسلمان ملک اس سلسلے میں اہم ترین تھے ،عراق ،شام ، پاکستان اور ترکی ۔
چونکہ اسرائیل کے لئے عراق اور شام مسئلہ تھے سو پہلے انہی کی فوجی طاقت کو ختم کیا گیا بلکہ مکمل طور پر تباہ کردیا گیا۔باقی پاکستان اور ترکی رہ گئے ہیں۔دوہزار پندرہ پاکستان میں خانہ جنگی کا پلان ترتیب دیا گیا ۔جوجنرل راحیل شریف کے دانش مندانہ اقدام کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ترکی اور روس کی جنگ کرانے کی کوشش کی گئی مگر الحمداللہ وہاں بھی انہیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی ۔لیکن دہشت گردی کے ذریعےپاکستان اور ترکی کو تباہ کرنے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں ۔یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ کسی طرح ایران اور برادر عرب ملک کے درمیان جنگ کرادی جائے تاکہ یہ دونوں ملک آپس میں لڑ کرمکمل طورپر برباد ہوجائیں ۔مغربی میڈیا کافی عرصہ پہلےا ن دونوں ممالک کے براہ راست تصادم کی پیش گوئی کرچکاہے ۔ پھربرادر ملک نے جواسلامی ممالک کی افواج کو جمع کر کے ایک نئی فوج کی تشکیل کا کام شروع کیا ہے،وہ بھی حکمران دنیا میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔امریکہ کےتمام تھنک ٹینکس اس بات پر متفق ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں موجود ممالک کی موجودہ تقسیم بندی زیادہ عرصے تک برقرارنہیں رہ سکتی ۔تمام عرب ممالک کو تقسیم ہونا چاہئے۔مگر وہ یہ تقسیم مشرق وسطی کی مکمل تباہی کے بعد دیکھتے ہیں۔
القاعدہ کے لئے جس وقت اسامہ بن لادن نے بنیادی فنڈنگ فراہم کی تھی اس وقت جارج بش اور اسامہ بن لادن تیل کے کاروبار میں پارٹنر تھے ۔داعش کو اسلحہ اور فنڈنگ کی فراہمی پر امریکہ اپنی غلطی تسلیم کرچکا ہے ۔مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی باراسے اتنا اسلحہ اور سرمایہ کیسے دے دیا گیا کہ وہ شام اور عراق جو باقاعدہ مملکتیں ہیں اُن کے ساتھ جنگ کامیابی سے لڑ رہی ہے ۔داعش اتنی طاقت ور تنظیم کیسے بنی ہے کہ روس پوری طرح شام کی مدد کررہا ہے مگر داعش شکست نہیں کھا رہی بلکہ اس کی کارروائیاں دنیا بھر میں جاری ہیں ۔ساتھ یہ پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ ترکی داعش سے تیل خرید رہا ہے ۔حالانکہ روس کی مسلسل بمباری اور شامی افواج کی جنگ کے سبب ان علاقوں میں جہاں سے تیل نکلتا ہے وہاںکوئی بھی تیل کا کارخانہ کام نہیں کر رہا ۔بہر حال ان تمام معاملات کے پیچھے کہیں نہ کہیں ایسے افراد موجود ہیں جن کی اسلام دشمنی واضح ہے ۔اس وقت برطانیہ میں عراق وار کے سلسلے میں یہ امکان پیدا ہوچکا ہے کہ ممکن ہے ٹونی بلیئر کو اس جرم میں سزا ہوجائے کہ اس نے بغیر ثبوت کے صدر بش کے ساتھ مل کر عراق پر جنگ مسلط کی ۔بہر حال ترقی یافتہ دنیا جس نئی دنیا کا تصور کرتی ہے ۔اس میں پاکستان اور بھارت میں ایک خوفناک جنگ کے بعد کا ماحول ہے ۔اس سازش میںترکی کے بھی کئی ٹکڑے نظر آتے ہیں۔عراق بھی تقسیم شدہ دکھائی دیتا ہے۔ترکی اور عراق کی تقسیم کے بعد جس کردستان کا خواب دیکھا جا رہا ہے ۔اُس کے متعلق اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر کردستان کو آزاد کیا جاتا ہے تو اسرائیل اسے تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہوگا ۔برادر عرب ملک کو بھی تین حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔اس وقت مغربی میڈیا پرعرب حکمرانوں کےلئے وہی الفاظ استعمال ہونا شروع ہوگئے ہیں جو وہ صدام حسین وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے ،کرتے تھے لیکن ہونا وہی ہے جو آسمانوں پر لکھا ہوا ہے ۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر مسلم قوتیں جو کچھ چاہتی ہیں وہ کام خودمسلمان کئے جارہے ہیں ۔کہیں ان کے اشارے پر اور کہیں اپنے مفادات کے لئےاورکہیں یہ سوچ کر کہ شاید یہی خیر کارستہ ہے جو شر سے نکل رہا ہے ۔اس وقت اسلامی ممالک میں سب سے احتیاط کی ضرورت پاکستان کو ہے ۔پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے ۔پاکستان کی فوج دنیا کی چند بہترین افواج میں سے ایک ہے ۔ پاکستان کی سیکرٹ ایجنسی سے بھی ایک دنیا خوفزدہ نظر آتی ہے ۔سو دشمن ِ اسلام اس وقت بے چین ہیں کہ کسی طرح اس فوج کو تباہ کیا جائے ۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ افغانستان کے پہاڑوں میں قطعاً کوئی ایسا سونا موجود نہیں کہ امریکہ وہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہا ۔ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جنرل راحیل شریف جیسا بہادر اور ذہین آرمی چیف عطا کیاہے ۔انہیں کسی صورت میں نومبر میں ریٹائر نہیں ہونا چاہئے ۔پاکستان کو ان کی اشد ضرورت ہے۔

