قانون سے لمبے ہاتھ . منصور آفاق
دیوار پہ دستک

قانون سے لمبے ہاتھ

قانون سے لمبے ہاتھ

میں ابھی تھوڑی دیر پہلے نماز تراویح کے بعد کچھ نمازیوں کے ساتھ گپ شپ کیلئے مسجد میں کھڑا ہوگیا تھا۔یہ برطانیہ کی ایک مسجد تھی مگر ہر شخص کی گفتگو کا موضوع پاکستان تھا ۔اور سب کا روئے سخن میری طرف تھا ۔چھ آدمیوں کی بارہ آنکھیں میرے چہرے پر اپنے دل کا احوال لکھ رہی تھیں ۔مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میں مرکزِ نگاہ روزنامہ جنگ کے کالم کی وجہ سے بنا ہوا ہوں ۔پہلا آدمی گویا ہوا ”منصور بھائی !پاکستان میں قانون شکنوں کے ہاتھ قانون سے زیادہ لمبے ہوگئے ہیں ۔ کبھی کسی ملک میں چیف جسٹس کا بیٹا بھی اغواہوا۔پتہ ہے سندھ کے چیف جسٹس کا بیٹا اغوا کرلیا گیا ہے (میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ) ۔یہ انتہاہے ۔اب وہاں مارشل لاء کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔”دوسرا آدمی بولا”میری سمجھ میں تو یہ نہیں آتا کہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کا بائی پاس آپریشن یہاںبرطانیہ میں ہو اہے۔برطانوی میڈیانے اس کی چار سطروں کی خبرتک شائع نہ کی۔کیا یہ کوئی ہی خبر نہیں تھی یا پھر برطانوی میڈیا کو اس خبر کی صداقت پر شک تھا ۔منصور بھائی کیا خیال ہے یہ برطانوی میڈیا کی زیادتی نہیں ”تیسرے شخص نے کہا”میں تو پاکستانی دانشوروں پر حیران ہوں ۔اس وقت جب افغانستان پاکستان پر حملہ آور ہو اہے۔ ایک پاکستانی میجر کو بھی شہید کردیا گیا ہے ۔ایسے میں پاکستانی دانشور افغانستان کی شان میں قصیدہ پڑھ رہے ہیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سچاپاکستانی ہے اور کون مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے ایک ہونے کا نعرہ لگاکر پوری قوم کو فریب دے رہا ہے ۔ ”چوتھے آدمی بولا ”منصور صاحب میرا سوال یہ ہے کہ اب جب یہ طے ہوگیا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کے بچوں کے کھرب ہا کھرب روپے پاکستان سے باہر موجود ہیں تو پھروہ پاکستانی جنہیں کھانے کیلئے پوری روٹی میسر نہیں۔کیا انہیں تبدیلی کیلئے سوچنا نہیں چاہئے ۔”پانچویں شخص نے چوتھے کی تائید کرتے ہوئے کہا ”ہونا تو یہی چاہئے ۔جب ملک کا وزیر خزانہ یہ کہے کہ اگر دال مہنگی ہے تو لوگ مرغ کیوں نہیں کھاتے تو وہاں انقلاب ِ فرانس کی یادیں ذہنوںمیں پھیلنے لگتی ہیں ۔یقینا اب کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا”چھٹا آدمی بولا ۔چھوڑو یار کچھ نہیں ہونا جس ملک کے وزیر داخلہ اور ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کیلئے سب سے بڑی پریشانی یہ ہو کہ چند مجرموں یا ملزموں کے اقبالی بیان کی ویڈیوز میڈیا تک کیسے پہنچ گئی ہیں وہاں کسی مجرم کو سزا خاک ہونی ہے ۔وہاں خاک تبدیلی آنی ہے ”

جب سب نے اپنی اپنی بات مکمل کرلی تو انہیں میرے خاموشی بری لگنے لگی سو بولنا ضروری تھا ۔سومیں نے پہلے شخص کو مخاطب ہو کر کہا ”سند ھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا بیٹا اغوا ہوگیا ہے ۔کوئی قیامت نہیں آگئی ۔امریکہ میںجب صدر کینڈی کو قتل کردیا گیا تھاتو کیا وہاں مارشل لاء لگا یا گیا تھاابھی چند روز پہلے یہاں میں رکن پارلیمنٹ قتل کردی گئی ۔تو یہاں قانون ختم ہوگیاہے ۔(دوسرے شخص کو مخاطب ہو کر ) اور ہاں تمہیں اس کی تکلیف ہے کہ برٹش میڈیا نے وزیراعظم نواز شریف کے اوپن بائی پاس کی خبر کیوں نہیں دی ۔کیا پاکستانی میڈیا میں اس بات پر اختلاف ہے نا کہ وزیر اعظم کے ہاٹ کی اوپن سرجری ہوئی یا نہیں ۔ایک بات جس پر ابھی ہم پاکستانی خود ہی متفق نہیں ہوسکے اس کی شکایت برٹش میڈیا سے لایعنی ہے ”پھر میں تیسرے شخص کی طرف متوجہ ہوا اور کہا ”بے شک تمہاری بات کسی حد تک درست ہے مگر یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ سارے افغانی ہمارے دشمن نہیں ہیں ہاں اس وقت امریکہ نے اقتدار ایسے لوگوں دے رکھا ہے جوہمارے دشمنوں کے اشارے چلنے میں ہی اپنی بقا تصور کرتے ہیں ۔”میں نے چوتھے آدمی سے کہا ”تمہیں پانامہ لیکس پر تکلیف ہے مگر یہ بھی دیکھو کہ اس مسئلہ پوری اپوزیشن حکومت کے خلاف ڈٹ گئی ہے بلکہ حکومتی پارٹی کے بہت سے ایم این ایم بھی اپوزیشن کے ساتھ ہیں ۔کہنے کا مطلب یہ کہ ہم اتنے گئے گزرے لوگ بھی نہیں ہیں۔پانچویں آدمی سے میں نے کہا ”اسحاق ڈار کی یہ بات سب کو اُس فرانسیسی ملکہ جیسی لگ رہی ہے جس نے کہا تھا کہ اگر آٹا نہیںہے تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے ۔حالانکہ حقیقت یہ نہیں اسحاق ڈار نے دال کی بجائے مرغی کھانے کا مشورہ اس لئے دیا کہ ان کے خیال میں پاکستان مرغی کی قیمت دال سے کم ہے ۔چھٹے آدمی سے میں نے کہا ”ملزموں کے اقبالی بیان کی ویڈیوز عدالت کیلئے بنائی گئی تھی وہ عدالت کی اجازت کے بغیر میڈیا پر آن ایئر نہیںکی جا سکتی تھی۔سو ایک غیر قانونی کام ہواہے ۔اسے درست نہیں کہا جا سکتا ”

میں نے دیکھا کہ میری باتیں سن کر سب کے چہرے سرخ ہوچکے ہیں ایک شخص نے برا مناتے ہوئے کہا ”لگتا ہے تم بھی بک گئے ہو ۔ میں تو سمجھتا ہے تمہارے اندر ابھی ضمیر نام کی چیز موجود ہے ۔دوسرا بولا ۔اویار پیسے میں بڑی طاقت ہے اس کو بھی کوئی پلاٹ ولاٹ مل گیا ہوگا اور پھر وہ سارے بڑ بڑاتے ہوئے مسجد سے باہر نکل گئے ۔میں حیران و پریشان انہیں جاتے ہوئے دیکھنا لگا اور میرے دماغ خیال آیا کہ یہ چھ لوگ ایک طرف ہیں ایک طرف میں ہوں ۔ جمہوری اعتبار سے یہی درست ہیں۔ میں غلط ہوں ۔اگر پاکستان واقعی ایک جمہوری ملک ہے اور اس کے باشندوں کی سوچ ایسی ہے تو پھرموجودہ حکومت خاصی مشکل میں ہے ۔یہ تو برطانیہ میں بسنے والے پاکستانیوں کی ذہنی کیفیت تھی ۔میرا خیال ہے پاکستان میں بھی تقریباً صورتحال ایسی ہے ۔نون لیگ کیلئے بہت مسائل ہیں ۔اسی بات سے اندازہ لگا لیجئے کہ وزیر اطلاعات پرویز رشید دو مرتبہ خورشید شاہ کے گھنٹوں کو ہاتھ لگا کر ملا ہے اور پیپلز پارٹی نے نئے قائد حزب اختلاف کی تلاش شروع کردی ہے ۔نون لیگ کے بہت ایم این ایزوزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ”ساتھوں کومنانے والی افطاری ”میں شریک نہیں ہوئے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان پر باقاعدہ احتجاج کیا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف اور نریندر مودی کے ذاتی تعلقات بھی ہیں جب کہ بھارتی وزیر اعظم جب جاتی عمرہ آئے تھے تو وزیر اعظم نواز شریف نے خود اِس ذاتی دوستی کا ببانگ دہل اظہار کیا تھا ۔یعنی معاملات خاصے خراب ہیں ۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے