منصور آفاق کا چراغ کدہ ۔ تنویر حسین ملک
دیوار پہ دستک

منصور آفاق کا چراغ کدہ

منصور آفاق کا چراغ کدہ

دوستو یہ تحریر منصور آفاق کے متعلق ہر گز نہیں ۔ممکن ہے آپ اسے ان کی شخصیت اور فن کا تنقیدی مطالعہ سمجھیں مگر آپ کے سمجھنے تحریر کی حیثیت تو نہیں بدل سکتی۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ تحریر جو اس وقت پڑھنے جا رہا ہوں یہ کیا ہے ۔یہ تحریر میرے اپنے متعلق ہے ۔ویسے دوست سے دوست کی خوشبو آئے تو قوتِ شامہ کی حاسیت ہوتی ہے ۔یقینا آپ میری بات سمجھے ہونگے ۔میرا خیال ہے مجھے اپنی بات سمجھانے کی کچھ زیادہ ضرورت بھی نہیں ۔
میں یہ بات پہلے کہہ چکا ہوں کہ اللہ تعالی ظفر اقبال کی عمر دراز کرے جب تک وہ زندہ ہیں میں منصور آفاق کو لمحہ موجود میںجدید غزل کا سب سے بڑا شاعر نہیں کہا جاسکتا ۔اس میںکوئی شک نہیں کہ منصور آفاق اردو کے وہ شاعر ہیں جنہیں نظر انداز کیا گیاہے اس کا سبب کچھ بھی ہوسکتا ہے انہیں اُس طرح پذیرائی نہیں دی گئی جس طرح کی پذیرائی اُن کا حق تھا ۔

منصور آفاق کے چراغ کدے میں حیرت انگیز روشنیاں ہیں ۔سب سے نمایاں روشنی خیر کی ہے ۔بلکہ اس کی خیر کا دیس آباد ہے ۔خیر کی اِس نظریاتی مملکت کے چار بنیادی ستون ہیں ۔ منصور آفاق کے نزدیک اس کی قومیت آدمیت ہے ۔اس کاوطن کائنات ہے ۔اس کی زبان محبت ہے ۔اس کی مذہب انسانیت ہے ۔ان چاروں ستونوں پر اُس نے جو رحمت کی چھت ڈال رکھی ہے ۔وہ رحمت اللعمالمین رحمت ہے ۔

منصور آفاق کے کئی رنگ ہیں میں نے اسے ٹیلی ویژن کی سکرین سے بھی باہر نکلتے ہوئے دیکھا ہے ۔اس کے ڈرامہ سریلز زمین ، پتھر ، دنیا ، شام سب مجھے یاد ہیں ۔میں نے اس کی سخن محل میں بھی بہت دن قیام کیا ہے ۔حسن نثار کے ساتھ دیوان عام سے لے کر دیوان ِ خاص تک چہل قدمی کی ہے ۔عطاالحق قاسمی کے ساتھ” نیند کی نوٹ بک ”میں بھی کچھ خوابوں کی تصویریں دیکھیں ۔منوبھائی کے ساتھ منصور آفاق کے نعتیہ مجموعوں ‘آفاق نما ‘ اور عہدنامہ ‘سے حضرت بلال کی اذان سنتا رہا۔احمد ندیم قاسمی کے ساتھ تخلیق کے اِس آتش فشاں کے لاوے کی پیش تیس برس سے محسوس کرتا آرہا ہوں ۔کوئی کچھ کہے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ منصور آفاق نے شاعری کا جو شیش محل تعمیر کیا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ۔
منصور آفاق ایک رنگ نثر نگاری کا بھی اس کے ناول تکون کی مجلس سے لے کر اس کے کالموں کی بزم تک ہر جگہ وہ منفرد بھی ہے تازہ کار بھی ہے ۔اپنی روایت میں رچا ہوا بھی ہے اور جدیدتر بھی ۔وہ اپنی تحریروں میں بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔مختصر نویسی میں بھی بڑے یادگار نقشِ پا چھوڑے ہیں ۔ایک ایفرزم دیکھئے جس کا نام ہے ”قسمت”
قسمت
”اس نے پوچھا”میری قسمت میں کیا لکھا ہوا ہے؟
منصور نے کہا”وہ جوتحریرابھی تم نے لکھی ہی نہیںمیں اسے کیسے پڑھ سکتا ہوں”
اس نے کہا ”مگر میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں”
منصور نے پوچھا ”اپنے خوش قسمت ہونے کی کیا دلیل ہے تمہارے پاس”
اس نے کہا ”میں اس لئے خوش قسمت ہوں کہ اپنی قسمت پر خوش ہوں”
منصور نے کہا ”ممکن ہے اپنی قسمت پر خوش رہنے والا خوش قسمت ہو۔۔مگر میرے نزدیک تو خوش قسمت وہ ناراض آدمی ہے جسے راضی کرنے کے لئے قسمت سرگرداں پھرتی ہے”
میرے نزدیک منصور آفاق وہی ناراض آدمی ہے جسے راضی کرنے کیلئے قسمت سرگرداں ہے ۔شاید اس کی وجہ منصور آفاق کے ظاہر و باطن کا ایک ہونا ہے ۔وہ جیسا نظر آتا ہے اچھا برا وہ اندر سے بھی بالکل ویسا ہی ہے ۔وہ اندھیری رات میں چھپ کر کبھی کہیں نہیں گیا ۔جس نے جو کام کیا ہے ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے ۔اچھائی اور برائی دو نوں سطحوں پراسے کچھ پوشیدہ رکھنے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی ۔
اب تھوڑی سی باتیں منصور آفاق کے کالم کے متعلق بھی ضروری ہیں
کالم بڑی خطرناک چیز ہے ۔اکثر کالم لکھنے والے ہنگامیت کے دریا بہتے چلے جاتے ہیں ۔صرف بڑا فنکار ہی ہنگامیت کی زد سے خود کو بچا لینے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ ظفر علی خان بہت بڑے شاعر تھے لیکن ہنگامیت نے انہیں تباہ کردیا۔وہ کسی بھی واقعہ فوری طور ہنگامی قسم کی اچھی نظم کہہ دیتے تھے۔واقعہ چونکہ تازہ ہوتا تھا اس لئے نظم لوگوں کو بہت پسند آتی تھی ۔واہ واہ ہوتی تھی سو اس فوری واہ واہ نے ظفر علی خان کو بحیثیت شاعر تباہ کردیا ۔کالموں کی کہانی بھی یہی ہے کہ کالم نے بھی چونکہ تازہ ترین صورتحال کے مطابق ہونا ہوتا ہے اس لئے اس میں ہنگامیت در آتی ہے ۔کچھ روز بعد اس کالم کو پڑھا جائے توباسی گوشت کی بساند آنے لگتی ہے۔منصور آفاق اس حوالے سے بڑا زیرک کالم نگار اس کے زیادہ تر کالم ایسے ہوتے ہیں جنہیں بعد بھی پڑھا جا سکتا ہے ۔میرے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے ۔

تنویر حسین ملک

 

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے