
بلائنڈ اسپاٹ
بلائنڈ اسپاٹ
منصور آفاق
مرشدی عطاالحق قاسمی نے اپنے کالم میں آنکھ کےبلائنڈ اسپاٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’اگر سامنے سے آنے والی بلاآنکھوں سے اوجھل ہوجائے تو حادثوں پر حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔1971میں ہمارے ساتھ یہی ہوااور اب ایک دفعہ پھر یہ کہانی دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے ‘‘۔اگرچہ میرے دل میں ان کے لئےبے پناہ احترام ہے مگر میں ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ پھر تاریخ کودہرایا جارہاہے۔مرشدی سے عرض ہے کہ بلائنڈ اسپاٹ کئی کےطرح ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر نفسیاتی بلائنڈ اسپاٹ ، جذباتی بلائنڈ اسپاٹ، تعصباتی بلائنڈا سپاٹ، دماغی بلائنڈ اسپاٹ ،گفت و شنید کے بلا ئنڈ اسپاٹ اور بھی کئی اقسام ہو سکتی ہیں جیسے پہاڑی سڑکوں پربہت زیادہ بلائنڈ اسپاٹ ہوتے ہیں۔ہر ایسے موڑ پر آئینے لگا کر انہیں سامنے لایا جاتا ہے تاکہ جانے والے ٹریفک کو آگے سے آنے والی گاڑیوں کا صحیح اندازہ ہوسکے مگر میں اس وقت صرف شخصیت کے بلائنڈ اسپاٹس پر گفتگو کر نا چاہ رہا ہوں ۔
نفسیاتی بلائنڈا سپاٹس آدمی کی شخصیت میں کچھ اس طرح چھپے ہوتے ہیں کہ وہ اس کے اندرموجود ہوتے ہیں مگر اسے دکھائی نہیں دیتے ۔دوسرے انہی اسپاٹس کی مدد سےاس کی نفسیاتی تحلیل نفسی کر لیتے ہیں ۔جذباتی بلائنڈ اسپاٹس دوسروں پر تو روز روشن کی طرح واضح ہوتے ہیں مگرخود اپنے آپ پر عیاں نہیں ہوتے ۔جیسے ماں کہے کہ میرا بیٹا بہت غصے میں رہنے لگ گیا ہے میں کئی بار اسے مار پیٹ کر سمجھا چکی ہوں مگر وہ نارمل نہیں ہورہا ۔تعصباتی بلائنڈ اسپاٹ رکھنے والا شخص دوسروں کی رائے میں تعصب تلاش کرلیتا ہے مگر خود اپنی رائے کا تعصب نہیں دیکھ سکتا۔اس میں اُس خود فریبی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہےجو اپنی ذات کو ایک مثبت تصور میں دیکھنے کا عادی بنا دیتی ہے ۔آدمی اپنی رائے کوحالات و واقعات کےمطابق اورتعصب سے بالاتر جانتاہے۔دماغی بلائنڈ اسپاٹ کو اس داغ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو اپنے رنگ کے اعتبار سے گرد و پیش سے مختلف ہو ۔یہ جو گفت و شنید کا بلائنڈ اسپاٹ ہوتا ہے اس کا میڈیا کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔یہ بلائنڈ اسپاٹ رکھنے والے جب دوسروں سے گفتگو کرتے ہیں تو اصل میں وہ خود کلامی کررہے ہوتے ہیں۔ ڈائیلاگ نہیں ہورہا ہوتا ۔اس کی فزیکل وضاحت بھی ہے کہ جب کوئی اپنے آپ کا اظہار کرتا ہے تو اس کا ذہن ایسے کیمیکل چھوڑتا ہے جو اسے فوری طور پرر ہا کر دیتے ہیں ۔اسے اپنا آپ اچھا لگنے لگتا ہے ۔رفتہ رفتہ اس کا ذہن اس طرح کے اپنے اظہار کا عادی ہوجاتا ہے ۔پھروہ گفت وشنید کی جہتیں نہیں دیکھ سکتا ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی اپنے بلائنڈ اسپاٹس کی شناخت کیسے کرے ۔یہ شناخت کئی طرح سے ممکن ہے۔اول تو یوں کہ آدمی تصور کرلیتا ہے کہ لوگ جو کچھ دیکھ رہے ہیں یا محسوس کررہے ہیں ۔وہ وہی ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں یا محسوس کررہا ہوں ۔دوم یہ کہ آدمی یہ سمجھنے میں ناکام ہوجاتا ہے کہ ہمارا خوف ہمارا اعتماد ہماری بد اعتمادی ہمارے حقائق کا بیانیہ بدل رہے ہیں۔یعنی میز پر پڑا ہوا ریموٹ کنٹرول کالا چوہا دکھائی دینے لگتاہے ۔حقائق کے متعلق ہماری گفتگو تبدیل ہوجاتی ہے ۔سوم یہ کہ جب آدمی خوف زدہ یا پریشان ہوتا ہےتو اُس میں وہ اہلیت برقرار نہیں رہتی جو دوسرے کے احساسات و جذبات کو پوری طرح سمجھ سکے ۔چہارم یہ کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ دوسرے جو کہہ رہے ہیں وہ مجھے یاد ہے مجھے معلوم ہے جب کہ اصل میں اسے صرف وہ یاد ہوتا ہے جو وہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ دوسروں نے کہا ہے یعنی دوسرے کی بات کا مطلب اپنی سوچ کے مطابق نکال لیتا ہے۔اس حوالے سے اکثر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ بات کا مطلب یہ ہے کہ بولنےوالے نے کیا کہا ہے حالانکہ کسی گفتگو کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ سننے والے نےکیا سمجھا ہے ۔اگر ہم اپنے اپنے بلائنڈ اسپاٹس کی تشخیص کریں تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہم اپنے تئیں کتنی متعصب سوچ رکھنے کے باوجود خود کودرست گردانتے ہیں ۔اپنے آپ کو ہر طرح کے بلائنڈ ا سپاٹس سے محفوظ سمجھتے ہیں۔اور میر تقی میر کی طرح اسی فکر کوحرزِ جاں بنا لیتے ہیں کہ
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
عین ممکن ہے کہ مجھے بھی اپنے بلائنڈ اسپاٹس دکھائی نہ دے رہے ہوں ۔میری سوچ بالکل غلط ہوجو مجھے درست لگ رہی ہو اورمرشدی کی سوچ بالکل درست ہو ۔مثال کے طور کئی لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں صرف اس لئے عمران خان کی حمایت کرتا ہوں کہ اُن کا تعلق میرےشہر میانوالی سے ہے ۔ممکن ہے انہیں میرا یہ تعصباتی بلائنڈ اسپاٹ نظر آتا ہو ۔وہ سچ پر ہوں ۔بے شک میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میانوالیت کا تعصب کچھ کم نہیں مگر میں نے خود کو حق سچ پر سمجھ کر مرشدی عطاالحق قاسمی سے اختلاف کیاہے۔دوستوں کےلئے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اختلاف کرنے کا حق انہوں نے مجھے دے رکھا ہے۔وہ خود بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ حق سچ ہے اور اپنے دوستوں کو بھی اس بات کا حق دیتے ہیں کہ جس بات کو وہ سچائی سمجھتے ہیں اس کا ضرور اظہار کریں کیونکہ وہ تمہارا حق ہے۔
اب آتا ہوں مرشدی کے ساتھ اپنے اختلاف پر ۔ میں کیوں نہیں سمجھتا کہ اس وقت 1971 جیسی صورتحال ہے اس کی واحد وجہ جنرل راحیل شریف ہیں ۔بے شک 1971 کا سانحہ اس قوم کو جنرل یحییٰ کی وجہ سے دیکھنا پڑامگر قوم کی آنکھیں دیکھنے کی ہمت رکھتی ہیں وہ جنرل یحییٰ اور جنرل راحیل شریف کا فرق سمجھتی ہیں ۔پستی کو بھی جانتی ہے اور بلندی کی بھی خبر رکھتی ہیں ۔نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو کا فرق بھی قوم کے سامنے ہے ۔ قوم جلاوطنی کو بھی سمجھتی ہے اوردار کی خشک ٹہنی سے لٹک جانے کے عمل سے بھی واقف ہے ۔قوم پاکستان کی آخری بے لوث شخصیت عبدالستار ایدھی اور ملک کو لوٹنے والوں کے فرق کو بھی جانتی ہے ۔ عبدالستار ایدھی نےشاید ان بلائنڈ اسپاٹس کا بہت عرصہ پہلے اندازہ کرلیا تھا جب کہا تھا ’’یہ جنگ امیر اور غریب کی ہے یہ جنگ ظالم اور مظلوم کی ہے ۔‘‘ہم نے اُس عبد الستار ایدھی کو پوری شان و شوکت کے ساتھ پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا ہے ۔اس پر بھی اہل ِ اقتدار کا شکریہ مگر ہم نے اُس جنگ میں ان کی پیروی کرنے کا نہیں سوچا جو وہ زندگی بھر لڑتے رہے۔ بالکل وہی بات ہے کہ ہم سینکڑوں سالوں سے حضرت امام حسینؓ کا غم کئے جا رہے ہیں مگر ان کے نقشِ کفِ پا پر اپنے پائوں نہیں رکھتے۔ ان کے راستے پر چلنے کا سوچتے بھی نہیں ۔جیسے یہ ہمارا کام نہیں انہی کا تھا۔
masoor afaq

