
تحفظِ حقوق نسواں کی خیر
تحفظِ حقوق نسواں کی خیر
منصورآفاق
تحفظ حقوق ِ نسواں کا بل پوری کامیابی کے ساتھ ایک قانون کی صورت میں صوبہ پنجاب میں نافذ العمل ہوچکا ہے۔البتہ اس قانون سے بین الصوبائی خاندان تھوڑے بہت محفوظ ہیں یعنی وہ شوہرانِ نامدارجو کسی اور صوبے سے تعلق رکھتے ہیں ان کی صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی بیگمات اِس قانون سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتیں۔ویسے یہ قانون نافذکرا کے خواتین نے مردوںکی محبت پر شک کا اظہار کیا ہے ۔وہی بات جو برسوں پہلے نورجہان نے کہی تھی ’’مرداں دے وعدے جھوٹے ، جھوٹا ہووندا پیار وے‘‘ حالانکہ مرد تو ازل سے عورت کی محبت میںگرفتار چلا آرہا ہے ۔ ہمارے بابا آدم نے اماں حوا کیلئے جنت چھوڑ دی تھی ۔ مرد نے عورت کی محبت میں کیا کیا جوئے شیر نہیں لائے ۔تاج محل تعمیر کئے ہیں۔مرد کی محبت کا اندازہ صرف اسی بات سے لگائیے کہ دنیا بھر کی زبانوں میں کی جانے والی نوے فیصد شاعری کا موضوع عورت ہے۔مرد جوانی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو عورتوں کے ناز اٹھانے لگتا ہےاور بڑھاپے تک اُسی کے حسن کومرکز ِنگاہ بنا کراُس کے اردگرد طواف میں منہمک رہتا ہے۔ہر گھرکی حقیقی سربراہ بیوی ہی ہوتی ہے بلکہ اب تو لوگ بڑے فخر سے خود کو’’رن مرید ‘‘کہتے ہیں۔ایک واقعہ یاد آگیا ہے ۔سن لیجئے ۔ایک پیر صاحب نے ایک مولوی سے پوچھا کہ’’ جناب کسی کے مرید بھی ہیں ‘‘تومولوی صاحب نے کہا ’’جی میں ایک بہت بڑی ہستی کا مرید ہوں۔اس سے عظیم ہستی میری زندگی میںاور کوئی ہوہی نہیں سکتی‘‘ ۔تو پیر صاحب نے بڑے اشتیاق سے کہا ’’کہ اُس عظیم ہستی کا اسم گرامی تو بتادیجئے ‘‘ مولوی صاحب ذرہ بھر شرمسار ہوئے بغیر کہنے لگے’’جی میں اپنی بیگم صاحبہ کامرید ہوں‘‘۔پیر صاحب بولے ’’واقعی آپ تو بہت عظیم ہستی کے مرید ہیں ۔یقینا آپ کے کچھ پیر بھائی ہونگے‘‘۔ بے شک ماضی ء قریب تک ہماری تہذیب میں زن مرید یا رن مرید ہونا اچھی بات نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ مولانافضل الرحمن نے اب بھی اسی انداز میں پوری پنجاب اسمبلی کو ’رن مرید‘ کہا ہے ۔یہ علیحدہ بات ہے کہ تمام ارکان اسمبلی اس بات کو برا نہیں سمجھتے بلکہ خود مولانا بھی طریقت کے اسی سلسلہ ء زوجیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔میں بھی بحیثیت مرد اس بل کی پوری پوری حمایت کرتا ہوں۔کیونکہ ایسی خو بصورت ہستی کو ناراض کرنابے وقوفی کے سوا اور کچھ نہیں ۔یہ تو وہ ہستی ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال کہہ گئے ہیں ۔ وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ ۔یہ تو ایک چھوٹا سا قانون ہے مرد تو عورت کیلئے جان قربان کر دیتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر بھی اِس قانون کا تجربہ ہوچکا ہے ۔یہاں برطانیہ میں خواتین کے حقوق کیلئے یہ قوانین برسوں سے موجود ہیں۔قصہ کوئی آٹھ دس سال پرانا ہے ۔ میں اور میری وائف ہم دونوں کام کرتے ہیں۔ان دونوں ہمارے دفاتر بھی قریب قریب تھے جیسے ہی دفتر کا وقت ختم ہوا ہم دونوں بچوں کو لینے کیلئے آفٹرا سکول کلب پہنچ گئے وہاں سے معمول کے مطابق بچوں کو لیا ور گھر آگئے۔آتے ہی کسی بات پر کچن میں ہم میاں بیوی کے درمیان تلخی ہوگئی۔میںنے ایک پلیٹ اٹھا کر فرش پر دے ماری۔اس کے ٹوٹنے کی نقرئی کھنک پورے کچن میں پھیل گئی ۔پلیٹ کے ٹکڑے اور کرچیاں چنتی ہوئی میری بیوی نے مجھے دھمکی دی کہ اگر تم نے اب کچھ کیا تومیں پولیس کو فون کردوں گی اور میںنے دوسری پلیٹ کی کرچیاں بھی فرش پر بکھیر دیں ۔بیگم صاحبہ نے قریب پڑا ہوا موبائل فون اٹھایا اورغصے کے عالم میں تین بار نو کے ہندسے کو دبا دیا ۔ چند لمحوں کے بعد بیل ہوئی میں نے دروزہ کھولا تو باہرپولیس موجود تھی۔پولیس کو دیکھ کر ہم میاں بیوی بہت پریشان ہوگئے مگر اب کیا ہوسکتا تھا ۔نکلی ہوئی گولی واپس بندوق میں نہیں آسکتی۔
ان دنوں میرے مرحوم سسر بھی ہمارے ساتھ رہتے تھے انہوں نے بیگم صاحبہ سے کہا پولیس والوں کیلئے فوراً چائے بنائو۔عجیب صورت حال تھی ۔پولیس والوں کو بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ یونہی کسی بات پر غصے میں آکر بیگم صاحبہ نے انہیں تکلیف دے دی ہے ۔ خیر تمام لوگوں کے بیانات سن کر پولیس نے قانون کے مطابق مجھے حکم دیا کہ میں فوری طور پر یہاں سے چلا جائوں۔کم از کم دو دن اب میں اس گھر میںقیام نہیں کرسکتا۔میں دل ہی دل میں بڑاخوش ہوا کہ چلو دو دن تو کہیں جاکر عیاشی کرتے ہیںمگر بیگم صاحبہ نے پولیس والوں سے کہا’’ گھر سے باہر تو یہ قدم ہی نہیںرکھ سکتا‘‘۔ پولیس والوں نے کہا ایسی صورت میں آپ کو ایک سو پونڈ جرمانہ ادا کرنا ہوگا کیونکہ آپ نے فون کرکے ہم پولیس والوں کا وقت ضائع کیا ہے ۔
بیگم صاحبہ نے جرمانہ ادا کردیامگر مجھے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ دی۔اپنی تمام تروتازہ حسرتیں بن کھلے مرجھا گئیں۔
اب پاکستان میںاِن قوانین کی موجودگی کیا کیا گل کھلاتی ہے ۔کیسے کیسے شگوفے پھوٹتے ہیںیہ تو وقت ہی بتائے گا۔زیادہ تر بہتری کے امکانات ہیں مگر ایک مسئلہ بہت خوفناک ہے ۔جس کے سبب وہاں عجیب و غریب پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔دراصل ان قوانین پرعمل در آمداُن ممالک میں آسانی سے ممکن ہے جو ویلفیئر اسٹیٹس ہیں یعنی جہاںکسی کو یہ مسئلہ نہیں کہ روٹی کہاں سے آئے گی ۔کپڑے کون خریدے گا۔ مکان کا کرایہ کس نے دینا ہے ۔ علاج کیلئے رقم کس نے فراہم کرنی ہے۔جہاں خاص طور پر عورتوں اور بچوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری حکومت نے سنبھال رکھی ہے۔وہاں اگرقانون کے مطابق شوہر کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ حکومت موجود ہے ۔اس کے ادارے کام کر رہے ہیں۔کسی بچے یا عورت کو کسی معاملے میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔حتی کہ بچےا سکول پہنچانے کی ذمہ داری حکومت پوری کرتی ہے۔پاکستان اس کے برعکس ہے ۔ وہاں کبھی مائیں بچوں سمیت خود کشیاں کرتی ہیں تو کبھی باپ بیٹیوں سمیت جیون کا بوجھ اتار دیتے ہیں۔اپنی حکومت کو اس بات سے کوئی واسطہ نہیں کہ کوئی فاقہ کر رہاہے یا اس نے روٹی کھالی ہے۔ کسی بیمار کو دوا مل سکی ہے یا نہیں ۔کسی کے سر پر چھت ہے یا نہیں ۔ کسی کابچہ اسکول گیا ہے یا نہیں ۔بلکہ حکومت کو تویہ بھی علم نہیں کہ پاکستان میں کتنے گھر ہیں۔کتنے لوگ رہتے ہیں اور حکومت جاننا بھی نہیں چاہتی ۔وگرنہ افراد کی کمی کا بہانہ بنا کر پھر مردم شماری سے انکار کیوں کرتی ۔کیا ہماری حکومت اتنی غریب ہے کہ ایک دن کیلئے دوتین لاکھ لوگوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی ۔ اس کو ضرور فوج ہی سے مفت مردم شماری کروانی ہے ۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ یونہی درمیان میں آگیاہے ۔میں پوچھنا یہ چاہ رہاتھا کہ شوہر کو گھر سے نکال دینے کے بعدحکومت کیا کرے گی ۔ فوری طور پربیوی اور بچوں کاخرچ کون دے گا۔ بے شک کورٹ آرڈر کرے گی کہ شوہر اپنے بیوی بچوں کو اخراجات کیلئے رقم فراہم کرے مگراس وقت کے آنے تک کیا ہوگا کہ گھر کے اخراجات کیسے پورے ہونگے ۔ ہمارے یہاں تو ایک کمانے والا اور دس کھانے والے ہوتے ہیں ۔پھرایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ عدالت شوہر کو قید تو کر سکتی ہے مگر زبردستی رقم وصول نہیں کرسکتی ۔ ایسی صورت میں بیوی بچے کیا کریں گے۔کہاں سے کھائیں گے ۔پنجاب حکومت نے کیا کچھ اس پر بھی غور کیا ہے ۔
mansoor afaq

