
مسلم ہینڈز اورساڑھے تین لاکھ مہاجرین
مسلم ہینڈز اورساڑھے تین لاکھ مہاجرین
اہل ِ پاکستان !مبارک باد۔گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اسی سال ایرانی گیس پاکستانی گھروں اور فیکٹریوں میں پہنچ جائے گی ۔نواز شریف اور راحیل شریف ریاض اور تہران کے درمیان خیر کی راہداری بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔محبت کی سڑک تعمیرہونے والی ہے۔یقینا اس راہداری کے اثرات دمشق پر بھی مرتب ہونگے ۔میں اہل ِ دمشق کے چہروں پر اداسیاں دیکھ دیکھ کر ابھی اندر سے باہر نکلا ہوں ۔ ہرطرف سفید کاٹن کی طرح برف بچھی ہوئی ہے ۔دور ایک اکیلاگہر اسیاہ پرندہ پھڑپھڑاکر اپنے پر جھاڑ رہا ہے۔ کسی مسلمان مہاجرکی طرح۔ لٹھے کی چادرپرایک اکیلا داغ۔ برف اڑاتی ہوئی فوجی گاڑی قریب سے گزر ی ہے۔سکوت کے ٹکڑے سڑک پرگر رہے ہیں ۔میں اس وقت آسڑیا کے شہر سالز برگ کے مہاجر کیمپ میںہوں۔ بنیادی طور پریہ ملٹری کا کیمپ ہے ۔چاروں طرف آسٹریا کے فوجی چلتے پھرتے نظر آرہے ہیں ۔مہاجرین کیلئے اس کیمپ کی حیثیت ایک ٹرانزٹ کیمپ کی ہے ۔ شام کے اجڑے ہوئے کچھ دن یہاں قیام کرتے ہیں ۔
پھر آگے جرمنی چلے جاتے ہیں ۔اب تک یہاں سے تقریباًساڑھے تین لاکھ مہاجر جرمنی منتقل ہوچکے ہیں،دنیا میں ہجرت کے مسائل زیادہ تر مسلمانوں کو ہی درپیش ہیں۔یہ لوگ جب پہلی بار آسڑیا پہنچے تھے توکئی دن کے بھوکے تھے مگر انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا۔ کہ مسلمان صرف وہی کھا سکتا ہے جو اللہ کے نام پر ذبحہ کیا گیا ہو۔ حکومت کیلئے مسئلہ بن گیا کہ ان لوگوںکے لئے حلال فورڈ کہاں سے فراہم کیا جائے ۔جب یہ خبر برطانیہ کی معروف انسان دوست شخصیت سیدلخت ِحسنین شاہ تک پہنچی تو انہوں نے یہاں کی حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس کارِ خیر کرنے کیلئے تیار ہیںہے۔ان کی آفر قبول کر لی گئی ۔یوں اس وقت تک وہ اِس کیمپ میںتین لاکھ سے زیادہ لوگوں کو کھانا فراہم کر چکے ہیں ۔قارئین !سالز برگ میںمیری موجودگی کاسبب تو سمجھ میں آگیا ہوگا۔یہاں میرے علاوہ وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امورپیر امین الحسنات شاہ ، مسلم ہینڈکے ڈائریکٹر انٹرنیشنل افیر اورخدمت ِخلق کی بین الاقوامی شخصیت طارق نصیر ،معروف صحافی طاہر چوہدری ، سعید نیازی اورمبین چوہدری بھی موجود ہیں ۔
آسڑیا کی حکومت نے ہمارے وفد کاجس والہانہ اندازاستقبال کیااس سے اندازہ ہوا کہ مسلم ہینڈز نے کتنے شاندار طریقہ سے یہ کام کررہی ہے۔پہلے کیمپ کے اندر باقاعدہ تقریب ہوئی جس میںسالز برگ کی وائس میئر آئیں اس کے علاوہ پولیس ، فوج ، ریڈ کراس اور تقریباً ان اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی جو اس آپریشن کا حصہ ہیں۔ان میں جن لوگوں نے بہت معیاری کام کیا۔مسلم ہینڈز کی طرف سے باقاعدہ ایوارڈ دئیے گئے ۔
اس کے بعد دوسری تقریب گورنرہائوس میں جہاںوفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امورپیر امین الحسنات شاہ ، مسلم ہینڈ کے چیئرمین پیر سید لخت حسنین کے اعزاز میں گفتگو کی گئی اور انہیں تحائف پیش کئے گئے۔پھر تیسری تقریب منسٹر آفس میں ہوئی ۔جہاںمیں گورنر اور منسٹر آف ایجو کیشن ، منسٹر آف ریفوجیز، منسٹر آف کمیونٹز نے شرکت کی اس تقریب میں بھی تقاریر کے بعدپیر امین الحسنات شاہ کو منسٹر کی طرف سے تحائف پیش کئے گئے ۔
مسلم ہینڈز کے کام سے آسٹر یا کے حکام اتنے زیادہ متاثر تھے کہ وہ بار بار مسلم ہینڈز کا شکریہ ادا کرتے تھے ۔اور وہاں کام کرنے والے مسلم ہینڈز کے ورکرز کی تعریفیں کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔یہ بھی بہت بڑی بات ہے کہ مسلم ہینڈز ایک ایسی چیئرٹی آرگنائزیشن ہے جو آسٹریا کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔میں اس بات پر مسلم ہینڈز کے چیف پیٹرن پیر امین الحسنات شاہ کو اور اس کے چیئرمین پیر سید لخت حسنین شاہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
رات کو آسٹریا کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے مجھے جاوید انوریاد آیا۔اُس نے آسٹریا کی شہریت لے کر میرے لئے آسٹریا کو محترم بنا دیاتھا۔پھر اس کی موت یاد آئی ۔رک گئیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دھڑکنیں حرف کی لفظ مردہ ہوئے ۔سو گئیں جاگتی گھنٹیاں چرچ کی۔اک سپیکر سے اٹھتی اذاں گر پڑی۔ایک بہتا ہوا گیت جم سا گیا۔مرگئی نظم قوسِ قزح پر مچلتی ہوئی ۔دور تک سرد سورج کی کالی چتا۔ دور تک راکھ چہرے پہ مل مل کے آتی ہوئی ۔ایڑیوں سے اندھیرے اڑاتی ہوئی ۔کچھ نہیں چار سو۔تیرگی سے بھری دھول ہی دھول ہے ۔موت کے فلسفے کے شبستان میں ۔اک سدھارتھ صفت سو گیا خاک پر ۔رنگ پتھرا گئے ۔کرچیاں ہو گئیںبوتلیںخواب کی ۔بہہ گئی ارمغانِ حرم دشت میں۔ناگا ساکی سے میت اٹھی خیر کی ۔صبح ِ عیسی سے شام اپنی خالی ہوئی ۔ہوچی منہ سے نیام اپنی خالی ہوئی ۔گرپڑا لورکا بھی کلائی سے باندھا ہوا۔ساڑھے لینن بجے کے بجے رہ گئے ۔
چھوڑ منصور آفاق۔یہ ماتم خوانی کیسی ؟۔عراق ، یمن ، فلسطین اورشام سے لے کر پاکستان تک جوکچھ رہا ہے ۔اس پر آنسو مت بہا ۔درد کی انجمن میں بین مت کر ۔چل لختِ حسنین شاہ کے ساتھ چل ۔اور انسانیت کیلئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کر ۔جہاں برہنگی وہاں لباس پہنچا۔ جہاں بھوک مچلتی پھرتی ہے وہاںمن و سلویٰ کا بندوبست کر ۔جن کے سروں پر چھتیں نہیں ہیں ۔انہیں ٹین کی سہی چھتیں فراہم کر ۔جن کے پاس پینے کا پانی نہیں ۔انہیں تک صاف شفاف پانی پہنچا۔کوشش کر کہ کسی کی دھڑکنیں نہ رکیں ۔دشت میں ارمغانِ حرم اور نہ بہے ۔غربت کے خلاف جنگ جاری رکھ ۔ تھر میں مرتے ہوئے معصوم بچوں کی جان بچا۔آہ کیا یاد آگیا ہے ۔ تھرپارکر ۔درد کی یہ ہولناک داستان یاد آتی تو ہول آتا ہے دو سال پہلے میں علامہ سید ظفراللہ شاہ کے تھر گیا تھاآج بھی وہاں کا ایک ایک منظر آنکھوں میں جما ہوا ہے ۔وہاں کی ستر فیصد ہندو آبادی اتنی غریب ہے کہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔کسی بچے کے پاس اگر قمیض ہے تو شلوار موجود نہیں ۔بچوں کے پائوں میں جوتوں کا تصور ہی نہیں ۔گھروں میں لوگ سالوں میں ایک مرتبہ کبھی ایک بار سالن پکاتے ہیں ۔ہر سال قحط پڑتا ہے ۔ہرسال بچے مرتے ہیں ۔ اب پھر مررہے ہیں ۔
کہاں سے کہاں آگیا ہوں میں تو سالزبرگ کی سڑکوں پر آوارہ گردی کر رہا تھا۔جہاں دنیا کا سب سے بڑا آرٹ فیسٹول ہوا کرتا ہے ۔ہاںجی یہ سالز برگ ہے جہاں ہر شے سے آرٹ جھلکتا ہے مگراس وقت عمارتوں پر صرف برف پڑی ہوئی ہے ۔چاروں اورویران خاموشی ہے ۔ آسماں البتہ صاف ہے۔چاند نکلا ہوا ہے ۔چاندنی پھیلی ہوئی ہے ۔مگر جنوری کی اس برف بستہ رات میں چاند دیکھنے والا میرے علاوہ اور کوئی نہیں ۔چاند تو میرے دیس میں بھی نکلا ہواہوگا۔یقینا وہاں اسے دیکھنے والے بھی ہونگے ۔ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے جب پیر امین الحسنات کو مبارک دی کہ نواز شریف اور راحیل شریف کا دورہ کامیابی سے ہمکنار ہو چکاہے تو کہنے لگے ۔”بس دعا کرو کہ کہیں نظر نہ لگ جائے ۔سعودی عرب اور ایران کی دوستی سے پورے مشرق وسطی میں تبدیلی آئے گی ۔ پاک چین راہداری کے بعد پاک ایران کیس پراجیکٹ ہمیں اندھیروں سے نکالنے کیلئے کافی ہوگا۔مجھے تو ہمیشہ سے ان اندھیروں میں امید کا ایک چمکتا ہوا چاند دکھائی دیتاآرہا ہے ۔پاکستان زندہ باد”
جنرل راحیل شریف کوضربِ عضب اور کراچی آپریشن کی فیروزمندیوں پرتو میں کئی بار مبارک باددے چکا ہوں۔آج ان کے ساتھ ایک بات پر اظہارِافسوس کرنے کو بھی جی چاہ رہا ہے وہ ساتھ دہشت گردی کے نظریاتی محاذِجنگ کی مسلسل ویرانی ۔گذشتہ دنوں صدر مملکت ممنون حسین نے بھی یہی کہا ہے کہ اگر ہم نئی نسل کی دینی و ملی اقدار کے مطابق اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہو جائیںتو دہشت گردی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور میں انتہائی دل گرفتہ ہو کر کہہ رہا ہوں کہ ہم نے اِس راستے پر کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا۔بے شک موت بکھیرتے شجر کی سانپ دار شاخیں کاٹ دی گئی ہیں مگرتنے ابھی سلامت ہیں جن پر کسی وقت دوبارہ شبِ خونریز کے سنپولیے اگ سکتے ہیں ۔نظریاتی سطح پر کام نہ ہونے کے برابر ہوا ہے۔بے شک ایسی تمام کتابیں قابل ضبطی سمجھی گئی ہیں جو دماغوں میں زہر بھرتی ہیں۔جنہیں پڑھ کر آدمی بچوں کا قتل عام کرتے ہیں۔جس تعلیم سے معصومیت خود کش جیکٹیں پہن لیتی ہے مگر ان کتابوں کے لکھنے والوں کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ انہیں مدارس میں پڑھانے والوں سے کوئی پوچھ گوچھ نہیں ہوئی۔ بھٹکے ہوئوں کو راہ راست پر لوٹانے کیلئے بھی کوئی اقدامات نہیں کئے گئے بلکہ ابھی تک بے شمار مدارس میں وہ کتابیں زور وشور سے پڑھائی جا رہی ہے جس میں لکھا ہے کہ” مشرکین کے خلاف خود کش حملہ خود کشی نہیں شہادت کا عمل ہے” ۔
صرف مدارس اور یونیورسٹیوں میں نہیں ملک کے ہر ایک ادارے کے اندر ، حتیٰ کہ افواج ِپاکستان جیسے ادارے میںبھی خارجیت کی فکرابھی سلامت ہے ۔ہر جگہ جہاد کے نام پر انفرادی خونریزی کی تعلیم دی جارہی ہے ۔ اپنے پیر امین الحسنات شاہ کے والد گرامی اور عظیم مفسر قرآن پیرکرم شاہ کی کتابیں کہیں دکھائی نہیں دیتیں جنہوں نے ثابت کیا ہے کہ اسلام میں صرف دفاعی جنگ کی اجازت ہے ۔خود پیر امین الحسنات شاہ نے بھیرہ شریف میں اپنے مدرسہ کیلئے جو تعلیمی نصاب ترتیب دے رکھا ہے اگر اسی کوہی تمام مدارس میں پھیلا دیا جائے تومدارس کی حد تک بڑی آسانی سے یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے ۔اور اب تو وہ مدرسہ بھی بہت جلد یونیورسٹی میں بدلنے والا ہے ۔مجھے پورا یقین ہے کہ ایک دن یہ یونیورسٹی پاکستان میں الازہر یونیورسٹی کے مقابلے کی یونیورسٹی ہوگی مگرحکومت نے فکری سطح پر دہشت گردی کے معاملہ میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ بلی موجود ہی نہیںہے۔بالکل اسی طرح جیسے کل تک داعش کا پاکستان میں کوئی وجود ہی نہیںتھا۔حقیقت میں تو یہ کام اسلامی نظریاتی کونسل کا تھااسے چاہئے تھا کہ نظریاتی سطح پر دہشت گردی کے خلاف علمی اور تحقیقی کام کراتی اور اسلام کے وہ خدو خال کو نمایاں کرتی جن میں داتا گنج بخش ،معین الدین چشتی اور امیر خسرو جیسے جلیل و جمیل برگزیدہ چہرے دکھائی دیتے ہیںمگر اس کے برعکس اسلامی نظریاتی کونسل نے تنگ نظری کو فروغ دیا شدت پسندی کی ترویج کی ۔
جہالت کو دین بنانے کی سعی ء ناکام کی ۔اسلام کی غلط تشریح کرتے ہوئے عورتوں کے خلاف قانون سازی کیلئے قومی اسمبلی کوسفارشات بھیجیں۔اسلامی قوانین میںزنا اور زناباالجبر کے فرق کوتسلیم کرنے سے انکار کیا َ۔ایک موضوعی حدیث کو بنیاد بنا کر نوعمر لڑکیوں کی شادی کی اجازت دی ۔خود توہین ِرسالت کی اور الزام ماروی میمن پر لگایاحتی ٰ کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہاکہ ملک کا اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں، مسئلہ انسداد دہشت گردی ہے۔مولانا طاہر اشرفی کی قمیض کے ٹوٹے ہوئے بٹن اور بھی بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔مگر میں اُس سمت نہیں جانا چاہتا۔اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کیلئے ایک قرار داد سندھ اسمبلی نے بھی پاس کی تھی مگر ایک آئینی ادارہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل درآمد ممکن نہیں تھا ۔ ویسے اسے ختم کرنے کی نہیں بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس کی بہتری بہتر افراد سے ممکن ہے ۔ایسے افراد سے جو علوم اسلامیہ سے مکمل طور پر دسترس رکھتے ہوئے اس بات پر بھی یقین رکھتے ہوں کہ اسلام تلوار سے نہیں محبت پھیلا ہے ۔صوفیائے کرام نے جو غیر مسلموں کے محبت کی وہی وجود ِپاکستان کی اساس قرار پائی۔ یعنی ان کی برکتوں سے برصغیر میں اتنے غیر مسلم مسلمان ہوگئے کہ پاکستان بن گیا.
موجودہ حکومت کے پاس وفاقی وزیر مملکت پیر امین الحسنات شاہ کی صورت میں ایسی شخصیت موجود ہے جو پاکستان کو اس گرداب سے نکال سکتی ہے۔ اگر دہشت گردی کے خلاف کے نظریاتی جنگ کی سپہ سالاری ان کے سپرد کر دی جائے مکمل احتیار کے ساتھ ۔تومیرا یقین ہے کہ چند ماہ میں اِس محاذ پر بھی فتح کے پرحم لہرا سکتے ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل بھی انہی کے حوالے کر دی جائے بلکہ آئین میں ترمیم کرکے اس کونسل کو ہمیشہ کیلئے وزارتِ مذہبی امور کے ماتحت کردیا جائے ۔میرے نزدیک یہ موجودہ حکومت کی بدقسمتی ہے کہ اس نے ابھی تک پیر امین الحسنات شاہ جیسی شخصیت سے وہ کام نہیں لیا جو لیا جاسکتا تھا.
ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک خاص محفل میں سانحہ ماڈل ٹائون پر گفتگو ہورہی تھی۔ایک شخص نے کہا کہ” یہ مقدمہ 2018میں شروع ہوگا جب نون لیگ کی حکومت ختم ہوجائے گی ”۔دوسری طرف سے کسی نے کہا”نون لیگ پیر امین الحسنات کی صورت میں اِس کا توڑ موجود ہے ۔ان کی بات سننے سے ڈاکٹر طاہر القادری انکار نہیں کر سکتے ۔ وہ اپنے دروازے سے پیرکرم شاہ کے بیٹے کو خالی ہاتھ کیسے بھیج سکتے ہیں ۔سو قصاص ادا کر کے معاملات ختم ہوسکتے ہیں۔کسی نے سوال کیا کہ ”کیا پیر صاحب اس کام کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس جانے کیلئے تیار ہوجائیں گے” تو کسی طرف سے جواب آیا” یہ آئندہ اڑھائی سال پیر صاحب کے نون لیگ کی حکومت کے رویے پرمنحصر ہے۔ یقیناپیر صاحب کو اس بات کی تکلیف ہوگی کہ انہیںمذہبی امور کا وزیر مملکت بنایا گیا ہے اوران سے بہت کم درجہ کی شخصیت کو مذہبی امور کا فل وفاقی وزیر ۔”مگر وہ فقیر آدمی ہیں وہ درویش ہیں ۔انہیں وزارت دے دی گئی ہے ۔
مگر انہوں نے اسے اپنایا نہیں ۔کیا وزیر اس طرح کے فقیر جیسے وہ ہمارے ساتھ پھرتے ہیں ۔انہیں اس بات کی فکر ہے کہ شام سے آنے والے مہاجروں کو کھانا مل رہا ہے یا نہیں ۔جنابِ لخت ِحسنین کے ساتھ انہیں دیکھ طرح مجھے عجیب طرح کی خوشی کا احساس ہوا ۔لخت ِ حسنین بھی فقیر آدمی ہیں ۔اصل میں تو وہ صاحبزادہ سید لخت حسنین بخاری ہیں اور یہ اس شخصیت کا نام ہے جس نے معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے تباہ حال اور زندگی سے مایوس لوگوں کے چہروں پر خوشی کی کرنیں بکھیر دیں ۔ انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کیا۔ان کے خوابوں کی تعبیر کیلئے گلی گلی ،نگر نگر دریوزہ گری کی اور کسی صلے کی تمنا نہ کی۔مسلم ہینڈز کے سربراہ ہیں انہوں نے دنیا کے ساٹھ ممالک میں مسلم ہینڈزکے انتہائی زیرک ، چابک دست اور فعال کارکنوں کا ایک ایسا شاندار تنظیمی نٹ ورک قائم کیا ہے جس کی مثال کہیں اور کم ہی دکھائی دیتی ہے ۔میرے خیال میں مسلم ہینڈزبرطانیہ کی پہلی تین بڑی چیرٹیوں میں سے ایک ہے ۔اور انہوں نے اتنا بڑا نٹ ور ک کردار کی سادگی، بردباری ، مدد، مشورہ، دین کی سربلندی کا عزم ، انسانیت کا احترام،آگے کی سوچ ، دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا ، دھیما پن ۔ سخاوت اور مہمان نوازی کا جوہر بنایا ہے۔یہی جوہر انہیں بلندیوں کی طرف لئے جارہا ہے۔
وہ سوھدرہ کے بخاری سادات خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ خاندان پنجاب بھر میں مشہور ہے۔یہ خاندانی عزت و وقار جہاں انسان کے اندر بے شمار خوبیاں پیدا کرتے ہیں وہیں نخوت ، انا اور ظاہر پرستی کے مہیب سائے بھی شخصیت کا ایک لاحقہ بن جاتے ہیں مگر وہ ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں مریدین کی موجودگی کے باوجودعام آدمی ، علما قاری صاحبان ، حفاظ اور دینی مشائخ کے ادب واحترام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ان سے ملاقات کرکے انسان اپنے آپ کو چھوٹا نہیں محسوس کرتایہ بات الگ ہے کہ ان کی دھیمی دھیمی روزمرہ کی گفتگویارانِ نکتہ داں کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ان سے مل کر احساس ہوتا ہے.
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہونگے ، ہاں ! مگر ایسے بھی ہیں
mansoor afaq

