
افغان مہاجرین اور مردم شماری
افغان مہاجرین اور مردم شماری
منصور آفاق
یہ خبر میرے نزدیک تو ناقابل یقین ہے کہ حکومت افغان مہاجرین کو باقاعدہ پاکستانی شہریت دینے پر غور کر رہی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ اس کے پس منظرمیں زیادہ تر حکومتی اتحادی پارٹیوں کی کوششیں کار فرما ہیں ۔دراصل مارچ میں ہونے والی مردم شماری بلوچستان ، صوبہ پختون خوا اور صوبہ سندھ میں مختلف پارٹیوں کے تناسب کوبری طرح متاثر کرنے والی ہے ۔ خاص طور پر سندھ میں اس بات کا خدشہ ہے کہ وہاں سندھی اقلیت میں نہ چلے جائیں۔فاروق ستار اسی امید پر دوہزار اٹھارہ میں اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔یہ بات پیپلز پارٹی کےلئے یقینی طور پر ناقابل برداشت ہوگی ۔حکومت کی پیپلز پارٹی کے ساتھ سودےبازی میں یہ بھی طے ہوسکتا ہے کہ حکومت مردم شماری پھر ملتوی کر دے ۔صدر زرداری کی آمد پر وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سےخوشی کا اظہار نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں بڑھتے ہوئے فاصلے کم کرنے کی طرف واضح اشارہ ہے ۔نئے سال کے آغاز میں ’’نواز زرداری ملاقات‘‘کے امکانات روشن ہیں جو رائےونڈ کےلئے بلاول بھٹو کی الٹی گنتی کو سیدھا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی ۔
مردم شماری کے تناظر میں صوبہ پختون خواکی مذہبی پارٹیوں کو بھی یہ خدشہ ہے کہ ان کی نشستیں بڑھنے کی بجائے کم ہو سکتی ہیں ۔وہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ضربِ عضب کی وجہ سے ان کے ووٹ بنک کو جو نقصان پہنچا ہے وہ افغان مہاجرین کوپاکستانی شہریت ملنے سےنہ صرف پورا ہوسکتا ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوسکتا ہےاوربلوچستان میں محمود خان اچکزئی اور اس کے عزیزوں کے انتخابی حلقوں میں لاکھوں مہاجرین آباد ہیں ۔اور ان کی کامیابیوں کے پیچھے بھی ان کا اہم کردار ہے ۔ افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت مل جانے سے انہیں بہت زیادہ سیاسی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ چند دن پہلے اس حوالےسےمحمود خان اچکزئی نے جو عجیب و غریب بات کی تھی میں اُس پرحیران ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیسے کیسے خود ساختہ دانشورپاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
موصوف نےفرمایا تھاکہ ’’ارکان ِ پارلیمنٹ اور وزراءسمیت آدھے پاکستانیوں نےدہری شہریت حاصل کر رکھی ہے تو پھر افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت کیوں نہیں دی جا سکتی ‘‘۔’’افغان مہاجرین کےلئے سرحد سے اٹک اور میانوالی تک ایک صوبہ بنایا جائے جس کا نام افغانیہ رکھا جائے ‘‘۔پہلا الزام تو انہوں نے ممبرانِ اسمبلی پر لگایاتھاکہ آدھے ممبران دہری شہریت رکھتے ہیں یعنی آدھے ممبران کو نااہل قرار دیا جانا چاہئے ۔دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی تھی کہ’’افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت کیوں نہیں دی جا سکتی ‘‘۔وہ دراصل اسی کوشش کی پہلی کڑی تھی ۔ایسا سوچنے وا لوں کو شایدیہ معلوم نہیں کہ دنیا کا کوئی ملک بھی اس طرح مہاجرین کو شہریت نہیں دیتا ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے ملک میں آنیوالوں کو ریفوجی اسٹیٹس دیتے ہیں اور جیسےہی انہیں احساس ہوتا ہے کہ اپنے ملک میںان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔شامی مہاجرین کی صورتحال البتہ خاصی مختلف ہے مگر انہیں کچھ ممالک نے مرحلہ وار شہریت دینے کا اعلان کیا ہے ۔مہاجرین کاکسی ملک میں شہریت حاصل کرلینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔اس وقت تک ترقی یافتہ دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں جنہیں ریفوجی اسٹیٹس رکھتےہوئے کسی ملک کی شہریت ملی ہو۔اسی بات سے اندازہ لگائیں کہ متحدہ کے بانی کو بھی گیارہ سال کے بعدبرطانیہ کی شہریت حاصل ہوئی اور وہ بھی صرف اس قانون کے تحت کہ برطانیہ میں قانونی طور پر مسلسل دس سال گزارنے والا کوئی بھی شخص شہریت حاصل کرسکتا ہے بشرط کہ اس نے انگریزی زبان ،برطانوی تاریخ اور برطانوی تہذیب سے پوری آگاہی کا امتحان دیا ہو اوراس عرصہ میں اس نے کوئی معمولی جرم بھی نہ کیا ہو حتی کہ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی بھی نہ کی ہو۔شامی مہاجرین یا کسی ایسے فرد جس کی زندگی اپنے ملک میں خطرے میں ہو اسے تو پناہ دی جاسکتی ہے مگر جہاں ساڑھے تین کروڑ افغانی افغانستان میں چین سے رہ رہے ہیں وہاں پاکستان میں موجود تیس لاکھ اٖفغانیوں کو شہریت دینے کے مطالبہ پر سنجیدگی سے غور کرنا حیرت انگیز ہے ۔آخر انہیں اپنے ملک جاتے ہوئے کیا مسئلہ ہےالبتہ وہ افغانی جن کی پاکستانیوں کیساتھ شادیاں ہو چکی ہیں انہیں شہریت ضرور ملنی چاہئے۔
اچکزئی کےمطالبے میں یہ بھی شامل تھا کہ افغان مہاجرین کاعلیحدہ صوبہ بنایا جائے اور اس کا نام افغانیہ رکھا جائے جس میں پنجاب کے اضلاع شامل کئے جائیں ۔ناقابل عمل تو ہے ہی ۔عجیب و غریب حد تک ناقابل یقین بھی ہے۔بلوچستان سے میر حاصل بزنجو نے اس بات کی سختی سے مخالفت کی ہے ۔اور واضح طور پر کہا کہ’’ چاہے کچھ ہو جائے بلوچستان میں افغان مہاجرین کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔بلوچستان میں اس وقت بیس لاکھ سے زائد افغان مہاجر موجود ہیں ۔ ‘‘انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی تک مردم شماری کو موخر کیا جائے ۔‘‘افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دلانے کا ایک سبب اور بھی بیان کیا جارہا ہے کہ اس عمل سے افغانستان اور پاکستان کے لوگوں میں بڑھتے ہوئے فاصلے کم ہونگے اور مستقبل میں افغانستان میں پاکستانی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگیا ۔ میں اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتا ۔میرے نزدیک ایسے کسی بھی عمل سے افغان حکومت پاکستان پر اور زیادہ افغان طالبان کی حمایت کا الزام لگائے گی ۔افغان صدراشرف غنی جو افغانستان میں امن لانے میں ناکام ہوچکے ہیں انہیں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کا جواز مل جائے گی ۔بہر حال یہ وزارتِ داخلہ کا معاملہ ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان اس سلسلے میں کیا سوچ رہے ہیں ۔عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے جواب میں احسان مند میڈیانے ان کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور وہ مستعفی ہوتے ہوتے رہ گئے ہیں مگر افغان مہاجرین کامعاملہ اگراسی طرح آگے بڑھتا رہا تو ان کا مستعفی ہونا یقینی ہوجائے گا۔
mansoor afaq

