
ایک تقریر کہ جو وجہ ِ تسلی نہ ہوئی
ایک تقریر کہ جو وجہ ِ تسلی نہ ہوئی
منصور آفاق
سانحہ ء گلشن اقبال پر جتنے آنسو بہائے جائیں جتنی تسلیاں دی جائیںکم ہیں۔کاش پنجاب میں وہ آرمی آپریشن جو اس واقعہ کے بعد شروع کیا گیا ہے۔وہ اس سے پہلے شروع کردیا جاتا ۔ عین ممکن ہے کہ اس وقت جہاںسے بین سنائی دے رہے ہیں وہاںمعمول کے شادیانے بج رہے ہوتے ۔واقعہ کی اندوہناکی اپنی جگہ پر مگربین الاقوامی ذرائع ابلا غ میںیہ واقعہ جس غلط انداز میں پیش کیا گیاہے ۔اسکی تکلیف کا اندازہ صرف پاکستان سے باہر رہنےوالے پاکستانی لگا سکتے ہیں ۔ مغربی میڈیا نے اس حادثہ کو ایسٹر کے ساتھ جوڑ کر یہ تاثر دیاہے کہ یہ بم دھماکہ در اصل ایسٹر کے تہوار کے موقع پر عیسائی اقلیت کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیاتھااور اس میں جاں بحق ہونے والی عورتیں اوربچے کرسچین تھے ۔جب کہ یہ بات صریحاً غلط ہے ۔ مرنے والوں72افراد میں سے صرف پندرہ افراد کرسچین تھے ۔اگر یہ دھماکہ ایسٹر پر کرسچین کے خلاف کیا گیا ہوتاتو گلشن اقبال میں نہیں لاہور کے کسی چرچ میںکیا گیا ہوتامگر بین الاقوامی ذرائع کو حقائق بتانے میںحکومتی مشینری نا کام رہی۔اندازہ لگائیے کہ ویٹی کن سٹی میں پوپ فرانسس نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا’’پاکستان میں ایسٹر کا تہوار خون میں نہلادیا گیا۔یہ مسیحی اقلیت کے خلاف جنونی تشدد ہے۔ایک بار پھر ہم سب کیلئے تشدد ، مکروہ اور تباہ کن قتل و غارت باعث ِ افسوس ہے ۔حکومت پاکستان سے پُرزور اپیل کی جاتی ہے کہ وہ مسیحی اقلیت کا تحفظ یقینی بنائے ‘‘امریکہ کے صدر بننے کی دوڑ میں شامل ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں یہی تاثر دیا کہ یہ پاکستان میںمسیحی خواتین اور بچوں پربنیاد پرستوں کا حملہ تھا ۔ ٹرمپ اپنے مسلمان مخالف بیانات کی وجہ سے دنیا میںبہت مشہور ہوئے ہیں۔فرانسیسی ٹی وی نے بھی اس موضوع پرپروگرام کرتے ہوئے خودکش دھماکے میں مرنے والوں کو کرسچین قرار دیا ۔حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی طرف سے ابھی تک اس کی کوئی تردید نہیں کی گئی۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ٹوئٹر پر ایک آدھ ٹوئٹ میں کسی وزیر کو کسی پاکستانی سفیر کو کتنی دیر لگنی تھی یہ لکھتے ہوئے کہ اس دھماکے میں کسی مذہبی اقلیت کو ہرگز ٹارگٹ نہیں کیا گیا ۔ٹارگٹ عام پاکستانی بچے اور عورتیں تھیں اور وہی جاں بحق ہوئے ہیں۔مگر شاید ساری توجہ ڈی چوک پر مرکوز تھی۔ ادھر ادھر دیکھنے کا وقت نہیں مل سکا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اس ہولناک حادثے کے سبب اپنا اہم ترین دورہ ء امریکہ منسوخ کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے یہ انتہائی دانشمندانہ فیصلہ کیا مگراس کا سبب انہیں صرف گلشن اقبال کے سانحہ کو قرار نہیں دینا چاہئے تھا۔لوگوں کو یہ کہنے کاموقع مل رہا ہے کہ جب لاہور میںیعنی ان کے اپنے گھر میں خون کی ہولی کھیلی گئی توانہوں نے اپنا اہم ترین دورہ ملتوی کردیاجب کہ سانحہ چار سدہ کے موقع پر وہ لندن چلے گئے تھے۔ سانحہ گلشن اقبال پر انہوں نے جو قوم سے خطاب کیا اُس میںبھی ان کی باڈی لینگونج پریشانی اور دکھ کا چیخ چیخ کراظہارکررہی تھی ۔ تقریر اہم تھی مگر اس میں کچھ باتیںاور بھی شامل کردی جاتیں تو زیادہ بہتر ہوتا۔ جنازے اٹھاتے عوام کو تسلیاں دینا اپنی جگہ پر ضروری تھامگر تقریر میں متفقہ طور پر منظور کردہ نیشنل ایکشن پلان کا ذکر بھی آنا چاہئے تھا کہ وہ کونسی وادی میں ہے کونسی منزل پر ہے ۔لوگ پوچھتے ہیں کہ دہشت گردی ، دہشت پسندی اور شدت پسندی کے خاتمے کا کوئی روڈ میپ بنایا گیا ہے تو وہ کیا ہے؟ دہشت گردی ختم ہونے تک چین سے نہ بیٹھنے کا عہد اپنی جگہ پرمگراُس کے عملی طریقہ کارکے اعلان سے حکومتی تسلی کوکچھ اور بھرم ملتا۔اس بات پربھی حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان کی تقریر میں پنجاب میں شروع ہونے والے ملٹری آپریشن کا ذکر اپنی جگہ نہیں بنا سکا ۔ انہیں عوام کو یہ بتانا چاہئے تھا کہ پنجاب میں فوجی آپریشن کی اجازت دے دی گئی ہے ۔یہ پنجاب میںشروع ہو جانے والا فوجی آپریشن ان کی اجازت کے بغیرتو شروع نہیں ہو سکتا تھا
یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ سیکورٹی اداروں کی طرف سے واضح طور پر کہہ دیا گیاہے کہ سندھ کی طرح پنجاب میں بھی آپریشن شروع کردیا گیا ہے اورپنجاب میں رینجرز کیساتھ خود آرمی بھی آپریشن میں شامل ہے۔ اس وقت تک ساڑھے تین سو سے زائد افراد گرفتارکئے جا چکے ہیں ۔جن میں دہشت گردوں کے سہولت کار بھی شامل ہیں۔دوسری طرف پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں کوئی نیا آپریشن شروع نہیں کیا جا رہا۔معمول کے مطابق جو کارروائیاں جاری ہیں صرف ان میں شدت لائی جائے گی۔وزیر اعظم نواز شریف اپنی تقریر میں ڈی چوک پر بیٹھے ہوئوں سے بھی بین السطور مخاطب ہوئے ۔کچھ لوگوں کو اس بات کا گلہ ہے کہ انہیں ڈی چوک تک کیوں پہنچنے دیا گیاہے۔کیا پھر کسی نے حکومت کے خلاف سازش کی ہے ۔جلوس کوڈی چوک تک جانے دینے والےافسران کے مطابق اگر یہ سازش ہے تو پھرحکومت نے خود اپنے خلاف کی ہے ۔میرے نزدیک انہیں نہ روکنے کا فیصلہ بہت اچھا اقدام تھا ۔حکومت نے بڑی دانشمندی سے معاملے کوسنبھال لیا ہے اگر خدانخواستہ وہاں کچھ لاشیں گر جاتیںتو صورتحال زیادہ خراب ہوجاتی ۔ڈی چوک پر عمران خان بھی تو126دن بیٹھے رہے ہیں ۔دوچار دن یہ بھی سہی۔اس بات کا علم بھی کم لوگوں کو ہے کہ دھرنے والوں میںسے زیادہ ترلوگوں کی سیاسی وابستگیاںہمیشہ حکمراں جماعت کے ساتھ رہی ہیں ۔ چہلم کیلئے راولپنڈی میں اجتماع کی اجازت بھی خود حکومت نے دی تھی حتی کہ راولپنڈی پہنچنے کیلئے زیادہ تر ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی نون لیگ کے لیڈران نے ہی کرکے دیا تھا۔کئی تبصرہ نگاروں سے یہ مصرعہ بھی سننے کوملا کہ’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘۔مگرمیں ایسا نہیں سمجھتا میرے خیال میں حکومت نے بڑی خوش اسلوبی سے اس مسئلہ کو ہینڈل کیا ہے ۔بہر حال وزیر اعظم نوازشریف کی تقریر کے بارے میں مجموعی طور پر لوگوں یہی خیال ہے کہ
غم کے تاریک مکانوں میں تجلی نہ ہوئی
ایک تقریر کہ جو وجہِ تسلی نہ ہوئی

