جانے کی باتیں جانے دو۔ منصورآفاق
دیوار پہ دستک

جانے کی باتیں جانے دو

جانے کی باتیں جانے دو

منصورآفاق

سوشل میڈیا میں بھی یہی تحریک چل رہی ہے کہ ’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘ ۔اسلام آباد کی سڑکوں پر بھی یہی بینر آویزاں ہیں۔ان پر لگانے والے کا فون نمبر بھی درج ہے ۔ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جہاںکوئی بینر حکومت کی اجازت کے بغیرنہیں لگایا جاسکتا یعنی روکنے کی اِس تحریک میں سرکار کی اجازتِ عالیہ بھی شامل ہے۔بے شک کچھ لوگوں کوراحیل شریف کی تقریباً ساڑھے آٹھ سو راتیں اور ساڑھے آٹھ سو دن لمحہ بھر ہی محسوس ہو رہے ہیں۔انہیںبالکل ایسا ہی لگ رہا ہے جیسے ’’آئے ہو ابھی ، بیٹھو تو سہی ، جانے کی باتیں جانے دو ‘‘اور کچھ لوگوں پریہ ایک ایک لمحہ ایک ایک صدی کی طرح گزر رہاہے ۔وہ تین سال مکمل ہونے کے انتظار میں دبئی کی سڑکوں پر ایک دوسرے کو کہتے پھرتے ہیں’’چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز‘‘
مجھے اس بات کا یقین ہے کہ جنرل راحیل شریف کیلئے چلائی جانے والی اِس’’ تحریک ِ طوالتِ قیام‘‘ کے پیچھے موجودہ حکومت کے خیر خواہ ہی ہیں۔کیونکہ صاحبانِ باریک بین اِس راز سے پوری طرح واقف ہیں کہ موجودہ حکومت کو سب سے زیادہ فائدہ جنرل راحیل شریف کے مزاج ِ گرامی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر ان کی جگہ کوئی اور کماندار ہوتا تو اس وقت حکمرانی کا منظر نامہ کچھ اور ہوتا۔پھول اور طرح کے کھلتے ۔مہکاریں اور طرح کی ہوتیں ۔بے شک عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد کے دل میں طویل دھرنے موجودہ بساط لپیٹنے کیلئے بہت تھے۔ ماڈل ٹائون سے اٹھائی جانے والی چودہ لاشیںآسانی سے چودہ سولیوں کو سجا سکتی تھیں۔ بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارت پر آنکھیں بند کرکے کسی کو بھی غدار ثابت کیا جاسکتا تھامگر اِس کے برعکس سپہ سالار نے اپنی حکومت کو روشنی اور خوشبو کے تحائف پیش کئے۔

حکومت ِوقت جنرل راحیل شریف کی بدولت ببانگ دہل یہ کہنے کے قابل ہوسکی ہے کہ’’ ہم نے طالبان کی کمر توڑ دی ہے‘‘ کچھ عرصہ پہلے تک یہی صاحبان ِ اقتدار خوف ِطالبان میںلرزہ بر اندام تھے اور ساٹھ ہزار پاکستانیوں کے قتل کے مقدمے میں صرف مذاکرات کوہی قابل عمل حل سمجھتے تھے حتی کہ بقول عمران خان سابق آرمی چیف نے بھی کہہ دیاتھا کہ طالبان کے خلاف آپریشن میں کامیابی کے امکانات صرف چالیس فیصد ہیں۔
طویل عرصے سے آتش فشاں کی طرح دہکتا ہوا کراچی اِسی سپہ سالارِ اعظم کی پیش قدمی کے سبب دوبارہ روشنیوں کاشہر بن گیا۔ٹارگٹ کلر خود ٹارگٹ بن گئے۔دہشتگروں کے سہولت کاروںسے ہر سہولت چھن گئی۔وہ چور اور ڈاکو جو کل تک صاحبِ عزوجاہ تھے۔ایئرپورٹس تک ان کی تصویر یں پہنچ گئیںاور ان تمام باتوں کا کریڈٹ خود بخودموجودہ حکومت کے دامن میں آگرا یعنی نون لیگ کی کامیاب حکومت کے تین سالوں کے پیچھے صر ف جنرل راحیل شریف کا تابناک چہرہ دکھائی دیتا ہے۔اسی لئے تو نون لیگ کے اصل ہمدرد کسی صورت بھی نہیں چاہتے کہ جنرل راحیل شریف کی بجائے کوئی اور آرمی چیف آجائے ۔پتہ نہیں نیا آرمی چیف کیسا ہو ممکن ہے ۔رسک بہت ہے اور ذہین لوگ بے وجہ رسک نہیں لیا کرتے ۔

گزشتہ دنوںسابق وفاقی سکرٹری روئیدادخان نے یہ پیشں گوئی فرمائی ہے کہ جنرل راحیل شریف مارشل لاء لگانے والے ہیں۔وہ بزرگ آدمی ہیں ۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ انہیں نسیان کا مرض لاحق ہوچکا ہے مگر یہ طے شدہ بات ہے کہ انہیں ماضی بعید کی باتیں بہت یاد ہیں مگر ماضی قریب کے معاملے میں ان کی یادداشت زیادہ اچھی نہیںرہی ۔وہ وزیر اعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان اچھے مراسم کو اُسی طرح دیکھتے ہیں جیسے جنرل ضیا الحق اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان تھے۔مگر وہ اس بات پر دھیان نہیں دیتے کہ جنرل راحیل شریف نے اگر مارشل لاء لگانا ہوتا تو وہ وزیر اعظم نواز شریف کی ہر معاملے میں پوری ایمانداری کے ساتھ مدد نہ کرتے بلکہ انہیں کسی گہری کھائی میں گرنے دیتے۔پچھلے ڈھائی سال سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانے دیا جو ان کیلئے نقصان کا باعث بن سکے ۔بیشک وزیر اعظم کا ایک ذرا ساغلط قدم ملک کو تباہی کی کسی گہری گپھا میں پھینک سکتا ہے اور وزیراعظم نواز شریف نے بھی آنکھیں بند کر کے جنرل راحیل شریف پر اعتبار کیا ہے ۔جو بھی ان کی طرف سے مشورہ آیا اسے حرزجان بنالیا۔سو میرے نزدیک اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ جنرل راحیل شریف کسی وقت بھی مارشل لاء لگاسکتے ہیں۔ہاںاگر وزیر اعظم نواز شریف خود بضد ہوجائیں تو پھر میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ایک بار پیر مہرعلی شاہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ کیا سید بھی جہنم میں جائیں گے تو وہ کہنے لگے ۔’’نہیں بالکل نہیں جائیں گے ۔ہاںاگر خود سید بادشاہ بھاگ بھاگ کر دوزخ میں چھلانگیں لگانے لگیں تو انہیں روک کوئی نہیں سکتا‘‘۔ ویسے کہتے ہیں اِس قماش کے لوگوں پر مارچ اور اپریل کا مہینہ بہت بھاری ہوتا ہے ۔

مارچ اور اپریل کے مہینے میں پی ٹی آئی اپنی ’’سونامی ٹو‘‘لانچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور پنجاب حکومت کے ترجمان بھی اس سلسلے میں ان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ’’ عمران خان ایک مرتبہ پھر ملک دشمنی پر اتر آئے ہیں ‘‘کیا مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنا ملک دشمنی ہے ۔ کیا غریبوں اور مزدوروں کے لئے دھرنا دینا ملک دشمنی ہے ۔ کیاکرپشن کو روکنے کی تحریک چلانا ملک دشمنی ہے ۔پھر یہ بات ترجمان ِ حکومت پنجاب نے ان کے پانچ مطالبات پر کہی ہے ۔پتہ نہیں کونسا مطالبہ ملک دشمنی کے زمرے میں آرہاہے ان سے گزارش ہے کہ پلیز اپنے بیان کی تھوڑی سی وضاحت کریں ۔اپنی معلومات کے مطابق تو یہ پانچ مطالبات ہیں ۔پٹرول اور مٹی کا تیل 5، ڈیزل 20 روپے فی لٹر سستا کریں۔ گیس پر انفرا سٹرکچر ٹیکس واپس کیا جائے۔بجلی پر3 نئے ٹیکس واپس لئے جائیں۔ قومی اداروں کی انتظامیہ درست کی جائے۔ اسٹیل مل اور دیگر اداروں کے ملازمین کی رکی تنخواہیں ادا کی جائیں۔یہ پانچوں مطالبات سراسر موجودہ حکومت کے حق میں ہیں ۔اگر حکومت نے یہ پانچ کام کر دئیے تو یقیناعوام میں نون لیگ کی حکومت کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔اس کافائدہ عمران خان کو قطعاً نہیں ہوسکتامگر عمران خان کو ایسی باتوں کی کب پروا ہے۔وہ نیک نیت آدمی ہیں اور یہی چیز اسے بلندیوں کی طرف لئے جارہی ہے مگر ایک بات ہے کہ عمران خان نے جنرل راحیل شریف سے یہ نہیں کہا ’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے