اسلام اور جاگیر داری . منصورآفاق
دیوار پہ دستک

اسلام اور جاگیر داری

اسلام اور جاگیر داری

بات دراصل یہ ہے کہ حیوان بھی مفادِ خویش سوچتا ہے اور سب سے چھین کر خود کھالینا چاہتا ہے مگر اس کی ہوس کی جب اس کا پیٹ بھر جاتا ہے اس کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے وہ سب کچھ چھوڑ دیتا ہے اسے یہ ہوس نہیں ہوتی کہ کل کے لیے بھی اور پر سوں کے لیے بھی سمیٹ کر رکھ لوں ۔ مگر انسان کا جب اپنا پیٹ بھر جاتا ہے تو اسے کل کی فکر لا حق ہو جاتی ہے وہ سوچتا ہے کہ کل اگر حالات مختلف ہوئے اور وہ کما کر نہ لا سکا تو کیا ہوگا ۔ پھر اس کی فکر میں اور تو سیع آجاتی ہے وہ سوچتا ہے ہمیشہ حالات ایک سے نہیں رہتے اسے آج ہی بہت کچھ سمیٹ لینا چاہیے اسے اپنے ساتھ اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر بھی ستانے لگتی ہے وہ ان کا کل بھی محفوظ کر لینا چاہتا ہے یوں اس کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے دولت کی اس ہوس میں وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اسے مال کن ذرائع سے مل رہا ہے جب حصولِ مال وہ رہی مقصد ہو جائے تو پھر حلال حرام کی تمیز بھی اٹھ جاتی ہے اور معاشرہ سلب و نہب کا شکار ہو جاتا ہے اسلام اس کی ان خواہشات کو پیش نظر رکھتا ہے اور اُسے بتاتا ہے کہ اس کے ان مسائل کا ایک اور حل بھی ہے اس سے اس کا اور اس کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو جائیگا اور وہ یہ ہے کہ افراد ِ معاشرہ مل جل کر ایسا معاشرہ قائم کر لیں جو خدا کے قانون پر استوار ہو اگر اس نے یہ معاشرہ قائم کر لیا تو وہ ہر قسم کے افکار سے نجات پا لیں گے ۔

اسلام قبول کرنا اور اسلامی معاشرہ قائم کرنا اللہ اور بندے کے درمیان ایک میثاق اور معاہدہ کو وجود میں لانا ہے یہ معاہدہ قران نے یوں بیان کیا (اللہ نے مومنین سے ان کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں اور ان کا معاوضہ جنت ہے)افسوس ہے کہ ہمارے علماءنے قران کی تمام اصطلاحات کو اور بالخصوص جزائے اعمال کے انعامات کو آخرت سے منسلک کر لیا ہے انہی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح جنت بھی ہے جنت بلاشبہ آخرت کا انعام بھی ہے لیکن قران حکیم ہر عملِ صالح کا اجر آخرت پر اٹھا نہیں رکھتا ، اجر دنیا سے ہی شروع ہو جاتا ہے ۔ ایمان لا کر اعمال صالحہ کر نے والوں کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین کی خلافت سے نوازیگا جنت کے متعلق اللہ نے فرمایا وہ ایسا مقام ہے اس میں بھوک نہیں ہوگی لباس کی تنگی نہیں ہو گی موسم کے مصائب نہیں ستائیں گے یعنی روٹی کپڑا اور مکان سے بے فکری ہوگی اور اسلامی معاشرہ ان تمام مشکلات سے نجات کی ضمانت دیتا ہے ۔ ہم کہہ رہے تھے کہ سرمایہ داری نظام کی بنیاد انسان کی مفادِ خویش پر ذہن و عمل کو مر کوز کر دینے کی عادت ہے اپنا اور اپنی اولاد کا خیال اسے زیادہ سے زیادہ مال پیدا کر نے پر اکساتا ہے جب مال کمانا ہی مقصود حیات ہو جائے تو پھر جائز کی تمیز فنا ہو جاتی ہے اور لوٹ کھسوٹ شروع ہو جاتی ہے یہ لوٹ کھسوٹ انسان کو بد دیانت بنا دیتی ہے اس میں کم محنت سے زیادہ کمالینے کی مکاری آجاتی ہے اور یہی ضمیر کی بددیانتی ہے اگر وہ مزدوری کرتا ہے تو بھی کوشش کر تا ہے کہ آجر کا آنکھوں میں دھول جھونک کر کمالے محنت کم کر ے اوراجرت زیادہ لے اگر وہ آجر ہے اور دوسروں سے کام کرا رہا ہے تو کوشش کر تا ہے کہ مزدور کو پوری اجرت ادانہ کر ے اس سے زیادہ کام کرائے اور اس کے حق ِ محنت کا ایک حصہ اپنے پاس رکھ لے یہ بددیانتی بے ایمانی اور منافقت جب افراد کی رگوں میں سرایت کر جاتی ہے تو پورا معاشرہ سلب و نہب کا معاشرہ بن جاتا ہے ہر ایک اس تاک میں رہتا ہے کہ کسی طرح دوسروں کی کمائی ہتھیالے کم محنت سے زیادہ کمانے کا رجحان ہی سود خوری کو جنم دیتا ہے ۔

قران نے سب سے پہلے تویہ تصور دیا ہے کہ محنت ہی اصل چیز ہے اور معاوضہ محنت کا ہی ہے لیس للانسانِ الا ما سعیٰ (انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اس نے محنت اور کوشش کی) وہ معاشرہ میں ایسے افراد (بجز معذوروں اور محتاجوں کے) نہیں دیکھنا چاہتا جو دوسروں کی کمائی اور محنت پر عیش کر رہے ہوں اور ان استحصال پسندوں کو قران ”مترفین“ قرار دیتا ہے اور معاشرہ میں ان کا وجود برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ معاشرتی بگاڑ اور فسا د کا بنیادی سبب ان کا وجود ہے انہی کو دیکھ کر ہر فرد کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کسی طرح محنت و مشقت کے بغیر دولت حاصل کر نے کا ڈھنگ اس کے ہاتھ آجائے اور پھر یہی خواہش اسے آمادہ کرتی ہے کہ وہ طرح کی بے ایمانیاں اور بد کا ریاں سوچے اسلام ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو محنت کر کے کماتے ہیں حضور ﷺ نے فرمایا محنت سے کمانے والا ہی اللہ کا دوست ہے اللہ کو وہ ہاتھ بڑے محبوب ہیں جن میں رزقِ حلال کماتے ہوئے گھٹے پڑگئے ہوں اب ہم اسلامی معاشی نظام کے وسائل کی طرف آتے ہیں ۔ دنیا میں وسائل رزق میں سے سب سے بڑا وسیلہ اور ذریعہ زمین ہے انسان اسی پر قابض ہو کر جاگیر دار اور زمیندار بنے اور دوسروں کو اپنا غلام بنایا اللہ نے کسی کے ماتھے پر لکھ کر نہیں بھیجا تھا کہ اتنے رقبہئِ زمین کا وہ مالک ہے یہ تو خود ہی جابر اور طاقتو ر انسانوں نے زمین پر لکھ کر لکیریں کھینچ دیں اور بڑے بڑے رقبے اپنے لیے مختص کر لیے ۔

آج دنیا کے اکثر مفکرین جاگیر داری کو انسانیت کے لیے سب سے بڑی لعنت قرار دے رہے ہیں اور مختلف معاشرتی نظام اس سے چھٹکارا پاچکے ہیں یا چھٹکارا پانے کی جدو جہد میں مصروف ہیں یہ تصور بھی اسلام ہی کی تعلیمات سے دنیا میں ابھرا ۔ قرآنِ حکیم نے ہی سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ الا رض اللہ زمین اللہ کی ہے اور اللہ نے یہ زمین تمام انسانوں کے حوالہ کی ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں اس سے رزق اگائیں اور اس پر اپنے ٹھکانے بنائیں پس کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اسے اپنی ملکیت بتائے یہ تمام نسلیِ انسانی کی مشترک متاع ہے اور اسے مفاد ِ عامہ کے لیے کھلا رہنا چاہیے ارشاد ربانی ہے ۔ (اور تمہارے لیے زمین میں زندگی بھر کے لیے جائے قرار اور متاع جس سے تم انتفاع کر سکتے ہو) جیسے سورج کی روشنی کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتی ہوا کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتی اسی طرح زمین بھی کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتی ہمارے عظیم شاعر علامہ اقبال نے اس نکتہ کو بہت دانائی سے سمجھا اور بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں حق زمیں را جز متاعِ مانگفت ایں متاع ، بے بہا مفت است مفت دہِ خدایا نکتہئِ ازمن پذیر رزق وگور از اوبگیر اور اسگیر باطن ِ ” الارض اللہ “ ظاہر است ہر کہ اس ظاہر نہ بیند کا فراست (اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہماری ملکیت نہیں ہماری ” متاع “ قرار دیا ہے اور یہ متاع بے بہا ہمیں مفت عطا کر دی ہے اے جاگیر دار میری ایک دانش آموز بات مان لے اس زمین سے تو رزق اور قبر تولے سکتا ہے اور لے لے مگر اس کا مالک بننے کی کوشش نہ کر کیونکہ خدانے کہا الارض للہ زمین اللہ کی ہے اس قول کا مفہوم باطنی بھی ظاہر ہے اور جو اس ظاہر اور واضح مفہوم پر ایمان نہیں لاتا کافر ہے) زمین کے متعلق اللہ نے فرمایا ۔ سوا ءً لِلسَّا ئلین۔ سب حاجت مندوں کے لیے یہ مساوی ہے یعنی تمام حاجتمند اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر کوئی اس کا مالک قرار نہیں پاسکتا ۔ قرآن حکیم نے بڑی وضاحت سے مختلف قوموں اور تہذیبوں کا عبرت خیز انجام بتایا اس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ جولوگ بڑے بڑے رقبوں پر قابض ہو کر کہتے تھے اتنی زمین میری ہے وہ لوگ ختم ہو گئے زمین ان کو کھا گئی ان کے ملکیتی کا غذات اور دستاویزات برباد ہوگئیں اقبال نے بھی اس لطیف نکتہ کو سمجھا اور بیان کیا ہے وہ بڑے نادر انداز میں کہتا ہے کہ زمیندار اور مزارع آپس میں جھگڑرہے تھے زمیندار کہہ رہا تھا جس کے پاس ملکیتی کا غذات ہیں کھیت اس کا ہے مزارع کہہ رہا تھا جو زمین پر محنت کر کے رزق اگا تا ہے کھیت اس کا ہے اس پر خود زمین بول اٹھی کہ کس بحث میں پڑے ہو ؟ میں تمہاری نہیں تم میرے ہو ؟ مالک ہے یا مزارعِ شوریدہ حال ہے جو زیر آسماں ہے وہ دھرتی کا مال ہے اس طرح قران جاگیر دار زمیندار کے دعووں کی تردید کرتا ہے اور پھر ایک اور بات کہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ زمین سے جو کچھ پیدا ہوتا ہے وہ سارا اس کا بھی نہیں جو اس میں محنت کر تا ہے قرآن حکیم نے بڑی وضاحت سے زمین کے سلسلہ میں تمام تفاصیل بیان کر دی ہیں وہ ” ”الارض“ کی اہمیت اجاگر کرتا ہے اس نے آدم کی تخلیق کے وقت بھی فرمایا تھا ۔ اِنی جَا عِل’‘ فِی الا رضِ خلیفہ‘اس نے معاشی زندگی کے لیے بھی ” الارض “ کی اصطلاح استعمال کی ہے کیونکہ سارے معاشی وسائل کی اصل بنیاد زمین ہے ۔ جو لوگ رزق کے سر چشموں پر قابض ہو کر انہیں اپنی ملکیت بتاتے ہیں قرآن سب سے پہلے ان سے سوال کرتا ہے ۔

یہ بتاﺅ کہ تخلیق ارض وسماوات میں تمہاری کونسی ہنر مندی اور کونسا کمال شامل ہے کیا خدانے ہی زمین کو پیدا نہیں کیا اس میں نمو کی قوتیں اور فصلین اگانے کی صلاحیتیں نہیںرکھیں اور سماوات یعنی بلندیوں کی فضا جس میں بارش ، روشنی حرارت اور ہو ا شامل ہے یہ سب اس کی تخلیق کر دہ نہیں پھر زمین کے اندر جو معدنیات کے ذخائر ہیں یہ سب اسی کے پیدا کر دہ نہیں ؟ بھلا بتاﺅ کہ ان میں تمہاری ہنر مندی کا کتنا حصہ ہے ارشاد ِ ربانی ہے ۔ ” ا¿ فر ایتم ما تحر لون“ کیا کبھی اس پر بھی غور کیا جو تم کا شتکاری کرتے ہو “ تم تو بس یہی کرتے ہو ناکہ ہل چلاتے ہو زمین درست کی اور بیج لکھیر دیا اس کے بعد کیا یہ ہنر مندی بھی تمہاری ہے اور یہ کام بھی تم کر سکتے ہو کہ اس بیج کو زمین کی پیٹ میں مناسب حالات مہیا کرو اس میں نمو کی صلاحیتوں بھر دو اور اسے زمین سے اگا کر ذراسی کونپل کو پودا بنا دو یقینا نہیں تو پھر اصل کام کس کا ہوا ۔ (کیا تم زراعت کا یعنی بیج کو اگا رکر پودا بنانے کا کام کر تے ہو یا ہم کرتے ہیں) پھر آگے بھی تمہاری ہنر مندی کو کیا دخل ہے اگر ہم کھیتی کو نشوونما دے کر پروان نہ چڑھائیں اسے پکنے سے پہلے ہی چورا چورا کر دیں تو کیا تم کسی طرح ہماری قوتوں کے آگے بند باندھ سکتے ہو اور ہمیں روکنے کی صلاحیت رکھتے ہو ؟ ارشاد ہوتا ہے ۔ (اگر ہم چاہیں تو کھیتی کو پکنے سے پہلے چورا چورا کر دیں اور تم سر پیٹ لو اور کہنے لگو ہائے ہم پر تو بیج بھی چٹی پڑگیا تو لُٹ گئے اور بے نصیب رہ گئے) پھر خدا کہتا ہے اور آگے بڑھو ۔ (کیا تم نے اس پانی پر غور کیا جو تم پیتے ہو اور اپنے کھیتوں کو پلاتے ہو ) (کیا تم اس پانی کو بادلوں سے برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں) کھاری پانی سمندر سے بخارات بن کر اڑتا ہے سورج کی شعاعیں اپنے مخصوص عمل کشید سے صاف اور محفظ پانی اڑا کر اوپر لے جاتی ہیں یہ بخارات صاف اور میٹھے پانی میں ڈھلتے ہیں اور بادلوں سے برستے ہیں اس سارے عمل میں تمہارا کیا دخل ہے اب اگر اس عمل سے کھاری پانی آبِ شیر یں میں نہ ڈھلتا تو نہ تم اسے پی سکتے نہ تمہارے چوپائے اور نہ ہی یہ تمہارے کھیتوں میںکچھ پیدا کر سکتا ۔ (اگر ہم چاہتے تو اسے کھاری ہی بنا دیتے (مگر ہم نے ایسا نہیں کیا ہم پھر تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے) انہی آیات کی ترجمانی کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کیا خوبصورت اندازِ بیان اختیا ر کیا ہے ۔ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریاﺅں کی موجوں سے اٹھا تا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھم سے بادِ سازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نورِ آفتاب کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہئِ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خُوئے انقلاب اور پھر ان سوالات کے بعد وہ یہی نتیجہ اخذ کر تا ہے کہ الا ر ض اللہ دہ ِ خد ایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں ، تیری نہیںمیری نہیں قرآن میں بھی اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے فرمایا گیا ہے ۔ ” انسان کو اپنے طعام پر غور کر نا چاہیے ۔ ہمارا قانون ِ ربوبیت بارش برساتا ہے پھر ہمارے ہی قانون کے مطابق ریشمی سی بال زمین پھاڑ کر باہر آجاتی ہے کونپل نکلتی ہے بالیں بنتی چلی جاتی ہیں پھران پر خوشے لگتے ہیں ان میں دانے پڑتے ہیں ۔

اس طرح انگور اور سبزیاں زیتون ، اور کھجور اور طرح طرح کے پھلوں کے باغات اگتے ہیں ادھرچارہ پیدا ہوتا ہے یہ سب کچھ تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے ہے ۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار مقامات پر قرآن حکیم نے وضاحت کر دی ہے کہ کا شتکار جو کھیتی اگاتا ہے ۔ اس میں اس کی محنت ضرور شامل ہوتی ہے مگر بہت ساحصہ اللہ کے قوانین کا ہے اب اگر آدمی کہے یہ سب کچھ میرا ہے تو اس کا یہ فیصلہ غلط ہے نہیں اس میں بڑا حصہ خدا کا ہے یہ حصہ خدا نے حاجت مندوں کو لے وقف کر رکھا ہے اس لیے اسلامی قانون کھیت بونے والوں سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے اسلامی حکومت یہ حصہ عوام میں سے ضرورت مندوں کے لیے کھلا رکھتی ہے ۔ پس اسلام کے معاشی نظام میںپہلی بات تو یہ ے کہ الارض اللہ زمین کسی انسان کی نہیں اسلامی حکومت کی ملکیت ہے اور پبلک پر اپرٹی ہے پھر انتفاع کے لیے حکومت جن افراد کی تحویل میں دیتی ہے یہ زمین انکی ملکیت نہیں ہوجاتی انکی تحویل میںہوتی ہے حکومت اس میں سے وہ حصہ بھی وصول کر یگی جو تصر یحات سابقہ کے مطابق اللہ کا حصہ ہے اس حصہ کا تعین حکومت خود کر یگی ۔ اگر ایک آدمی زمین پر قابض ہو کر اسے اپنی ملکیت قرار دے کر بٹائی یا مزارعت پر اسے دوسروں کو دے دیتا ہے اور خود بغیر محنت کئے اس سے حصہ وصول کر تا رہتا ہے تویہ حضور ﷺ کی احادیث کے مطابق رِبا (سود) ہے الوداﺅد کی نقل کر دہ روایت میں ہے کہ جب حضور ﷺ کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپ نے ایسا معاملہ کر نے والے کو صاف فرمایا اربیتھا (کیا تو اس کا سود لیتا ہے) اور سود کے متعلق قرآن حکیم میں آیا ہے کہ سود لینے والے اللہ اور رسول سے گویا اعلانِ جنگ کرتے ہیں ۔ آپ کی ایسی روایات اور ایسے احکام کی تفصیلی وضاحت ہم اصل کتاب میں کریں گے زیرِ نظر تحریر تو ان قوانین اسلامی کا خاکہ ہے انہی روایات کے پیش نظر حضرت امام اعظم مزارعت کو فاسد قرار دیتے ہیں ۔

اسلامی حکومت جو زمین کسی کی تحویل میں دیتی ہے اگر وہ اس زمین کو زیر کاشت لاکر انتفاع نہیں کرتا تو اس سے جس وقت چاہے واپس لے سکتی ہے ۔ صحرائے عرب میں زمین کو وہ وقعت حاصل نہیں تھی جو دوسرے زرخیز ملکوں میں حاصل تھی مسلمانوں نے جب عراق اور شام فتح کئے تو یہ بڑے شاداب اور زرخیز علاقے تھے صحرائے عرب میں تو کہیں کہیں نخلستان تھے اور کوئی رقبہ قابل ِ کا شت تھا یہاں تو زمین کا چپہ چپہ قیمتی تھا اس لیے عراق کی زمینوں کے متعلق جناب فاروقِ اعظم نے وہ تاریخ ساز فیصلہ کیا جو دین کی روح کی صحیح ترین ترجمانی کرتا ہے ہم اسی کو اصل و بنیاد سمجھتے ہیں اس تاریخ ساز فیصلہ کا اجمالی ذکر ہم پچھلے صفحات میں کر آئے ہیں اور تفصیل اصل کتاب میں آئیگی ۔ پس اسلامی انقلاب جس ملک میں آئیگا اس میں سب سے پہلے زمین قومی ملکیت میں لے لی جائیگی ۔ یہاں ہم دنیا والوں کے ایک عجیب فیصلہ کی طرف آپ کی توجہ منذول کرانا چاہیں گے آج تقریباً تمام تمدنوں اور تمام قوموں کا اس قانون پر عمل ہے کہ زمین کے اندر جو معدنیات ہیں یا سیال دولت یعنی تیل پڑولیم یا گیس ہے وہ قومی ملکیت ہوتی ہے ۔ یہ ذخائر جہاں بھی دیرافت ہوتے ہیں حکومتیں انہیں اپنی تحویل میں لے لیتی ہیں اور انفرادی ملکیت میں نہیں رہنے دیتی لیکن زمین کی انفرادی ملکیت (محدود یا غیر محدود) جائز سمجھی جاتی ہے ۔ اسلام اس کو بالکل غلط سمجھتا ہے وہ جب الارض اللہ کہتا ہے تو پوری زمین اپنے تمام خزائن معادن اور ذخائر کے ساتھ اسلامی حکومت کی ملکیت ہوتی ہے۔ زمین کے یہی معدنی اور زرعی ذخائر ہیں جن فیکٹریاں اور ملیں قائم ہوتی ہیں ۔

اور دنیا کا رخانہ دار اور مزدور کے چکر میں الجھ جاتی ہے یہی کار خانہ دار استحصال کا ملعون دستور العمل چلاتے ہین ایک فیکٹری لگتی ہے مزدور کی مشقت کم قیمت عام مال کو بیش قیمت مصنوعات میں بدلتی ہے مگر اسے اس کا پورا حق نہیں دیا جاتا اور ایک فیکٹری کچھ ہی مہینوں میں انڈے بچے دینے لگتی ہے اور کئی فیکٹریاں قائم ہونے لگتی ہیں اسلام استحصال کے اس ذریعے کا بھی قلع قمع کر دیتا ہے اسلامی حکومت خود ہی کا ر خانے قائم کر یگی اور مزدوروں کی تحویل میں نہیں چلانے کا انتظام کریگی یہاں ہم ایک اور چیز کی وضاحت بھی ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں چند افراد کی ترقی کو قومی ترقی قرار دیا جاتا ہے قومی آمدنی شمار کر نے بیٹھے ہیں تو سرمایہ داروں کی آمدنی شمار کر لی جاتی ہے اس کے مجموعہ کو قومی آمدنی کہ دیا جاتا ہے پھر اس کو آبادی پر تقسیم کر دیا جاتا ہے یعنی مجموعی ” قومی آمدنی “ کے ہندسوں کو آبادی کے ہندسوں پر تقسیم کر دیا جاتا ہے اور جو ہندسہ حاصل ہوتا ہے اسے فی کس آمدنی کہا جاتا ہے سرمایہ دارانہ نظام میں ملکی معیشت محض ہندسوں کا کھیل ہے اور ہندسوں کے اسی کھیل سے قومی معاشی ترقی کی رفتار ناپی جاتی ہے عام افراد کی حالت نہیں دیکھی جاتی لوگ بھوکوں مررہے ہوتے ہیں اور کہہ دیا جاتا ہے ملک معاشی طور پر بہت ترقی کر گیا ہے فی کس آمدنی اتنی بڑھ گئی ہے ۔

اسلام چند افراد کو نہیں پورے معاشرہ کو ترقی دینا چاہتا ہے تمام افراد معاشرہ کا معیار زندگی بلند کر نا چاہتا ہے ۔ اور ہر ایک کو مساوی ترقی دے کر خوشحالیوں سے ہمکنار کر نا چاہتا ہے اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تصور ہے کہ انسان کہتا ہے کہ یہ میری کمائی ہے یہ میری محنت کا پھل ہے میں اسے دوسروں کے لیے کیوں کھلا رکھوں حکومت کو کس بات کا ٹیکس دوں ۔ اسلام اسے سمجھاتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کا نہیں اس نے جو کچھ حاصل کیا اس میں بہت بڑا حصہ حکومت کا ہے۔ اور اگر ہم اسلامی حکومت کہیں تو یہی کہیں گے بہت بڑا حصہ خدا کا ہے ابھی ہم نے زراعت کے سلسلہ میں پوری صراحت کے ساتھ خدا کے ارشادات بیان کئے ہیں وہ خدانے صرف بطور مثال پیش کئے ہیں انہی پر ہم باقی حالات کو قیاس کر سکتے ہیں ایک آدمی افسر کی کرسی پر بیٹھا ہے بڑی تنخواہ لے رہا ہے وہ کہتا ہے یہ کرسی اور یہ بڑی تنخواہ میری محنت کا ماحصل ہے میں نے تعلیم حاصل کی موٹی موٹی کتابوں کو ہضم کرنے میں اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں صرف کیں ۔ تمام مشکل امتحانات اپنی قابلیت سے پاس کئے اب میرا حق ہے کہ میں اونچی کر سی پر بیٹھوں اور بڑی لمی تنخواہ حاصل کروں ۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اسے اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں کس نے عطا کیں۔ محنت کی طر ف میلان کس کے کرم سے ہوا ، اسے یہ جسم کس نے دیا ؟ صحت کس نے دی؟ اس کے جسم میں ہر وقت بیسیوں کا رخانے چل رہے ہیں ان سارے کا ر خانوں پر اسے ذرابھی اختیا ر حاصل نہیں انہیں خدا چلا رہا ہے اور بڑی خوبصورتی سے چلا رہا ہے ۔

غذا کس طرح خون میں تبدیل ہو رہی ہے خون کیسے شریانوں میں گردش کر کے ہر عضو کو اسکی ضرور ت کے مطابق توانائی فراہم کر رہا ہے ظاہر ہے یہ سب کچھ اس کا اپنا نہیں ۔ یہ تو رہی اسکی ذات اب جن اداروں میں اس نے تعلیم حاصل کی وہ ادارے بھی اس نے نہیں بنائے تھے اس حکومت نے بنائے تھے جس کے تحت وہ سانس لے رہا ہے پھر اس کے ماحول اور اسکے معاشرہ کا بھی اس کی تعمیر میں بہت ساحصہ ہے پھر وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے اسلام ہر ذہن کو یہی سوچنے پر آمادہ کرتا ہے اور اس سے مطالبہ کرتا ہے وہ پوری دیانتداری سے سوچے کہ اسکی ساری جدوجہد میں اس کا اپنا کتنا حصہ ہے وہ یہ احساس پید ا کرتا ہے کہ وہ خدا کو معاشرہ کو ان کا حصہ ادا کرے اور پھر یہ بھی سوچے کہ جس فرض کی سرانجام دہی کے لیے اسے کوئی منصب سوپنا گیا ہے کیا وہ اسے دیانتداری سے نبھارہا ہے اسے صرف پیسوں کو نہیں گننا چاہیے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اسے کتنی مراعات اور سہولیتں حاصل ہیں کیا اسے وہی مشقت برداشت کر نی پڑرہی ہے جو ایک مزدور کر رہا ہے ۔ ایک مزدور دھوپ کی شدت میں مٹی اٹھارہا ہے اینٹیں اٹھارہا ہے روڑی کوٹ رہا ہے اس کے مقابلے میںایک افسر کر سی پر بیٹھا ہے میز پر پڑے کا غذات کو پڑھنا اور دستخط کر نا اس کا کام ہے سایہ دار جگہ ہے ٹھنڈا ماحول ہے کیا یہ سب کچھ اس کی تنخواہ نہیں پس حالات کا ر کی آسائشیں بھی اسے شمار کر نی چاہئیں ۔ سرمایہ دار انہ نظام میں تنخواہوں میں خوفناک تضاوت ہوتا ہے مزدور کو چار پانچ ہزار تنخواہ ملتی ہے تو افسر کو بیس پچیس ہزار ، گریڈوں اور سکیوں کے چکر ہیں جس کی تنخواہ زیادہ اسکی دیگر مراعات بھی زیادہ ہیںمیڈیکل الاﺅنس ہیں اور بیسیوں سہولیات ہیں اسلام اس سلسلہ میں ایک آئیڈیل نظام دیتا ہے اس میں سربراہ ِ مملکت کی کیفیت یہ ہے کہ جن کے رتبے ہیں سوا رن کو سوا مشکل ہے اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ اسے اپنا معیار زندگی ایک عام غریب آدمی کی سطح پر رکھنا چاہیے ایک دفعہ ایک صحابی جناب عمر فاروق کے پاس گیا تو وہ جو کی روئی کھارہے تھے اس صحابی نے عرض کیا ” امیر المو ¿ منین “ اب تو مسلمانوں کو اللہ نے بہت کچھ فراخی اور وسعت عطا کی ہے آپ گندم کی روٹی کیوں نہیں کھاتے آپ ؓ نے فرمایا ” کیا معاشرہ کے ہر فرد کو یہ سہولت اور کشادگی ئِ رزق مل گئی کہ وہ گندم کی روٹی کھائے ؟ اس آدمی نے کہا میرے خیال میں ابھی ایسا وقت تو نہیں آیا ” آپ ؓ نے فرمایا “ میں کوشش کر رہا ہوں کہ ایسا وقت آجائے اور جب ایسا وقت آئیگا تو میں بھی گندم کی روٹی کھانے کی ” آسائش “ حاصل کر ونگا اور بیت المال سے کہونگا کہ میرے روزینہ میں اضافہ کیا جائے اسلام نے دولت اور مال وزر کے محبت نہیں سکھائی قرآن میں کہیں مال کی تعریف نہیں کی گئی اور اگر مال و دولت کا ذکر ہوا تو انفاق فی سبیل اللہ “ کی تلقین کی گئی ۔

انفاق کا لغوی مفہوم ہے مال کا ایک طرف سے داخل ہونا اور دوسری طرف سے نکل جانا اسلام نے انفاق فی سبیل اللہ کو بڑی اہمیت اور بڑا درجہ دیا ہے ۔ اور اسکی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ (اے پیغمبر انسانیت یہ لوگ آپ سے سوال کر تے ہیں کہ وہ خدا کی راہ میں کتنا خرچ کریں فرما دیجیے کہ جو ضرورت سے زائد ہو) اسلام یہ تصور دیتا ہے کہ کام صلاحیت کے مطابق اور دام ضرورت کے مطابق “ جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد کچھ ہو وہ اسلامی حکومت کے حوالے کر دے تاکہ وہ اسے ملت کا اجتماعی معیار بلند کر نے کے لئے صرف کر سکے ۔ حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا :۔ ” جس شخص کے پاس ضرورت سے زیادہ سواری ہو وہ اس شخص کو دےدے جس کے پاس سواری نہیں جس کے پاس ضرورت سے زیادہ توشہ ہو وہ اس شخص کو دے دے جس کے پاس توشہ نہ ہو ، حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں ۔ حضور ﷺ نے مال کی بہت سی قسمیں بیان کیں حتیٰ کہ ہم نے غور کیا تو معلوم ہو ا کہ ضرورت سے زیادہ کسی ما ل پر ہمارا کوئی حق نہیں “ اور ضرورت کا تعین کس طرح کیا جائیگا اس سلسلہ میں بھی جناب صدیق اکبر کا ایک واقعہ ہماری رہنمائی کرتا ہے ایک دفعہ شام کے کھانے کے بعد آپ کا جی چاہا کہ کوئی میٹھی چیز کھائیں اپنی اس خواہش کا اظہار اپنی بیگم سے کیا اور پوچھا کیا گھر میں کوئی میٹھی چیز ہے “ انہوں نے کہا ” امیر المومنین کے گھر میٹھی چیز کہاں سے آگئی بیت المال سے روز کار اشن تل کر آتا ہے ۔

اور اس میں میٹھی چیز نہیں ہوتی “ خیر بات آئی گئی ہوگئی کچھ روز کے بعد آپ نے دیکھا کہ کھانے کے ساتھ حلوہ طرز کی میٹھی چیز بھی موجود ہے پوچھا یہ چیز کہاں سے آگئی یہ کس نے بھیجا ہے بیگم نے کہا کسی نے نہیں بھیجا میں نے خود پکایا ہے ، پوچھا یہ کیسے پک گیا اس روز تو تم کچھ اور کہہ رہی تھیں بیگم نے کہا بیت المال سے روز کا جو آٹا آتا ہے اس میں سے میں میٹھی بھر آٹا نکال کر الگ رکھ لیتی تھی آج وہ بچا ہوا آٹا اتنا ہوگیا کہ میں نے آدھا بیچ کر کھجوریں خرید لیں اور باقی آدھے کو گھی میں بھون کر کھجوریں ملادیں اس طرح یہ میٹھی چیز پک گئی حضرت صدیق دستر خوان سے اٹھ گئے اور سیدھے ناطم بیت المال کے پاس گئے اور کہا تجربہ سے معلوم ہو ا ہے کہ ہمارے گھر مٹھی بھرآٹا روزانہ ہماری ضرورت سے زائد آتا ہے آئندہ روزانہ کے آٹے کے راشن میں مٹھی بھر کم بھیجا کیجئے “ پہلے یہ کام کیا پھر واپس آکر کھانا تناول فرمایا : لیکن اس کا یہ مفہوم نہیں کہ خلیفہ یا سر براہ مملکت ہمیشہ جو کی روٹی کھاتا رہیگا او سویٹ ڈش سے محروم رہیگا ان تصریحات کا صرف یہ مطلب ہے کہ سربراہِ مملکت کا فر یضہ ہے کہ وہ تمام افرادِ ملک کا معیار ِ زندگی بلند کرے اسے اپنا معیار زندگی عام لوگوں کے برابر رکھنا ہے کیونکہ اسلام میں سربراہی کا منصب انتہائی ذمہ داری کا منصب ہے یہاں تو صورت حال یہ ہے ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب خونِ جگر و دیعت ِ مثر گان یار تھا اور یہی مفہوم ہے اتقکم (تم میں سے زیادہ متقی )کا ۔ تقوٰ ی کی تعبیر ایک روایت کے مطابق یہ ہے کہ کانٹے دار جھاڑیوں کا انتہائی گھنا جنگل ہے راستہ بہت تنگ ہے اور آدمی کو وہاں سے گزرنا ہے وہ یقینا بہت احتیاط سے گزریگا تو اپنا آپ بچا سکیگا ذرا بے احتیاطی ہوئی تو دامن الجھ جائیگا اور دامن کو ذرا سا بھی الجھنے نہیں دینا۔

جس اس معیار کو سامنے رکھا جائے تو ان بادشاہوں کے لئے کیا گنجائش رہتی ہے جو دوسروں کی کمائی پر عیش کرتے ہیں ۔ اسلام کے معاشی نظام کا یہ خاکہ نامکمل جب تک ہم یہ نہ بتادیں کہ یہ حکومت اپنی تمام رعیت کی ہر قسم کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتی ہے اور اسکا اولین فرض یہ بھی یہی ہے ۔ اس کے تحت نظام ِ صلوةٰ امدادِ باہمی کا وہ نظام ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں پانچ وقت ایک جگہ جمع ہو کر اللہ کے حضور اپنی بندگی و غلامی کا اقرار کر نے کے بعد ایک دوسرے کے مسائل سنے جاتے ہیں اور ان کا فوری تدارک کیا جاتا ہے صلوةٰ وسیع ہو کر معاشرہ کی ناہموار یوں کا مداوا ہوجاتی ہے یہ صرف پوجا پاٹ نہیں دوسرے مذاہب کی پرستش کی طرح خدا ور بندے کا پر ائیویٹ تعلق نہیں یہ تمام اعمال پر حاوی ہوجاتی ہے یہی مفہوم ہے ان الصلوٰة تنھیٰ عنِ الفحشائِ و المنکر کا ” فحشا “کا لفظ بھی بڑا وسیع ہے اس میں برائی اور بے حیائی کے ساتھ بخل اور مال کو روک کر رکھنا ، مفاد ِ عامہ کے لیے کھلا نہ رکھنا ، انفاق فی سبیل اللہ کو نہ اپنا اور مال پر سانپ بن کر بیٹھ جانا بھی آجاتا ہے قران نے ایک اور جگہ فرمایا (شیطان تمہیں بھوک اور افلاس سے ڈراتا ہے اور ” فحشاءکا حکم دیتا ہے ) یہاں فحشا ءانہی دوسرے وسیع معنون میں استعمال ہو یعنی ہو تمہیں کہتا ہے کہ اگر اپنی کمائی دوسروں کے لیے کھلی رکھو گے تو پھر بھوکے اور قلاش ہوجاﺅ گے اس لیے ” فحشاء“ کا راستہ اختیار کرو ۔ صلوةٰ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہوجاتی ہے معروف پر آمادہ کرتی ہے اور ” منکر “ سے روکتی ہے جناب شعیب علیہ اسلام کی قوم کے لوگوں نے بھی یہی سمجھا ہوا تھا کہ صلوةٰ پوجا پاٹ کا نام ہے ۔ یہ بندے اور خدا کا پرائیویٹ معاملہ ہے اسی لیے وہ کہنے لگے ۔ (اے شعیب تیری صلوةٰ کیا تجھے یہ حکم بھی دیتی ہے کہ ہم ان کی پرستش چھوڑ دیں جن کی پر ستش ہمارے آباءو اجداد کرتے آئے ہیں اور یہ صلوةٰ تجھے یہ بھی حکم دیتی ہے کہ اہمیں اپنے اموال میں اپنی مرضی کا طرزِ عمل اختیار کر نے سے بھی روکتی ہے ) قوم شعیب کی بڑی خرابی یہ تھی کہ وہ کم تول کر لوگوں کو دھوکا دیتے تھے ان کے لینے کے باٹ اور تھے اور دینے کے اور ۔ جناب ِ شعیب ؓ انہیں اسی بداعمالی سے روکتے تھے یہ نہیں عنِ المنکر بھی صلوةٰ میں شامل تھا ۔

قرآن کے الفاظ میں اہلِ جہنم سے جب سوال کیا جائیگا کہ کس بداعمالی نے انہیں دوزخ کا ایندھن بنا دیا وہ جواب میں کہیں گے ۔ (ہم صلوةٰ ادا کرنے والے نہیںتھے اور مسکین کو کھانا کھلانے کا اہتمام نہیں کرتے تھے ) سورہ الماعون میں ارشاد ہوتا ہے ۔ (کیا تونے اس شخص کو دیکھا جو دین کی تکذیب کرتا ہے پس وہ ہے جو یتم کو دھتکار تا ہے اور مسکین کے طعام کا انتظام نہیں کرتا پس نہایت افسوس ہے ان ” مصلین “ پر جو دکھاﺅ اکرتے ہیںکہ ہم صلوةٰ ادا کررہے ہیں اور حالت یہ ہےکہ عام برتاﺅ کی چیزیں بھی ایک دوسرے سے روک لیتے ہیں) جناب صدیق اکبر نے فرمایا تھا جس نے صلوةٰ کو جدا کیا وہ غلط راہ پر ہے ۔ یعنی صلوةٰ اور زکوةٰ ایک ہی چیز ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ ہیں انہیں الگ نہیںکیا جا سکتا زکوةٰ کے معنی ہیں نشوونما دینا ، تزکیہ کرنا اور بڑھاتے چلے جانا ۔ یہ صلوةٰ ہی کا اگلا مرحلہ ہے اس لیے جہاں اقامتِ صلوةٰ کا ذکر ہے وہاں ایتا ے زکوةٰ کا بھی ذکر ہے ۔ اگر صلوةٰ ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ ہی ہے تو زکوةٰ ان مسائل کے حل کی طرف عملی اقدام افراد ِ امت میں وہ لوگ بھی ہیں جو معذور ہیں ان کی کفالت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکو مت کیا یہ تو جمہورکی ہے اور جمہورہی کی تشکیل کر دہ دوسرے لفظوں میں اصل حاکم تو جمہور ہی ہیں پس پورے معاشرہ کی پرورش اور نشوونما کی ذمہ داری بھی جمہور کی ہے ۔ زکوةٰ جمہورہی ادا کرتے ہیں یا جمہوری حکومت ادا کرتی ہے ایک جگہ فرمایا گیا ہے ۔ (مسلمان تو وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں زمین میںتمکن عطا ہوگا ان کی حکومت آئیگی تو یہ صلوة کا نظام قائم کر یں گے اور زکوةٰ ادا کریں گے) اقامتِ صلوةٰ اور ایتا ئے زکوةٰ جمہور کے ساتھ جمہوری حکومت اور اس کے سربراہ کی بھی ذمہ داری ہے ۔ پس جو کچھ آج فلاحی مملکتیں کررہی ہیں ۔

یہ بھی اسلامی نظامِ حکومت کی کسی حدتک پیروی ہے یہ بھی اس دعویٰ کی دلیل ہے جو ہم نے ابتدائی عبارات میں پیش کیا تھا کہ دنیا اسلام کے قریب آرہی ہے ۔ اور جہاں بھی کچھ روشنی ہے وہ اسی سورج کی ہے جو فاران کی چوٹیوں پر طلوع ہوا تھا ۔ اسلامی حکومت کے خصائص او ر اوصاف بیان کر نے کی کوشش کی جائے تو خلفائے راشدین کی حکومتوں کا عمل قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ تاریخ کے صفحات پر یہ واقعہ روشن لفظوں میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے قانون بنا رکھا تھا کہ بچہ جس روز ماں کا دودھ چھوڑ یگا اسی دن سے اس کا وظیفہ جاری ہو جائیگا معمول کے مطابق ایک رات جناب ِ فاروق شہر کا گشت کر رہے تھے ایک گھر کے پاس سے گزرے تو ایک بچہ رور رہا تھا شہر کا طویل چکر کاٹ کر دیر کے بعد واپس لوٹے اور اسی گھر کے پاس سے گزرے تو بھی بچہ رور رہا تھا آپ نے دروازہ پر دستک دی اور پوچھا ” بی بی یہ بچہ کیوں رورہا ہے اسے کیا ہوا ہے ” ؟ عورت جیسے غصہ میں تھی اس نے ایسے الفاظ کہے جیسے ہمارے لوگ کہتے ہیں ۔ اسے کیا ہوا ہے ؟ اسے ہوا ہے عمر کا سر “ آپ رونے کہا ” خیریت ہو بی بی اس میں عمر ؓ کا ذکر کہا ں سے آگیا اس نے کیا قصور کیا “ عورت بولی ” عمر ؓ نے قانون بنا رکھا ہے کہ بچے کا وظیفہ تب مقرر ہوگا جب وہ دودھ چھوڑ یگا ہم غریب لوگ ہیں میں کوشش کر رہی ہوں کہ زبردستی بچے کا دودھ چھڑاﺅں تاکہ اس کا وظیفہ مقرر ہو “ حضرت عمر ؓ چلے گئے اور صبح سویرے انہوں نے ا سکی غفلت سے اور غلط قانون سے کتنے بچے زبردستی دودھ چھڑانے کی اذیت سے روتے اور تڑپتے رہے ہونگے آج سے میں قانون میں ترمیم کا اعلان کر تا ہوں اب ہر بچہ کا ولادت کے دن سے ہی وظیفہ جاری ہو جائیگا ۔

اب جو بھی اسلامی حکومت بنیگی ہمارے نزدیک ضروری ہے کہ وہ اس قانون کو مدنظر رکھے بچہ جس روز پیدا ہوا اسی روز اس کا وقت اور حالات کے مطابق وظیفہ جاری ہو جائے عمر اور ضروریات کے مطابق وظیفہ میں اضافہ ہوتا رہے اسے مفت تعلیم اور طبی امداد فراہم کی جاتی رہے اور یہ وظیفہ اس وقت ، تک اسے ملتا رہے جب تک وہ بڑا ہو کر مناسب تعلیم و تربیت حاصل کر کے بر سرِ روز گار نہ ہوجائے ، اور یہ بات بچے سے مخصوص نہیں جو بھی بوڑھا اور اذکار رفتہ ہو جائیگا یا معذور ہوگا ۔ اسلامی حکومت اس کی تمام ضروریات کی کفالت کی پابند ہے ۔ انسان تو انسان کسی جانور تک کو بھی خوراک اور مناسب دیکھ بھال سے محروم نہیں رکھا جائیگا ۔ امیر المو¿ منین عمر فاروق فرمایا کرتے تھے مجھے حکمرانی اور مملکت کی سربراہی کا صحیح شعور ایک بڑھیا سے حاصل ہوا جب عراق و شام فتح ہوئے اور بیت المقدس کے سفر سے میں واپس آرہا تھا تو صحرا میں ایک بڑھیا کے خیمے کے پاس رکا جو گزر گا ہ پر نصب تھا بڑھیا سے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے پوچھا ”تمہیں عمر کا بھی کوئی پتہ ہے ؟“ کہنے لگی ” مجھے اس کی خبر رکھنے کی کیا ضرورت ہے کیا کبھی اس نے آکر میری خبر دریافت کی “ میں نے کہا “ مائی آپ مدینہ سے دور دراز کے ایک صحرا میں بیٹھی ہیں بھلا وہ یہاں کی خبر کیسے رکھ سکتا ہے “ کہنے لگی ” جن دور دراز علاقوں کی وہ خبر گیری نہیںکر سکتا وہ دن اور آج کا دن میں کوشش کر تا ہوں کہ حکومت کے کارندوں کے ذریعے میں حدود خلافت میں دور و نزدیک کے ہر باشندے کی خبر گیری کی کوشش کر تا ہوں اس وقت ذرائع رسل و رسائل بہت مشکل تھے آج پر طرح کی آسانیاں حاصل ہیں آج یہ مسئلہ نسبتاً بہت ہی آسان ہے اس لیے حکومت کا سربراہ حضرت عمر فاروق کی اس رہنمائی کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں سمجھ سکتا ہے سربراہ مملکت کی اس ذمہ داری کا یہ مطلب ہے نہیں کہ وہ رعیت کے ایک ایک فرد سے ملے اور ہر وقت اس کی خبر گیر ی کرے نظام حکومت میں اوپر سے نیچے تک کارکنوں اور کا ر کشاﺅں کی ایک بہت بڑی تعداد ہوتی ہے بس یہ ہے کہ ہر ادارہ کے سر براہ اور اہل کار کے دل میں سر براہ ِ مملکت جیسا خلوص اور جہا بنانی کا صحیح احساس موجزن ہونا چاہیے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ملک میں جہاں اسلامی نظام رائج کر نا چاہیں پہلے دن سے یہ سب کچھ شروع ہو جائیگا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظام پہلے دن سے پورے کا پورا نا فذ العمل نہیں ہوگا ۔ اسے بتدریج نافذ کیا جائیگا ۔ اس عبوری دور کے لیے بھی قران حکیم میں احکام ہیں عرب کے معاشرہ میں ایک غیر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ نظام قائم تھا اس میں آہستہ آہستہ اسے نافذ کیا گیا ابتدائی اقدامات و مدارج کا بھی ذکر آیا ہے اور منتہائے مقصود کا بھی ، مثلاً سب سے پہلے دولت سے نفرت دلائی گئی اور اس نفرت میں یہاں تک کہ دیا گیا کہ جولوگ سونے چاندی کے ڈھیر جمع کرتے ہیں اور انہیں مفادِ عامہ کے لیے کھلا نہیں رکھتے ان کے جسم کے مختلف حصوں کو انہی سونے چاندی کے سکوں کو پتا کر دا نما جائیگا انکی پیشانیوں ، پہلوﺅں اور پٹھوں پر یہ تپتے ہوئے انگاروں کی طرح سرک سکے رکھے جائینگے اور انہیں کہا جائیگا چکھو اس دولت کا مزہ جسے تم نے محبتوں سے سمیٹ سمیٹ کر اور سنبھال سنبھال کر رکھا تھا ۔ پھر یہ سمجھا یا گیا کہ دولت کو جمع کرکے بند رکھنے سے بہتر ہے کہ اسے گردش میں رکھا جائے کیونکہ ایک سکہ جو گر دش میں آگیا اس نے بہت سے لوگوں کو حاجات پوری کہیں پھر یہ بتایا گیا کہ یہ گردش صرف دولتمندوں کے دائرے میں مقہدنہ رہے اسے معاشرہ کے تمام افراد تک پہنچنا چاہیے ۔ پھر یہ سمجھایا گیا کہ سود اور تجارت میں کیا فرق ہے کیونکہ معاشرہ میں یہ خیال عام تھا کہ بیع اور ربا ایک چیز ہیں بیع میں انسان سو روپے کی ایک چیز خرید کر منافع لے کر دوسرے پیر بیچ دیتا ہے اور سود میں آدمی وہی سو رپے دوسرے کا قرض دیتا ہے کہ وہ اس قرض سے اپنی ضروریات پوری کرے پھر مدت کے بعد اس رقم کو منافع کے ساتھ واپس لے لیتا ہے قران نے سمجھایا کہ تجارت اور ربایک نہیں تجارت میں تو انسان اپنی محنت شامل کر تا ہے اور منافع اصل میں اسی کی اسی محنت کا معاوضہ ہوتا ہے جو وہ تجارت کے سلسلہ میں کرتا ہے اس کے برعکس سود دولت کا منافع ہوتا ہے اسلام کے نزدیک حلال کی کمائی وہی ہے جس میں انسان کی محنت شامل ہو سود میں رقم پہ رقم کمائی جاتی ہے اس میں محنت شامل نہیں ہوتی اس لیے حرام ہے ایک اور چیز جو اہے اسے عربی میں میسر کہتے ہیںیسر عربی میں بائیں ہاتھ کو بھی کہتے ہیں اور آسانی کو بھی میسر وہی کمائی ہے جو آسانی سے مل جاتی ہے پانسے پھینکے یا تاش کے پتوں پر داﺅ لگائے اور مال چلاگیا یا ہاتھ آگیا ہم اردو میں بھی انتہائی آسان کام کو بائیں ہاتھ کا کھیل کہتے ہیں یہ مفہوم اسی یسر و یسار سے لیا گیا ہے ۔ رئج (تجارت)اور ربامیں بنیادی فرق بتانے اور انکی حلت و حرمت کی علت واضح کرنے کے سلسلہ میں علماءنے کہا کہ تجارت میں نفع نقصان دونوں کا احتمال ہے ربا میں یہ احتمال نہیں اس تجارت حلال ہے اور سود حرام ، مگر ہم نہایت ادب سے کہتے ہیں کہ یہ علت درست نہیں بلاشبہ تجارت میں نقصان کا احتمال ہوتا ہے مگر ہمارے خیال میں دست بدست جو سود عہدِ نبوت میں تھا ۔ اس میں تو نقصان کیا سرمایہ ڈوب جانے کا زیادہ احتمال رہتا تھا مثلا ً مقروض مر گیا یا اس نے کسی نامعلوم شہر کی طرف نقل مکانی کر لی تو سب کچھ ڈوب گیا ۔

اس لیے لوگ کہتے تھے کہ سودی مقروض کی صحت اور درازی ئِ عمر کی مخلصانہ دعائیں صرف سود خو ر قر ضخواہ ہی مانگتا ہے پس نقصان کا احتمال تجارت اور ربا میں بنیادی فرق اور وجہِ حلت و حرمت نہیں اصل وجہ ِ حلت و حرمت تجارت میں محنت کا شامل ہونا اور ربا میں محنت کا شامل نہ ہونا ہے ۔ سٹہ بازی جو ا بھی اس لیے حرام ہیں کہ ان میں نقصان کا بلکہ پورا سرمایہ ڈوب جانے کا احتمال تو ہوتا ہے صرف محنت شامل نہیں ہوتی ۔ حضورﷺ نے جب مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے پر ایسی لیے فرمایا ۔ ا¿ ر بیتھا (کیا تو ربا لیتا ہے)کیونکہ اس میں بھی ایک شخص کی کوئی محنت شامل نہیں ہوتی ۔ عبوری دور کے احکام میں ان تمام معاشی اعمال سے بھی روک دیا گیا جن میں دولت کمانے میں محنت شامل نہیںہوتی تھی ، وراثت کے احکام بھی اسی دور کے ہیں کہ اس سے بھی مقصد یہ ہے کہ دولت ایک جگہ مر تکز نہ ہو تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جائے ۔ یہ بھی انفاق کی ایک صورت ہے ۔ جب یہ عبوری دور گزر جاتا ہے تو پھر وہ اصول نافذ ہوتا ہے کہ (اے نبی یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں اللہ کی راہ میں کتنا دیتا ہے کہ دیجئے جو کچھ ضرورت سے زائد ہو) کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت کریمہ منسوخ ہوگئی ہے مگر میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن حکیم کے بعض احکام خاس مدارجِ حیات اور مراحل ارتقاءکے مطابق ہیں جب وہ مر حلہ گزر گیا تو وہ احکام ان لوگوں کے لیے نہ رہے لیکن وہ باقی ضرور ہیں صرف ان پر عمل وقت اور حالات نے موقوف کر دیا مثال کے طور پر جہاں مختلف جرائم مثلاً چوری ، زنا ، قذف وغیرہ کی سزائیں بتائی گئی ہیں تو جب کوئی چور چوری کر یگا کوئی مجرم ارتکاب جرم زنا کر یگا تو حکم اس پر لاگو ہوگا قران کا اصل منشا اور منتہائے مقصود تو ان جرائم کا مکمل خاتمہ ہے ا ب اگر ایک ایسا معاشرہ وجود پذیر ہوگیا جس میں یہ جرم ختم ہوگئے تو ان آیات اور احکام پر عمل بھی موقوف ہوگیا ۔ اب اگر کوئی اصرار کر ے کہ معاشرہ میں جرم ضرور موجود رہنا چاہیے کہ قران کے احکام پر عمل ہوتا رہے نہیں تو قران کے احکام (معاذاللہ) بیکار ثابت ہو نگے تو ایسے آدمی کو آپ متفقہ طور پر فاترالعقل قرار دیں گے یہی حال احکام ِ وراثت کا ہے قران کا منتہائے مقصود تو اس معاشرہ کا قیام ہے جہاں ” قل العضو “ لا گو ہو اور صورت وہ منشائے خدا وندی پوری ہوجائے جس کی اقبال نے ان الفاظ میں صراحت کی ہے کس بنا شد در جہاں محتاج کس نکتہ ءِ شرع ِ مبین ابن است و بس وراثت وغیرہ کے احکام موقوف ہوجائیں گے ہاں کسی دوسرے ملک میںجہاں اسلامی نظام اب اپنا یا جارہا ہو وہاں انہی پر عمل ہوگا ۔

ہمارا خیال ہے ہم اسلام کے معاشی نظام کے تمام اشاراتی خدوخال واضح کر چکے ہیں یعنی یہ استحصال سے پاک معاشرہ ہوگا اس میں یہ نہیں ہوگا کہ محنت ایک کرے اور پھل دوسرا کھائے بخز اس کے کہ دوسرا معذور محتاج ہو ۔ یہاں ایک اور وضاحت بھی ضروری ہے کہ معذور و محتاج حضرات کی کفالت بیت المال کے ذمہ ہے اسلام بھکار یوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور معاشرہ میں ان کا وجود بر داشت نہیںکرتا کیونکہ کسی کے آگے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلانے اپنی عزت نفس کےخلاف ہے قرآن انسان کو بحیثیت انسان مکرم ٹھہراتا ہے اور اسکی تذلیل برداشت نہیں کر سکتا ابتداءمیں جب مدینہ منورہ میں اسلامی نظام قائم ہورہا تھا حضور ﷺ نے دستِ سوال دراز کرنے سے منع فرمادیا تھا روایت ہے کہ آپ نے ایک مجلس میں لوگوں سے فرمایا کہا تم میرے ہاتھ پر بیعت نہیںکرتے ہو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم آپ کے مقدس ہاتھ پر بیعت کر چکے اور پھر حاضر ہیں آپ اب کس بات کی بیعت لے رہے ہیں آپ نے فرمایا اس بات کی کہ تم اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراﺅ گے صلوةٰ زکوةٰ ادا کر وگے اور ان مہتم بالشان امور کا ذکر کر کے فرمایا ۔ (لوگو ں سے کوئی چیز بھی نہیں مانگوگے) راوی کہتا ہے اس بیعت کے بعد صحابہ اس قدر محتاط ہوگئے تھے کہ کوئی اگر اپنی سواری پر جارہا ہوتا اور اس کے ہا تھ سے کوڑا اگر جاتا تو وہ کسی سے اٹھا کر دینے کو نہ کہتا وہ اسے بھی ممنوعہ ” سوال “ میں داخل سمجھتا سواری روک کر خود اترنا اور کوڑا اٹھا لیتا حاجتمندوں اورمعذوروں کے لیے بیت المال کی طرف سے جو ” تعاون گھر “ قائم کئے گئے تھے ۔ انہی سے سب کی کفالت ہوتی ذاتی طور پر کسی کا سوالی کو کچھ دینا اس کو احسانمند کرنا ہوتا ہے اور اس سے لینے والے کا سر جھک جاتا ہے تو فرمایا گیا اے نبی فلا تمنن تستکثر (کسی کو احسانمند کر کے نہ دے یعنی کسی پر احسان جتا کر بیت المال کا دروازہ نہ کھول) کیونکہ فی اموالھم حق للسائل والمحروم (ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق (Right)ہے) جس طرح کوئی آدمی اپنا حق وصول کر تے ہوئے احسانمندی سے سر نہیں جھکاتا اسی طرح بیت المال سے بھی وہ اپنا حق ہی وصول کرتا ہے کسی مر ہون ِ احسان ہو رہا ہوتا یہ ہے اسلام کا معاشی نظام جہاں اس پر عمل کا تعلق ہے تو پہلے کتنے مسلمان اسلام کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں ۔لوگوں کے سرمایہ داری یا جاگیرداری کے حق ہونے میں ہونے کا قطعا مطلب یہ نہیں کہ اسلام میں ان کی کہیں کوئی گنجائش موجود ہے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے