
احتیاط! آگے موڑ ہے
احتیاط! آگے موڑ ہے
منصورآفاق
’ایم کیو ایم کی طرف سے پیپلز پارٹی کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوچکا ہے ‘۔یقین نہیں آتاجنابِ فاروق ستار! آپ کہتے ہیں توپھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے۔ممکن ہے پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کرایم کیو ایم کا وجود ختم کرنے کی کوئی سازش کر رہی ہو مگرآثار دکھائی نہیں دیتے ۔زرداری صاحب کی اینٹیں بجاتی ہوئی بڑھکیں،بلاول بھٹو کی شور مچاتی ہوئی تنقید ،قائم علی شاہ کی گھومتی ہوئی آنکھیںکچھ اور کہہ رہی ہیں۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا ہنی مون پیریڈ تقریباً اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ابھی تک نواز شریف نے آصف زرداری کے اِس مشورے پر کان نہیں دھرا کہ آئی ایس آئی کے معاملات وزیر اعظم کی طرف سے کوئی سویلین شخصیت بھی دیکھے ۔پیپلز پارٹی کی مقتدر حلقوں سے جاری سرد جنگ گرماگرم جنگ کی طرف چل پڑی ہے اور بنام رینجرزسندھ اور وفاق کی لڑائی میں ایم کیو ایم وفاق کے ساتھ ہے مگر مکمل طور پرایم کیو ایم کے الزامات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔آخر وہ بھی آنکھیں رکھتی ہے۔آخر کیوں ایم کیو ایم اتنے یقین سے یہ کہہ رہی ہے کہ اب پیپلز پارٹی سے مستقبل قریب تو کجا مستقبل بعید میں بھی اتحاد ممکن نہیں رہا۔کیا کیا ہے پیپلز پارٹی نے۔اِس کا سبب فقط ’بلدیاتی علمداری‘ نہیں ہوسکتابے شک بلدیاتی انتخابات میںایم کیو ایم کے خلاف پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی سےبھی اتحاد کیاتھامگر اصل معاملہ ۔کوئی اور ہے ۔لگتا ہے ایم کیو ایم کی کسی خاص رگ پر آصف زرداری کی انگلیوں کا دبائو بڑھ رہا ہے۔یہ خیال بھی ذہن میں لہرا لہرا جاتا ہے کہ عمران فاروق کا خون بھی اپنے قاتلوں کا سراغ دینے والا ہے ۔بڑے دن ہوگئے ہیں رحمان ملک نے بھی الطاف حسین سے کوئی ملاقات نہیں کی ۔ ان دنوں ان کے اردگرد دائرہ تنگ کیا جارہا ہے ممکن ہے اس معاملے میں پیپلز پارٹی کوئی اہم کردار ادا کر رہی ہو ۔اُسی کو’ پیپلز پارٹی کے اوچھے ہتھکنڈے‘ کہا جارہا ہو۔
ایم کیو ایم کے نون لیگ کے ساتھ بھی مراسم بہتر ہورہے ہیں۔بلدیات میں بھی اتحاد کیا گیا ۔استعفوں کی واپسی کے وقت ایم کیو ایم کے ارکان سے جو وعدے وعید کیے تھے اطلاع ہے کہ انہیں بڑے سلیقے سے پورا کر دیا گیا ہے ۔اسی لئے ایک عرصے سے ایم کیو ایم نے رینجرزکی کسی کارروائی کے خلاف کوئی پریس کانفرنس نہیں کی ۔ہاں وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خلاف کبھی کبھار کوئی نہ کوئی بات ایم کیو ایم ضرور کر دیتی ہے ۔
پیپلز پارٹی وفاق کی طرف سے سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا سبب بھی صرف چوہدری نثار کو قرار دیتی ہے بلکہ اعتزاز احسن نے تو یہاںتک کہہ دیا ہے کہ چوہدری نثار وزیر اعظم نواز شریف کے احکامات نہیں مانتے ۔(یعنی کسی اور کےمانتے ہیں ) انہوں نے ڈاکٹر عاصم کو بھی بے گناہ قراردیا ہے۔ رینجرز کی تمام تفتیش کو رد کردیا ہے۔بے شک وہ پیپلز پارٹی کے وکیل ہیں مگر جو اچھے اور سچے وکیل ہوتے ہیں وہ جھوٹے کیس نہیں لیا کرتے ۔یہ سوال بھی بار بار ذہن میں آتا ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان تازہ ترین تنائوکا مستقبل کیا ہے ۔جہاں تک کسی بات پر کھڑے ہوجانے کی بات ہے تو اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا ماضی کچھ زیادہ بہتر نہیں ۔اسے بدلتے ہوئے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔وہ سیاست کو صرف اقتدار کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھتی ہے اور ہمیشہ اسی کوشش میں رہتی ہے کہ مچھلی پانی سے باہر نہ آئے ۔اس کے مقابلے میں اس حوالے سے پیپلز پارٹی کا ماضی بعید بہت تابناک ہے مگر ماضی قریب میںاُس کا رویہ بھی ایم کیو ایم سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے خاص طور پر جب سے پیپلز پارٹی کے مختار ِکل آصف زرداری بنے ہیں وہاں بھی سیاست کا مفہوم بدل گیا ہے ۔
آصف علی زرداری کو جب کسی نے ایک سیاسی معاہدہ یاد دلایا تو انہوں نے کہا ’ یہ معاہدہ کوئی قرآن حکیم کا حرف تونہیں کہ میں اس سے پھر نہیں سکتا‘۔اس لئے یہ ممکن ہے کہ کسی لمحے بھی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی دشمنی دوستی میں بدل جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام تر لڑائی صرف مقتدر حلقوں کو دکھانے کیلئے ہو ۔اندرون خانہ معاملات طے شدہ ہوں ۔پاکستانی سیاست اِس حوالے سے بڑی عجیب و غریب ہے ۔کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کونسی پارٹی کس وقت کونسا یوٹرن لے لے ۔یہی جو کچھ اس وقت اقتصادی راہداری کے منصوبےپر ہورہا ہے ۔اسے دیکھ کر کبھی رونا آتا ہے اور کبھی ہنسی آتی ہے۔حکومتی رویہ بھی عجیب ہے کہ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے تو چین جا کر اقتصادی راہداری کےتمام معاملات طے کرائے مگر وفاقی حکومت صوبہ پختون خوا کے وزیر اعلیٰ کو پروجیکٹس کی تفصیلات بتانے پر تیار نہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیںکہ وہ بلوچ بھی نون لیگ کے دوست ہیں جونہیں چاہتے کہ بلوچستان میں باقی تین صوبوں کے لوگ آباد ہوں۔اقتصادی راہداری کے معاملات میں بڑھتے ہوئے اختلاف پر صرف چین میںہی نہیں پاک فوج میں بھی بے چینی پائی جارہی ہے ۔ملٹری سیکرٹری کے بغیر نریندرمودی سے ملاقات پربھی کئی سوالیہ نشان ہیں۔ پنجاب میں دہشت گردی اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی کرپشن کے خلاف ہونے والے آپریشن کو بھی مسلسل روکا جارہا ہے ۔اگرچہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اس ہفتے میںتین مرتبہ فوجی حکام سے ملے ہیں مگر اعتزاز احسن نے کل پھر اپنا جملہ دہرایا ہے کہ مجھے یہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ساری صورتحال بل کھاتی ہوئی پہاڑی کی پگڈنڈی کی طرح ہے اگلے موڑ کے بار ے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔احتیاط ضروری ہے ۔

