
ایک تخیلاتی کالم
ایک تخیلاتی کالم
منصور آفاق
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا ’’تیس اکتوبر کو عمران خان اسلام آباد بند نہیں کر اسکیں گے وہ تیس اکتوبر کو اسلام آباد نہیں کہیں اور ہونگے‘‘۔ مستقبل کی درست ترین پیش گوئیاں کرنے والے نجم سیٹھی نے بھی کہہ دیا ہے کہ عمران خان کو دو نومبر سے پہلے گرفتار کر لیا جائے گا۔ عوام کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے لئے اسلام آباد پولیس کی ٹریننگ شروع ہوچکی ہے۔ اسلام آباد پولیس لائن میں سینکڑوں ملازمین کی مسلسل مشقیں بتلارہی ہیں کہ حکومت اتنی آسانی سےاسلام آباد بند نہیں ہونے دے گی۔
عمران خان کی گرفتاری کے متعلق ہونے والی ایک امکانی میٹنگ کا احوال درج کرتا ہوں۔
پہلی آواز ’’دو نومبر کو دھرنے کا اعلان کیا گیاہے تم لوگوں نے دو دن پہلے عمران خان کو گرفتار کرلینا ہے۔‘‘
دوسری آواز ’’اگر انہوں نے گرفتاری دینے سے انکار کر دیا؟‘‘
پہلی آواز۔ ’’تم نے باقاعدہ وارنٹ گرفتاری ساتھ لے کر جانے ہیں۔‘‘
تیسری آواز۔ ’’اگر عدالت نےوارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے انکار کردیا؟‘‘
پہلی آواز۔ ’’اس کی تم فکر نہ کرو وہ جاری ہوجائیں گے۔ میں اس کا بندوبست کردوں گا۔‘‘
دوسری آواز۔ اگر عمران خان نتھیاگلی میں ہوئے؟‘‘
پہلی آواز۔ ’’کیا نتھیا گلی پاکستان سے باہر ہے۔‘‘
چوتھی آواز۔ ’’جی وہ صوبہ پختونخوا میں ہے۔ اُس صوبے کی پولیس ہمیں ان کے قریب نہیں جانے دے گی۔‘‘
پہلی آواز۔ ’’ وہ اسلام آباد بھی تو آئیں گے۔ وہیں بیٹھے تو نہیں رہیں گے۔‘‘
تیسری آواز۔ ’’اسلام آباد آتے ہوئے صرف اسلام آباد پولیس کی پروٹوکول کی گاڑیاں ان کے ساتھ نہیں ہوں گی۔ صوبہ پختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی ان کے ساتھ ہوں گے یعنی وزیراعلیٰ کی پروٹوکول کی گاڑیاں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ان کی موجودگی میں ہم کیسے انہیں گرفتار کریں گے؟‘‘
پہلی آواز۔ ’’رات کے وقت انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے بنی گالہ سے۔‘‘
دوسری آواز۔ وہاں سے گرفتار کرنا تو بالکل ہی ناممکن ہے سر۔ا ٓپ نے ان کا گھر تو دیکھا ہے وہ پہاڑی پر ہے اور ایک راستہ ہے اندر جانے کا جہاں خیبر پختونخوا کی پولیس بھی ہوگی۔ ان کے اپنے کمانڈو بھی ہوں گے پھر تحریک انصاف کے کارکن کا بھی ایک بڑی تعداد میں وہاں موجود ہونے کا امکان ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیسے گرفتار کریں گے؟‘‘
پہلی آواز۔ ’’یہ سوچنا تمہارا کام ہے انہیں کیسے گرفتار کرنا ہے۔ اسے تم حکومت کی طرف سے آرڈر سمجھو کہ انہیں دھرنے سے دو دن پہلے گرفتار کرلیا جائے۔‘‘
دوسری آواز۔ ’’سر اگر اس عمل میں پختونخوا کی پولیس کے ساتھ کوئی جھڑپ ہوجائے تو…..؟‘‘
پہلی آواز۔ ’’ہوجانے دو۔‘‘
دوسری آواز۔ ’’اگر وزیراعلیٰ پختونخوا راہ میں رکاوٹ بنیں تو انہیں گرفتار کرلیا جائے؟‘‘
پہلی آواز ۔’’قانون کے راستے میں جو بھی آئے گا قانون اپنی کارروائی کرے گا۔‘‘
تیسری آواز۔ ’’سر میرا مشورہ ہے عمران خان کی گرفتاری کے علاوہ کچھ سوچیں۔‘‘
پہلی آواز ۔ ’’کیوں؟‘‘
تیسری آواز۔ ’’سر آپ نےفرانسیسی صدر ڈیگال کا نام سنا ہوا ہے۔‘‘
پہلی آواز ۔’’عمران خان کی گرفتاری سے اُس کا کیا تعلق؟‘‘
تیسری آواز۔ ’’سر جب اسے مشورہ دیا گیا تھا کہ سارتر کو گرفتار کرلیا جائے تو اس نے کہا تھا ۔ سارتر کو کون گرفتار کر سکتا ہے۔ سارتر تو فرانس ہے۔ اسی طرح عمران خان کو بھی گرفتار کرنا مشکل کام ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں عمران خان تو پاکستان ہے۔‘‘
پہلی آواز۔ ’’تمہارا تعلق لگتا ہے پی ٹی آئی سے ہے۔ تمہیں ملازمت چھوڑ کر سیاست میں آجانا چاہئے۔‘‘
دوسری آواز۔ ’’سر انہوں نے کہا ہے کہ لوگ کہتے ہیں عمران خان پاکستان ہے۔ ان کا اپنا یہ خیال نہیں ہے یہ توا ٓپ کی حکومت کے وفادار آفیسر ہیں۔ چونکہ ہم سب آپ کے وفادار ہیں اس لئے کھل کر ہر بات بتارہے ہیں۔‘‘
پہلی آواز ’’تو تمہارا کیا خیال ہے ہم اسلام آباد کو بند ہونے دیں۔‘‘
دوسری آواز ۔ ’’قطعاً نہیں سر۔ لیکن یہ سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا سیاسی حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔‘‘
پہلی آواز۔ ’’کیا اسلام آباد کو بند کرنا غیرقانونی نہیں؟‘‘
دوسری آواز۔ ’’سر غیر قانونی ہے مگر قانون فرد کےلئے ہوتا ہےاجتماع کےلئے نہیں۔ اگر کوئی ایک شخص کسی گاڑی کو روکتا ہے تو اسے کسی نہ کسی دفعہ کے تحت گرفتار کیا جا سکتا ہے لیکن اگر دس ہزار لوگ کسی سڑک پر کھڑے ہوجائیں گے اور کہیں کہ یہاں سے گاڑی نہیں گزر سکتی تو پھر ان سے مذاکرات کرنے پڑتے ہیں کہ آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے۔ اس معاملہ کا پھر قانونی نہیں سیاسی حل نکالنا پڑتا ہے۔‘‘
پہلی آواز۔ ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم لوگ حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کر رہے ہو۔‘‘
دوسری آواز۔ ’’حضور میڈیا آزاد ہوچکا ہے۔ ایک ایک لاٹھی اور ایک ایک آنسو گیس کے شیل کا ہمیں حساب دینا پڑجاتا ہے۔ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ لوگوں پر تشدد کیا جاسکے۔ اب گولی لاٹھی کی سرکار والا دور نہیں رہا۔ اب آپ کو کچھ اور سوچنا پڑے گا۔‘‘
پہلی آواز دوسری آواز سے مخاطب ہوکر۔ ’’آپ فوری طور پر چارج چھوڑ دیجئے۔ ہمیں آپ کی سروسز نہیں چاہئیں۔‘‘
دوسری آواز۔ ’’شکریہ سر ۔ آپ نے میرے سر سے ایک بڑا بوجھ اتار دیا ہے۔‘‘
تیسری آواز۔’’ سر وہ آفیسر جو آپ کے کہنے پر عمران خان گرفتار کرنے کی کوشش کرے گا۔ وہ آپ کا دوست نہیں ہوگا بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھئے۔‘‘
پہلی آواز۔ ’’کیامطلب ہے تمہارا‘‘
تیسری آواز۔ ’’ممکن ہے آپ عمران خان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوجائیں مگر اس کے بعد آپ کی حکومت کا دورانیہ گھنٹوں پر مشتمل ہوجائے گا۔‘‘
پہلی آواز۔ ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا اندازہ درست ہے کہ عمران خان کے پیچھے کوئی اور طاقت موجود ہے۔‘‘
تیسری آواز۔ ’’بالکل موجود ہے۔‘‘
دوسری آواز۔ ’’جی اس طاقت کو عوام کہتے ہیں‘‘…..
masoor afaq

