بچوں کے لہو سے لتھڑا ہوا دسمبر. منصورآفاق
دیوار پہ دستک

بچوں کے لہو سے لتھڑا ہوا دسمبر

بچوں کے لہو سے لتھڑا ہوا دسمبر

منصورآفاق

دسمبر کی یخ بستہ دھوپ ہمیں موت کی تلخی دے گئی۔آج کے دن یعنی سولہ دسمبر کوتاریخ انسانی کا دوسرا بڑابچوں کے قتل کا سفاک واقعہ پشاور کے ایک اسکول میں لکھا گیا۔یعنی یہ بھی کوئی فرعون کی نسل کے لوگ تھے ۔دسمبر کا مہینہ ہم پر ہمیشہ بہت بھاری رہا ہے ۔اسی مہینے دشمنوں نے پاکستان کو دو لخت کیا تھا۔اسی مہینے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تھی ۔یعنی زندگی کی نوید دینے والی ساعتیں اسی ماہ میں قتل کی گئیں۔اسی مہینے اس ٹہنی کو کاٹ دیا گیا جس پر پھول کھلنے والے تھے، اسی مہینے ہمیشہ درختوں کے ہاتھ خالی ہو جاتے ہیں، موسموں کو روشنی اور خوشبو دینے والی رت کوگلشن نکالا دے دیا جاتا ہے،یہی وہ مہینہ ہے جب رستے میں بہارلٹ جاتی ہے ،اسی مہینے گلابوں کی سرخ پتیوں سے لہو کی بوندیں ٹپکیں،وہ جہاں ہنگامہ بہاراںبپا ہونے والا تھا وہاں نوحہ غم گونج اٹھا۔آنسوئوں کے میلے لگے ، آہوں کے آتش فشانوں کے دہانے کھل گئے ،گلی گلی میں درد کی انجمن آباد ہے ،برباد دلوں کے شہر وں سے بین کرنے کی آوازیںآئیں ، قریہ دل میں شور برپا ہوا۔ کوئی ظلم کابھونچال آیا ، زمین میں دراڑیں پڑیں ، سڑکوں سے درد کا دھواں اٹھا۔ گھر جلے ،مسافتوں کو مٹھی میں لینے والی گاڑیوں سے آگ نکلی ۔مسافر گاہیں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو ئیں ،علم و حکمت کے دروازوں پر تالے لگا دئیے گئے ،ہر طرف درد پھیلا، دکھوں کا دائرہ بڑھا، سوگ کھل اٹھے ، آنسو جاری ہوئے ، آہیں نکلیں ،بین ہوئے ، چیخیں جاگیں،کراہوں کی بزم آباد ہوئی ،زندگی کی گہما گہمی موت کی ویرانیوں میں کھو گئی۔ لیلیٰ ٔوطن پر وار ہوئے۔روشنیوںکی اس زنجیر کو توڑا گیا جس میں حلقہ در حلقہ ہم سب جڑے ہوئے ہیں اوربقول ساقی فاروقی روشنی یہ کہہ کر ہم سے روٹھ گئی ۔

یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے

ہاں کئی چراغ بجھادئیے گئے۔ نور کی تنویر اندھیروں میں اتار دی گئی ۔داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی ۔۔ آخری شمع بھی خاموش ہوگئی ۔وہ جو کہہ گیا ہے کہ قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم اور نکلیں گے عشاق کے قافلے۔۔کوئی اس سے پوچھے کہ ابھی اور کتنی قتل گاہیں آباد ہونی ہیں۔رات کو ابھی اور چراغوں کا کتنا خون چاہئے۔اور ابھی کتنی طویل ہے یہ رات۔۔میں جب پیدا ہوا تھا تو اس وقت بھی یہی رات تھی اور میرے دیس کی قتل گاہوں سے سروں کی مشعلیں چن چن کر آگے بڑھ رہے تھے۔وہی رات ابھی تک ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔ قربان گاہ کی پیاس بجھتی ہی نہیںہے۔ جانے میری بستی سے کونسی خطا ہوئی ہے۔ظلم کی اندھی بہری رات نے اس کی ایک ایک گلی ، ایک ایک چوک ، ایک ایک موڑ کواس طرح اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے کہ رہائی کی کوئی صورت ہی دکھائی نہیں دیتی۔ہر طرف کیوں دسمبر کی ہولناک اور سفاکی پھیلی ہوئی ہے۔کیوں مجھے اسی مہینے یوں لگا جیسے’’کسی ذبح خانے کے آس پاس کہیں زندگانی مقیم ہے ۔۔۔مجھے آئے اپنی ہر ایک شے سے لہو کی بو ۔۔بڑی تیز تیز۔۔بڑی متلی خیز۔۔کئی پرفیوم کی بوتلیں۔۔میں چھڑک چکا ہوں لباس پر۔۔اسی گرم خون کی مشک پر اسی سرد ماس کی باس پر۔۔۔کسی ذبح خانے کے آس پاس۔۔۔کئی بار دھویا ہے ہاتھ کو۔۔۔کئی بار مانجھافلیٹ کی میں نے ایک ایک پلیٹ کو۔۔مجھے آئے ذائقہ خون کا۔۔۔مجھے آئے ایک سرانڈ سی۔۔۔مجھے کچا ماس دکھائی دے۔۔۔کہیں ہاتھ پائوں سڑے ہوئے ۔۔۔کہیں گولیوں کے گلاب سے نئی چھاتیوں میں گڑے ہوئے۔۔۔کہیں گردِناف کے پارچے مرے ناشتے میں پڑے ہوئے۔۔۔کسی ذبح خانے کے آس پاس ۔۔۔۔‘‘

بے شک سانحہ پشاور کے قاتلوں کو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا مگر مجھے بہت افسوس سے یہ کہنا پڑرہاہے کہ ابھی تک ہم اس ’’سوچ‘‘کواپنے انجام سےہمکنار نہیں کرسکے ۔جو ہمارے بچوں کو قتل کرنے کے درپے ہے ۔ابھی تک دہشت گردبھی موجود ہیں ان کے ہمدرد بھی موجود ہیں اور سہولت کار بھی۔چند دن پہلے میرے اعزاز میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک تقریب ہوئی اور اس میں مشاعرہ بھی ہوا۔میں وہاں یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ وہاںتین شاعر ایسے تھے جن کی شاعری میں دہشت گردوں کیلئے ہمدردی موجود تھی۔یعنی وہ شاعری انہی نظریات کا پرچار کررہی تھی جس کے تحت شہید ہم یعنی ہمارے فوجی نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔بچوں کے قاتلوں کو شہید قرار دینے والی سوچ کا خاتمہ کب ہوگا ۔میں نے یہ سوال تقریب کے میزبان ادریس آزاد سے کیا تو اس نے کہاکہ ہم نے انتہا پسندوں کو اپنے درمیان سے نکالنے کیلئے کچھ کیا ہی نہیں۔ہم صرف اُنہی پر بم برسا رہے ہیں جن کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں ۔ہم اس سوچ سے ابھی تک ہم کلام ہی نہیں ہوئے جو لوگوں کے ہاتھوں میں بندوقیں دے رہی ہے۔

بے شک وہ چند مذہبی مراکز جہاں سے سفاکیت جنم لے رہی ہے ۔جہاں بے گناہوں کا قتل بھی ثواب کا درجہ رکھتا ہے ۔جہاں سے خودکش حملہ آور سیدھے جنت میں داخل ہوتے ہیں ۔جہاں صرف وہی مسلمان بلکہ انسان ہے جو ان کا ہم عقیدہ ہو۔ہم ابھی ان مراکز میں داخل نہیں ہوئے ہم نے وہاں پڑھانے والوں اور پڑھنے والوں سے کوئی مکالمہ نہیں کیا ۔ ہم ابھی طالبان اور داعش کے جسموں پر گولیاں برسا رہے ہیں ہم نے ان کے دماغوں سے بات نہیں کی ۔ان سے مسلسل صرف ِنظر کرنے کی حکومتی پالیسی میری سمجھ میں نہیں آرہی۔ آخرہم وہ نرسریاں بند کیوں نہیں کررہے جہاں سے بار بار اعلان ہورہا ہے کہ دنیا بھر کے 80فیصد مسلمان واجب القتل ہیں۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے