کہانی ختم سمجھو
کسی حجرہ کے چراغ کی لو ہوا سے کہہ رہی ہے ۔ کہانی ختم سمجھو۔بے شک ہربل کھاتی ہوئی کہانی کو کسی نہ کسی موڑ پر تمام ہونا ہی ہوتاہے ۔یہ کہانی بھی اُن سطور سے ہم آغوش ہونے والی ہے جن کے بعد”ختم شد ” کا بورڈ آویزاںکردیا جاتا ہے یا اختتامی لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔کچھ کرداراِس کہانی سے نکل کر ایک کہانی بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔دوسروں کی طرح میں بھی ان کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں مگرالطاف حسین کی کہانی کے اختتامیہ سے اِس بات کا کوئی تعلق نہیں کہ کچھ کردارایک کہانی چھوڑ کرکسی دوسری کہانی میں داخل ہو گئے ہیں یا ہو رہے ہیں ۔
اِس کہانی کا آخری باب سکاٹ لینڈ یارڈکے لیٹر ہیڈ پرلکھا گیاا ہے ۔یہ کاغذ کا ٹکرابرطانوی پولیس نے جس وقت سرفراز مرچنٹ کے ہاتھ میںدیاتھااُسی وقت پاکستانی سیاست کی تاریخ تبدیل ہو گئی تھی۔اس کاغذ پر اعتراف نامے کا احوال درج ہے ۔بھارتی خفیہ ایجنسی ”را”سے فنڈنگ لینے کے اعتراف نامے کا احوال۔ سرفراز مرچنٹ کے پاس یہ کاغذ اُن دستاویزات کا حصہ ہے جن کے بارے میں اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی قانون نافذ کرنے والےاداروں پرحیرت کے نئے دروازے وا کریں گی ۔چراغ کی لو ہوا سے کہہ رہی ہے کہانی ختم سمجھو! ۔
صرف یہی نہیں کچھ اور کہانیاں بھی اپنے آخری موڑ پر پہنچنے والی ہیں۔مگر انہیں اتنی جلدی نہیں بظاہر تو یہ کہانی بھی عجلت میں دکھائی نہیں دیتی ۔یہی لگتا ہے کہ پھر کوئی تجسس سے بھرا ہوا موڑ آگیا ہے ۔پھر کچھ کرداراپنے رول سے باہر نکل کر کچھ کرنے لگے ہیں۔یا اُن کرداروں کی پتلیوں سے کسی اور نے اپنی تاریں جوڑ لی ہیں ۔جس کی وجہ سے تماشا کوئی اور چل رہا ہے ۔پتلیاں کچھ اور کر رہی ہیں ۔مگر یہ پورا سچ نہیں ہے ۔
کہانی کہاں ہے۔کس موڑ پر ہے ۔ آئیے اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔کہانی کا مین کردار بیمار ہے ۔پائوں کا گیگرین اتنا بڑھ چکا ہے کہ سہارا بھی قدم اٹھانے میںکوئی رول ادا نہیں کرپارہا۔بائی پولرڈیپریشن کی ادوایات استعمال کرنے والے شخص کیلئے الکحول زہر سے کم نہیں سمجھتا جاتا ۔یہ کردار یہ دونوں چیزیں ایک طویل عرصہ اکٹھی استعمال کرتا رہا ہے ۔ جس کی سبب اسے ایسی ادوایات دی جارہی ہیںجن کے سبب غنودگی بے ہوشی تک پہنچ جاتی ہے۔ایسے مریض کو اگر بلڈپریشر اور شوگر مرض بھی لاحق ہوں تو معاملہ دل کی شریانوں سے گفتگو کرنے لگتا ہے ۔ایسے مریضوں کیلئے سردیوں کا موسم بہت خطرناک ہوتا ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں سورج کم نکلتا ہو ایسی مریضوں کی حالت بہت خراب ہوجاتی ہیں برطانیہ میں اسوقت اس مرض کے شکار سیکڑوں مریض خودکشی کر چکے ہیں ۔یہ اس مرض کی آخری سٹیج ہے ۔جس کا بظاہربالکل اندازہ نہیں ہوتا ۔
کہانی میں کچھ کردار ایسے بھی ہیں جن پر باقی کرداروں کے لئے نا قابل عتبار ہیں۔مثال کے طور پرپچھلے دوچار دنوں میںملک سے باہر جانے والے کہانی کے اہم کردار خود باہرنہیں گئے ۔ بھیجے گئے ہیں ۔یہ وہ واقعی کردار تھے جن کے متعلق یقین کی حد تک شک تھا کہ کسی وقت یہ لوگ مصطفی کمال کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کر سکتے ہیں ۔اٹھارہ کرداروں کی فہرست رضا ہارون اپنے ساتھ لائے ہیں ۔مصطفی کمال کسی وقت بھی ان کیلئے اٹھارہ کرسیوں کا بندوبست کرنا پڑ سکتا ہے ۔
کہانی کے وہ کردار جو مختلف جیلوں میں بند ہیں یا کہیں پاکستان میں یا پاکستان سے باہر روپوش ہیں۔ان کیلئے متحدہ کے پاس روشنی کی کوئی کرن موجود نہیں ۔جب کہ مصطفی کمال انہیں ز ندگی واپس دلانے کے خواب اٹھائے پھر رہا ہے ۔یقیناانہوں نے روشنی کی سمت ہی جانا ہے ۔یہ صرف چند افراد نہیں ان کی تعداد سیکڑوں میں ہیں اور یہ سیکڑوں افراداپنے پیچھے سیکڑوں خاندان رکھتے ہیں ۔
کہانی کے آخری موڑ کی واضح عکاسی اپریل کے کہینے میں ہوگی جب سمندرپارتک منظروں کی ترسیل کرتے ہوئے کیمرے پنڈال پر پرواز کریں گے ۔اِس پنڈال میں لوگ اپنے مرضی سے آئیں گے اپنی ٹرانسپورٹ پر آئیں گے ۔ سرکاری مشینری کا کوئی پرزہ کہیں نہیں ہوگا۔کراچی کی تاریخ میں یہ پہلی جلسہ ہوگا جس میں اہل کراچی اپنی مرضی سے شریک ہوکرکہانی کے مین کردار پر تحفظات کا اعلان کردیں گے۔وہاں آنے والا ہر کردار یہی کہہ رہا ہوگا کہ کہانی ختم ہو نہیں رہی کہانی ختم ہوچکی ہے ۔
وہ جو کہہ رہے ہیں کہ دریا سے قطرے نکلنے سے دریا ختم نہیں ہوا کرتے ان کی خدمت عرض ہے کہ وقت نے کئی دریا گم ہوتے ہوئے دیکھے ہیں ۔اگر انہیں یقین نہیں آتا تو لاہور آئیں ۔راوی اور سلتج کی ویرانی دیکھیں۔راوی اور سلتج کو دیکھنے کی ضرورت صاحبان لاہور کو بھی ہے۔ وہ بھی دریا کی طرح بہتے چلے جارہے ہیں ۔انہیںبھی چاہئے کہ اپنے کناروں کی خیر مانگتے رہیں وگرنہ دریائوں کا کیا ہے ۔وہ خشک بھی ہو جاتے ہیں۔کہانی ختم بھی ہوجاتی ہے ۔
یقینا وہ منظر خوبصورت ہوگا جب کہانی ختم ہوگی ۔ساحر نے کہا تھا رات جتنی بھی سنگین ہوگی ۔صبح اتنی ہی رنگین ہوگی ۔مجھے یہ کہانی ہمیشہ رات کی کہانی محسوس ہوئی ہے ۔عہد ِ درد کی داستاں لگی ہے۔جس میں خون تھا۔بوری بند لاشیں تھیں ۔ٹارگٹ کلنگ تھی ۔خوف تھا ۔جس نے کراچی جیسے مہذب اور خوبرو شہر سے اس کی روشنیاں چھین لی تھیں ۔جس نے دیارِ تہذیب کو جنگل میں بدل دیا تھا۔جہاں جون ایلیا اور انور شعورجیسے شاعر پیدا ہوتے تھے وہاں صولت مرزا اور اجمل پہاڑی پیداہونے لگے تھے۔جہاں صادقین کینوس پر رنگ بکھیرا کرتے تھے وہاںٹارگٹ کلر سڑکوں پرخون بکھیرنے لگے ۔جہاں رئیس امروہی اور حکیم سعید جیسے لوگوں شہید کردیا گیااور”را ” کے تربیت یافتہ دہشت گرد گلیوں میں پھرنے لگے ۔ یقینا یہ ظلمتِ شب کا ہی ماحول تھا ۔اس لئے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ رات کی کہانی والی ہے۔اللہ تعالی کہانی ختم کرنے والوں کا حامی و ناصر ہو۔
Attachments area