
آنسو گیس سے نکلی ہوئی موت
آنسو گیس سے نکلی ہوئی موت
منصور آفاق
پاکستان میں احتجاج بھی ستر سال کا ہو چکا ہے ۔پیچھے مڑ کر دیکھیں تو لگتا ہے قوم مسلسل حالتِ احتجاج میں ہے ۔کیوں نہ ہو ۔ جب سے پاکستان بنا ہے اس پر ایک ہی حکومت چلی آرہی ہے ۔ظلم ، جبر اور نا انصافی کی حکومت ۔البتہ چہرے ضرور بدلتے رہے ہیں ۔حکمران آتے رہے ۔ جاتے رہے ۔ احتجاج جاری رہا ۔ لوگ مرتے رہے ۔کبھی لاٹھیاں کبھی کوڑے کبھی گولیاں کھاتے رہے ۔احتجاجی تحریکوں میں شہید ہونے والوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔
جمہوریت کےلئے بہت سے لوگوں نے جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری مارشل لاء میں بھی بہت سے لوگ شہید ہوئے قومی اتحاد کی تحریک میں بہت سے سینے فائروں سے چھلنی ہوئے۔ ضیاءالحق کے مارشل لاء میں شہادتوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔حتی کہ ذوالفقا رعلی بھٹو تک جمہوریت کےلئے قربان ہوگیا (اللہ تعالیٰ اُس کے درجات بلند کرے)۔ جنرل پرویز مشرف کے دور کے بھی کافی شہیدِ جمہوریت ہیں ۔ صرف کراچی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی آمد پر ان کی ریلی میں جو دھماکہ کرایا گیا تھااس میں ڈیڑھ سو زائد افرادشہید ہوگئے تھے۔خودبے نظیربھٹو نے بھی جمہوریت کی تگ و دو میں جام ِ شہادت نوش کرلیا ۔پھر جب جمہوریت آئی تو احساس ہوا ہے کہ پاکستانی قوم کچھ باشعور ہوچکی ہے ۔پیپلز پارٹی کےگزشتہ دورمیںکسی احتجاجی تحریک میں شاید کوئی شہید ہوا ہو۔
لاٹھی چارج ، شیلنگ وغیرہ کی نوبت بہت کم آئی ۔تقریباتمام مسائل بیٹھ کر گفت و شنید سے حل ہوئے۔کوئی احتجاجی ریلی نکالی بھی گئی تواس کے جائز مطالبات تسلیم کرلئے گئے ۔حتی کہ جب ڈاکٹر طاہر القادری نے ڈی چوک پر پہلا دھرنا دیا تھا توپیپلز پارٹی کی حکومت کوئی ایک بھی شیل چلائے بغیر انہیں واپس بھیجنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔جب نون لیگ کی حکومت آئی توماحول ویسا تھا ۔ اچانک ایک دن پولیس کی گولیوں سےماڈل ٹائون میں چودہ لوگ شہید ہوگئے 92 افرادزخمی ہوئے۔پلوں کے نیچے اتنا پانی بہہ چکا تھا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اُسی روز پریس کانفرنس کی اور کہا کہ اس قتل عام میں جو بھی ملوث ہوا اسےسخت سزا دی جائے گی ۔یعنی نون لیگ کی حکومت نے اس سانحہ کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا۔اور معاملہ یہاں تک گیاکہ ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی دھرنے کےسبب ان چودہ افراد کے قتل کی ایف آئی آر نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف کسی نہ کسی طرح درج کر لی گئی ۔جو ڈرائونے خواب کی طرح فائلوں میں پڑی ہے ۔عمران خان نے ایک سو چھبیس دن دھرنا دیا جس میں لاٹھی چارج بھی ہوا ۔ شیلنگ بھی ہوئی دوچار لوگ شہید بھی ہوئے مگرمجموعی طور پر حکومت نے یہ جرات نہیں کی کہ وہ ایک حد سے بڑھ کر احتجاج کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کریں اسی سبب نون لیگ کی حکومت نے تین سال کا عرصہ گزار لیا جس کا کسی کو یقین نہیں آتا۔
مگر گزشتہ روز یک دم تاریخ نے اپنے آپ کودہرادیا۔دم بھر میں ماضی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگا۔صرف اتنا ہوا کہ تحریک انصاف کے کنونشن پر پولیس حملہ آور ہوئی ۔ بھرپورتشدد کیا ۔ خواتین کی بے حرمتی کی ۔انہیں گھسیٹ گھسیٹ کرگاڑیوں میں ڈالا ۔یعنی کارکنوں کو گرفتارکرکے جیلوں میں پہنچا دیا گیا ۔انہی جیلوں میں جہاں کچھ عرصہ پہلےوزیراعظم نواز شریف نے بھی وقت گزارا تھا اور یہ عہد کیاتھا کہ اگر میرے پاس دوبارہ حکومت آئی تو کسی جیل میں کبھی کوئی سیاسی قیدی داخل نہیں ہوسکےگا۔
یہ تو کل کاقصہ تھاآج کا دن کل سے کہیں زیادہ سیاہ فام تھا ۔دہکتے ہوئے سورج کے باوجود ہر طرف تاریکیاں کھلکھلاتی پھرتی تھیں ۔کنٹینروں کی دیواروں سے آدھا راولپنڈی محصور کردیا گیا تھا۔ شیخ رشید کی لال حویلی سیل کردی گئی اور اُس کے گرد و نواح کا علاقہ ایک بڑی اور کھلی ڈلی جیل میں بدل دیا گیا تھا ۔سارا دن وہاں کی سڑکوں پر پُراحتجاج جذبوں اور پولیس کے درمیان آنکھ مچولی جاری رہی ۔شیخ رشید میڈیا کی گاڑیوں کی چھتوں پر تقریریں کرتا رہااور موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر چھوٹی چھوٹی گلیوں میں گم ہوتا رہا ۔بےشمار کارکن گرفتار کر لئے گئے ۔کہیں بجھے دل سے اور کہیں خوشی سے لاٹھی چارج کیا گیا ۔سفید کپڑوںمیں پولیس والے کارکنوں پر تشدد کرتے رہے۔۔ شیلنگ ہوتی رہی بلکہ اتنی زیادہ ہوئی کہ اس کے دھویں سے ایک نومولود بچی اپنی جان سے چلی گئی ۔انسانی تاریخ میں کسی احتجاجی تحریک کے دوران اللہ کو پیاری ہونے والی یہ سب سے کم عمر بچی تھی یا بچہ تھا۔
عمران خان کوبنی گالہ میں نظر بند کردیا گیا ۔سارا دن بنی گالہ کی سڑکوں پرتحریک انصاف کے متوالوں اور پولیس کے درمیان ایک آویزش ِ نامکمل برپا رہی ۔میں کل برطانیہ سے اسلام آباد پہنچا ہوں۔سو مجھے یہ سارے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے پڑے۔ میں نے 77 میں قومی اتحاد تحریک بھی دیکھی تھی ۔اس کے بعد تقریباً تمام احتجاجی تحریکیں میری زندگی کا حصہ ہیں ۔میں نے ایک سو چھبیس دن کا عمران خان کا دھرنا بھی دیکھاتھا مگر میں نے آج اور کل میں جومناظر دیکھے تومجھے یقین آگیا کہ آخر کارعمران خان کامیاب ہوگیا ہے ۔ٹیلی وژن کے چینلوں پرنون لیگ کے وزیروں کے منہ سے نکلتی ہوئی آگ دیکھ کر خیال آیا کہ دو نومبر کا دن آنے میں ابھی کچھ دن رہتے ہیں مگر وہ شروع ہوگیا ہے ۔میں نے دو نومبر کی صبح ستائیس اکتوبر کی شام کو تحریک انصاف کنونشن میں طلوع ہوتی ہوئی دیکھی ۔وہ احتجاج جو صرف اسلام آباد ہونا تھا اسے پورے ملک پر محیط ہوتے ہوئے دیکھا ۔
نون لیگ کے کئی سمجھدار لوگوں کو اس سارے عمل پر ملول اور افسردہ بھی دیکھا ۔ایک وفاقی وزیر کی سطح کی بزرگ شخصیت کے منہ سے یہ جملہ بھی سنا کہ میں اس طریق کار کو درست نہیں سمجھتا۔ سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسے اعمال حکومتوں کے خاتمےکا سبب بنا کرتے ہیں ۔خود میری سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آرہی کہ وزیر اعظم نواز شریف نےتحریک انصاف کے احتجاج کو کچلنے کے احکام کیسے صادر کر دئیے ہیں ۔ پچھلے دھرنے کے دنوں میں جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکن مسلسل آگے بڑھ رہے تھےاور نواز شریف سےانہیں روکنے کےلئے طاقت کے استعمال کی اجازت مانگی جارہی تھی تو وہ بار بار انکارکر رہے تھے ۔بار بار اصرار کیا جارہا تھا۔تو انہوں نے پوچھا کہ ’’ان کے آگےآجانے سےکیا ہوگا ‘‘اصرار کرنے والوں نے کہا ’’اگر اسی طرح انہیں آنے دیا گیا تو وہ وزیر اعظم ہائوس تک پہنچ جائیں گے ‘‘ نواز شریف کہنے لگے ’’تو پھر کیا ہوگا ۔یہی نا کہ یہاں آکر میری اس کرسی پر بیٹھ جائیں گے جس پر اس وقت میں بیٹھا ہوں تو پھر بھی کوئی قیامت نہیں آئے گی ‘‘۔ اُس وقت بھی احتجاج کرنے والے ایک حد سے آگے نہیں گئے تھے۔قومی اسمبلی کے لان پر قبضہ کرلیا تھا مگر عمارت کے دروازوں پر کوئی پتھر تو کجا دستک بھی نہیں پھینکی تھی ۔یقینا دو نومبر کا احتجاج بھی پُرامن ہونا تھا مگر وزیر اعظم نواز شریف کے وہی اصرار کرنے والے اس مرتبہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔اور پورے ملک میں ایک احتجاجی تحریک شروع ہوگئی ہے۔ویسی ہی تحریک جو ہمیشہ حکومتوں کے خاتمہ کا سبب بنتی چلی آئی ہے ۔
mansoor afaq

