
اچکزئی کی اچکری
اچکزئی کی اچکری
محمود خان اچکزئی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے میں نے تویہ کہا تھا کہ” خیبرپختونخوا ہ تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ رہا ہے ، یہ نہیں کہا کہ خیبرپختونخوا افغانوں کا ہے۔ تاریخی تناظرمیںیہ افغان سرزمین تھی اور پشاورافغانوں کامسکن تھا۔ افغان سرزمین دریائے آمو سے شروع ہوتی ہے ۔”کیا کہنے۔اِس وضاحت سے تو کہیں بہتر تھا کہ موصوف وضاحت ہی نہ فرماتے۔ افغان اخبار نے توان کے انٹرویو سے یہ سرخی نکالی تھی کہ پختون خواہ افغانوں کا علاقہ ہے ۔انہوں نے وضاحت میں سارے صوبہ پختون خواہ کو الٹا افغانستان کا حصہ قرار دے دیاہے اور اسے تاریخی طور پر ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے حالانکہ یہ بات تاریخی اعتبار سے بالکل غلط ہے کہ پختون خواہ کا علاقہ صدیوں سے افغانستان کا حصہ چلا آرہا ہے ۔حیران ہوں ان کی فہم و فراست پر ۔اُن کی اُس دانش پر جس کے نون لیگ میں بڑے چرچے ہیں ۔تاریخ کا معمولی سے معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ صوبہ پختون خواہ صدیوں سے وسطی ایشیا سے ہندوستان میں داخلے کا واحد راستہ رہا ہے۔افغان ، فارسی،مغل اور دیگر حملہ آور جب بھی برصغیر پر حملہ آور ہوئے تو درہ خبیر سے برصغیر میں داخل ہوئے یعنی ہر دور میں درہ خیبر بر صغیر کا ہی حصہ رہا۔یہی درہ خیبر وسطی ایشیا کے ممالک کیلئے بر صغیر کاواحد تجارتی راستہ مانا جاتا رہا۔
اگر اس سے بھی پیچھے جایا جائے تو تاریخ بتاتی ہے کہ یونانی،سکاہی،کشنی،چینی،عرب، ترک،مغل،منگول،وغیرہ سب اسی راستے سے برصغیر میں داخل ہوئے ۔ہندووں کی مقدس کتاب مہا بھارت میں بھی اس علاقہ کا ذکر موجود ہے ۔اِس میں اُس زمانے کا حوال بیان کیا گیا ہے جب یہاں گندھارا سلطنت قائم تھی۔گندھارا جو برصغیر کی ایک اہم تہذیب ترین ہے۔جس پر پوری دنیا میں تحقیق ہوچکی ہے اُ س تہذیب کا تعلق اسی علاقہ سے ہے ۔ماضی قریب میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اِس علاقہ پر سکھوں کی حکومت تھی اور برطانوی دور میں اِس علاقہ کومکمل طور پرصوبہ پنجاب میں ضم کرلیا گیا۔یعنی تاریخی اعتبار یہ علاقہ کبھی افغانستان کا حصہ رہا ہی نہیں ۔محمود اچکزئی نے پتہ نہیں اس علاقہ کو دریائے آمو کا حصہ کیسے قرار دے دیا ۔کونسی تاریخ نکال لی ہے کونساجغرافیہ ڈھونڈھ لائے ہیں ۔یہ دریائے آمو تووسط ایشیا کا سب سے بڑا دریا ہے ْپامیر کے پہاڑوں سے نکلنے والے اس دریا کی کل لمبائی تقریباً2400 کلومیٹرہے اور یہ افغانستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان سے ہوتا ہوا بحیرہ ارال میں گرتا ہے۔یہ مجھے لگتا ہے محمود خان اچکزئی نے کوہ فاف کی کہانیوں سے یہ تاریخ اخذ کی ہے
مجھے ان کے اس بیان پر حکومت ِ وقت کی خاموشی پر بھی عجیب لگ رہی ہے ۔سوچتا ہوں کہ اگر کوئی پنجابی لیڈر بھارت کے کسی اخبار کو انٹرویودیتے ہوئے کہہ دیتا کہ سارا پنجاب بھارت کا حصہ ہے تو اس وقت تک اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہوتا ۔اگر کوئی سندھی لیڈریہ کہتا ہے صوبہ سندھ انڈیا کا حصہ تو اس کے کیا سلوک کیا جاتا اس کا اندازہ ہم بہ آسانی سے کر سکتے ہیں مگر اچکزئی صاحب ہیں کہ ابھی تک اسی طرح قابلِ عزت و تکریم ہیںکہ ان کے بھائی کو انہی کے احترام میں بلوچستان کا گورنر لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھان کے اٹھ اور رشتہ دار بھی بلوچستان میں مختلف عہدوں پر براجماں ہیں ۔
میں نے اس بات پر خاصی دیر غور کیا ہے کہ محمود خان اچکزئی جو پاکستان کے سرکردہ لیڈر ہیں۔ ایک پارٹی سربراہ ہیں انہوں نے کیسے افغانستان کے ایک اخبار کو یہ بیان دے دیا ہے ۔پھر مجھے ان کے والد گرامی عبدالصمدخان اچکزئی کی یاد آئی۔جنہیں اپنے دور میں اہلِ کانگرس عزت سے بلوچ گاندھی کہا کرتے تھے ۔اگرچہ انہوں نے اپنی پارٹی بنائی ہوئی تھی مگر الحاق کانگرس کے ساتھ کیا ہوا تھا کیونکہ وہ پاکستان بننے کے مخالف تھے ۔متحدہ ہندوستان ان کے خوابوں کا مرکز و محور تھا قائد اعظم کو کافر اعظم کہنے والوںسے گہری دوستی تھی ۔انہوں نے ابوالکلام آزادکی کتاب ”ترجمانِ القران کا پشتو میں ترجمہ کیا تھا۔1945 میں عبدا لصمد خان اچکزئی نے باچا خان کو ایک خط میں لکھا تھا کہ برطانوی ہند میں مقبوضہ پشتون علاقوں کونئی تقسیم میں شامل کرنے کی بجائے علیحدہ پشتونستان بنایاجائے یعنی اگر برصغیرکی تقسیم ہونی ہے تو پھرکانگرس برطانیہ سے پشتونوں کیلئے علیحدہ ملک کا مطالبہ کرے مگر کا نگرس نے اِس مطالبہ پر کوئی توجہ نہیں دی تھی ۔جب برصغیر کی تقسیم ہوئی توعبدالصمد خان اچکزئی نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیاتھا اور اسے پشتون دشمن عمل قرار دیا تھا۔ باچا خان بابا نے اپنے شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے گاندھی جی سے یہ تاریخی جملہ کہا تھاکہ ”تم نے ہم پشتونوں کو بھیڑیے کے سامنے ڈال دیا ہے”اس کے بعدعبدالصمد خان اچکزئی نے باچا خان سے مل کرپشتون رہنماوں کے ایک اجتماع کا اہتمام کیاتھا۔ پاکستان کے خلاف بنوں میں ایک بہت بڑا جرگہ منعقد کیا گیاتھا جس میں پاکستان کے پشتون علاقوں پر مشتمل ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس قرار داد کو بنوں قرار کا نام دیا گیاتھا ۔ انہی ایام میں افغانستان کو بھی پاکستان پر حملے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ایک حملہ ہوا بھی تھاجسے بری طرح ناکام بنادیا گیا تھا۔اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگر محمود خان اچکزئی کے بیان پر غور کیا جائے تو لگتا ہے کہ وہ فکری اور عملی سطح پر پوری اپنے والد ِگرامی کے صحیح وارث ہونے کا ثبوت پیش کررہے ہیں ۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اچکزئی قبیلہ کافی عرصہ سے بلوچستان میں آباد ہے ۔خاص طور پر اُس علاقے میں جس کی سرحد افغانستان ملتی ہے ۔یقینا یہ لوگ بلوچستان میں افغانستان ہی سے آئے تھے ۔یوں انہیں بلو چستان کو بھی افغانستان کا حصہ سمجھنا چاہئے تھامگر ابھی تک انہوں نے بلوچستان پر اپنا دعویٰ نہیں کیا۔انہیں تو چاہئے تھا کہ جہاں وہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے افغانی باشندوں کو صرف پختون خواہ میں جمع ہونے کا کہہ رہے تھے ۔ وہاں بلوچستان میں آنے کی دعوت بھی دیتے۔ وہاں تو ان کی اپنی حکومت ہے ۔بلکہ اپنے افغانی بھائیوں کو اپنے علاقے میں اپنے گھر کے قرب و جوار میں آباد کراتے ۔ووٹ بھی بڑھ جاتے ۔پارٹی بھی مضبوط ہوجاتی ۔پچیس لاکھ افغانیوں کی آباد کاری سے پانچ چھ ایم این اے کی نشستیں اور پندرہ بیس ایم پی اے کی نشستیں آسانی سے نکل سکتی ہیں ۔پھرطالبان سے بھی تعلق مضبوط تر ہوسکتے ہیں وہ بھی تو افغان ہیں بلکہ پشتو بولنے والے افغان ہیں ۔
منصور آفاق

