
اٹلی میں عیدِ میلادالنبیؐ
اٹلی میں عیدِ میلادالنبیؐ
منصورآفاق
اٹلی کے شہر کولی میں عید میلاد النبیﷺ کی تقریب ہوئی۔ میں اور تنویر حسین ملک اِس پُر سعادت جلسہ میں شرکت کےلئے پاکستان سے وہاں پہنچے تھے۔ جس ہوٹل میں تقریب تھی اسے پولیس نے تقریباً تقریباً اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ بارہ ربیع الاول کے جلوس کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں خدشہ ہے کہ مسلمان بغیر اجازت کے کہیں جلوس نہ نکالیں۔ تقریب میں ایک اٹالین آدمی آخر تک موجود رہا جسے اردو زبان پر مکمل دسترس حاصل تھی، محمد نواز گلیانہ اور محمد احمد شاکر کہنے پرمجھے مجبوراً مغرب کے اُس چہرے کو موضوع بنانا پڑا جو مسلم امہ کےلئے قابلِ فخر ہے۔ میں نے کہا’’میں آج اہل مشرق کی طرف سے ایک پیغام لایا ہوں اہل مغرب کی طرف، کہ آؤ ہم مل کر دنیا میں ظلم و زیادتی کرنے والوں کے خلاف کام کریں۔ آؤ جہاد کریں امن اور انصاف کیلئے۔ آؤ وہاں وہاں روشنیوں کی تقسیم کریں جہاں جہاں اندھیرے ہیں۔ آؤ ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے پیار کریں۔ ایک دوسرے کو قتل کر نے کی بجائے ایک دوسرے کو زندگی کی خوبصورتیوں سے سرفراز کریں۔ مجھے ایک نظم یاد آرہی ہے جس کا عنوان ہے صدیوں کا فرق۔
ہم ڈیسک بنایا کرتے تھے
پچھلی صدی تک
اب تابوت بنانے کا
کام زیادہ ہے
آؤ۔ ہم تابوت بنانے کی بجائے ڈیسک بنائیں اسکولوں کے ڈیسک۔ بارودبانٹنے کی بجائے روشنی اور خوشبو تقسیم کریں۔ میں یورپ کا ایک شہری بحیثیت مسلمان یہ بات فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ
مری گلیوں میں اذانیں
مری مسجدیں ہزاروں
یہاں علم کے خزانے
یہاں رحمتیں ہزاروں
یہی فخر سے کہوں میں
یہی ماتھے پر لکھوں میں
جو ہے مشرقین کا رب
وہی مغربین کا رب
وہ جو تیری آنکھ میں ہے
وہی میرے نین کا رب
کوئی صاحبِ جنوں میں۔ ۔
یہی فخر سے کہوں میں
یہی ماتھے پر لکھوں میں
میں غلامِ مصطفیؐ ہوں
ہے فروغِ دین مجھ سے
میں ہوں اس سے معتبر تو
یہ ہے سرزمین مجھ سے
سو شریکِ درد ہوں میں
مجھے جنگ سے ہےنفرت
میرا دین امن پرور
کوئی ظلم کی کہانی
نہ لکھے کہیں پہ جا کر
ہرستم پہ دکھ کروں میں
یہی فخر سے کہوں میں
یہی ماتھے پر لکھوں میں
’’آئی ایم دی ویسٹ‘‘ اسی عنوان سے ایک نظم دیکھئے
اہلِ مغرب سہی۔ یہ مگر یاد رکھ
اُس سراپا ہدایت کا ہوں امتی
جس نے بس ایک انسان کے قتل کو
ساری انسانیت کا کہا قتل ہے
جس کے نزدیک انسانی اعمال میں
جرم کی آخری انتہا قتل ہے
اہلِ مغرب سہی۔ یہ مگر یاد رکھ
مصطفیؐ جان رحمت کا ہوں امتی
یہاں یہ بات بھی میں واضح کرنا چاہوں گا کہ دنیا میں مذہب کی بنیاد پر جو دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہے اس کامداوا صرف صوفیا ئے کرام کی فکر سے ہی ہوسکتا ہے پاکستان جہاں کچھ عرصہ قبل لوگ سنسان مقبروں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ شہر ویران مسجدوں کی طرح محسوس ہوتے تھے۔ ہر شخص خوف کی حالت میں تھاکہ کچھ لوگ اپنے جسموں سے بارود کے ڈھیر باندھ کے گھروں سے نکل آئے تھے۔ شمال جہاں برف پگھلتی تھی اور ٹھنڈے پانی کی بل کھاتی ہوئی زندگی کو سیراب کیا کرتی تھی وہاں آگ کے دریا بہنے لگے تھے ہر لمحہ میری گلیوں کی آنچ کی شدت بڑھتی جارہی تھی۔ مذہب کے نام پرموت کا کھیل جاری تھا۔ فتح کیلئے ہر ناجائز عمل جائز قرار دے دیا گیاتھا۔ کچھ لوگ ہر حال میں جینا چاہتے تھے۔ ہارنے کا حوصلہ کسی میں بھی نہیں تھا۔ میاں محمد بخش کا ایک مصرع یاد آ گیا۔
جتین جیتن ہر کوئی کھیڈے، ہارن کھیڈ فقیرا۔ ۔ مگر اب وردی والےفقیروں نے معاملات پر کسی حد تک قابو پا لیا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ فقیرکئی بار بادشاہ بن گئے۔ اورکئی بار بادشاہوں کو فقیری نے اپنے دامن میں پناہ دے دی۔ فقیر کے تکیے اور بادشاہ کے تخت میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں جو بھی شخص بادشاہ بنتا ہے وہ اپنے اندر کے فقیر کو مارڈالتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو صرف ’’اونچے اونچے دروازوں ‘‘ کیلئے مختص کر لیتا ہے۔ موریوں سے گزرنا بھول جاتا ہے۔ ان ’’موریوں ‘‘ سے جن کے بارے میں سلطان باہو نے کہا تھامذہباں دے دروازے اُچے راہ ربانا موری ہو
( یعنی مذاہب کے دروازے اونچے ہیں اور اللہ کا راستہ ’’موری‘‘یعنی عام لوگوں کے گزرنے والا چھوٹا سا در ہے )میرے خیال میں موری کی کچھ اور وضاحت بھی ضروری ہے شاہ حسین نے جب مجذوبیت اختیار کی تھی اور ملامتی صوفیوں میں شامل ہوگیا تھا اور اس نے شہر کے بڑے دروازوں سے گزرنا چھوڑ دیا۔ وہ ایک بہت بڑا عالم دین تھا۔ اس کے شہر سے باہر آنے جانے کے لئے باقاعدہ بڑے دروازے کھولے جاتے تھے۔ مگر اس نے اپنی سب بڑائیں تج دیں۔ اور شہر پناہ کے بڑے دروازوں کے ساتھ عام لوگوں کے گزرنے کے لئے جو چھوٹی چھوٹی موریاں ہوتی تھیں،ان سے گزرنا شروع کر دیا۔ اور یوں پکار اٹھا۔ سجناں اساں موریوں لنگھ گیوسے۔ سرائیکی کے معروف شاعر افضل عاجز نے اسی خیال کواس طرح ادا کیا ہے۔ اے لمبا چوڑا مہاٹا تاں وڈیراں کون ہیں اپنی وستی دی حویلی وچ کوئی موری رکھوں۔
سو اس وقت مسئلہ مذاہب کے اونچے دروازوں سے گزرنے والوں کا ہے جو اپنے مذاہب کو محبت سے نہیں بارود سے پھیلانے چاہتے ہیں۔ بہرحال میں تو اتنا جانتا ہوں کہ میں انسان ہوں۔ میرے لئے اس کائنات میں کوئی اجنبی نہیں۔ ۔ سب میرے بھائی ہیں۔ میں دنیا بھر میں طیاروں سے نکلنے والی ہلاکت پر نوحہ خواں ہوں چاہے وہ ہلاکت ڈرون طیاروں سے گرتے ہوئے بمبوں سے نکل رہی ہو۔ یا مسافر طیاروں کے کاروباری میناروں سے ٹکرانے پرنمودار ہو رہی ہو۔ ۔ مجھے جسموں کے ساتھ بارود باندھ کر اپنے گرد و نواح کو لوتھڑوں میں بدلنے والوں کا غم ہے۔ مجھے انسان کا غم ہے۔ یعنی اپنا غم ہے میں جس کا وطن کائنات ہے۔ جس کی قومیت آدمیت ہے۔ جس کا مذہب انسانیت ہے۔ جس کی زبان محبت ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں ایک انسان ہوں۔ ۔ صرف انسان۔ ۔ ۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ اور ہر شخص کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
mansoor afaq

