
محاسن ِ جمال ِ القران
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘
’’اللہ کے نام سے( شروع کرتا ہوں) ۔ (جو) بہت ہی مہربان ۔اور ہمیشہ رحم کرنے والا (ہے)‘‘۔(جمال القران )
اکثرمترجمین نے بسم اللہ کے جو تراجم کئے ہیں وہ تمام اپنی جگہ پر درست ہیں مگر جو جمال جو خوبصورتی پیر کرمؒ شاہ کے قلم سے طلوع ہوئی ہے وہ پہلے تراجم میں موجود نہیں ۔مثال کے طور پر کسی نے ترجمہ کیا ہے ’’ شروع کرتا ہوں میں ساتھ نام اللہ بخشش کرنے والے مہربان کے ۔ ‘‘ کسی نےلکھاہے ’’اللہ کے نام سے جورحمان و رحیم ہے ۔ ‘‘ ۔ کہیں یہ ترجمہ یوں ہوا ہے ۔’’اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع ہے جو نہایت بخشش والا بہت مہربان ہے ۔ ‘کہیں یہ ترجمہ یوں دکھائی دیتا ہے ۔ ’’اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے ۔ ‘‘کسی نے یوں کہا ہے ۔ ’’.! الہہ کے لیے جودنیا اور آخرت کی نعمتیں عطا کرنے والا ہے ۔ ‘‘پیر کرمؒ شاہ کے ترجمہ میں ان تمام ترجموں سے زیادہ حسن اور جامعیت موجود ہے ۔ زبان و بیاں کے اعتبار سے بھی اور مفاہیم کے اعتبار سے بھی ۔پیر کرمؒ شاہ کا ترجمہ دیکھئے
’’اللہ کے نام سے( شروع کرتا ہوں) ۔ (جو) بہت ہی مہربان ۔اور ہمیشہ رحم کرنے والا (ہے)‘‘
اس ترجمہ سے یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ صرف قراں حکیم شروع کرنے سے پہلے پڑھا جا رہا ہے ۔اس میں قران خوانی کے صرف مخصوص کارِ ثواب کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اس کے مفہوم اتنی وسعت دی گئی ہے کہ بسم اللہ ہر کام کرنے سے پہلے زبان و دل سے ادا ہونے کے عمل سے جڑ گیا ہے۔پھر پیر کرم ؒشاہ نے اس ترجمے میں تسمیہ پڑھنے والے کی ذات کو بھی شامل کیا ہے ۔’’شروع کرتا ہوں ‘‘ کے جملے کے اندر’’میں ‘‘ موجود ہے ۔پوری سپردگی کے ساتھ اپنی ذات کو اللہ کے حکم کے تابع کرنے کا اظہار ہے ۔یہ بالکل ویسے ہی کیفیت ہے جیسے شاعر نے کہا ’’ کبھی تو صبحترے کنجِ لب سےہوآغاز‘‘یا کوئی شاعر کہے ’’میری عمر کا اک اک لمحہ تیرے نام ‘‘ پھر اس میں یہ بات بھی موجود ہے کہ میں ہمیشہ اللہ کے نام شروع کرتا ہوں ۔کیونکہ ’’شروع کرتا ہوں ‘‘ میں کہیں یہ نہیں ہے کہ ’’اب شروع کرتا ہوں ‘‘ مگر جہاں ترجمہ کیا گیا ہے ’’شروع کررہا ہوں ‘‘ وہاں اس کا یہی مفہوم ہے ’’کہ اب شروع کررہا ہوں ‘‘۔یہ جو مفہوم ’’شروع کرتا ہوں ‘‘ کا ہے کہ ’’ میں ہمیشہ اللہ کے نام شروع کرتا ہوں‘‘ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کوئی کام بھی میری مرضی نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے ۔بسم اللہ پڑھنے والے کی تمام زندگی اللہ کے تابع ہے ۔ مہد سے لحد تک ہر کام اسی کے نام سے اسی کی مرضی سے کرتا ہوں اور کرنا چاہئے ۔
الرحمان الرحیم کا بھی جو ترجمہ پیر کرم شاہ نے کیا ہے وہ بھی بے مثال ہے ۔رحمن اور رحیم دونوںعربی زبان کے ایک ہی لفظ”رحم” سے مشتق ہیں ۔ اور مبالغہ کے صیغے متعلق ہیں ۔دونوں میں کثرت ووحدت مفہوم موجودہے، عربی قواعد کے اعتبار سے رحمن کا لفظ وسعت پر دلالت کرتا ہے اور رحیم کالفظ وقت پر دلالت کرتا ہے ۔
اسی لئے انہوں نے ’’الرحمان ‘‘ کا مفہوم ’’ بہت ہی مہر بان ‘‘قرار دیا ہے یعنی جس کے مہربان ہونے کی کوئی حد نہیں ہے ۔ یہ بے حد و بے کرانی مکانیت سے متعلق ہے دوسری طرف ’’الرحیم کا ترجمہ ’’ہمیشہ رحم کرنے والا ‘‘ کیا ہے اور اللہ تعالی رحمیت کا زمانیت کے جو ڑا ہے ۔یعنی زماں و مکاں دونوں اعتبار سے وہ الرحمن و الرحیم ہے ۔جہاں اِس ترجمہ دنیا اور آخرت کی نعمتیں شامل ہیں وہا ں زمان و مکان کی وہ تمام مہربانیاں اور رحم و کرم بھی شامل ہو گئے ہیں جن کا ہم ادراک نہیں رکھتے ۔
( منصور آفاق کی کتاب ’’محاسن ِ جمال ِ القران‘‘ سے ایک اقتباس)
mansoor afaq

