ریل گاڑی کیسے چلتی ہے . منصور آفاق
دیوار پہ دستک

ریل گاڑی کیسے چلتی ہے

ریل گاڑی کیسے چلتی ہے

اس نے کہا ”میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کانام ہے ”گھوڑا کیسے بھاگتا ہے“میں نے پوچھا ”کیا سیاسی گھوڑوںکی سرگزشت ہے“ ´کہنے لگا ”ہر شعبے کے گھوڑے اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔میری کتاب یک بھرپور علامت ہے۔اس کے ہر صفحے پر زندگی رواں دواں ہے اور پھر بزم میں موجود اہل دانش و بینش نے کتاب کے نام کا سہارا لے کر ایک پارٹی سے دوسری پارٹی جانے والے سیاست دانوں کے خوب لتے لئے ۔اپنی سیاسی وابستگیاں بدلنے والے میڈیا کے گھوڑوں کا ذکر بھی آیا۔وہ اسلامی گھوڑے بھی زیر ِ موضوع آئے ۔ جو کسی زمانے میں واشگٹن کے ساتھ ہوتے تھے ۔جنہوں نے روس کے خلاف امریکی جہادمیں بڑے بڑے معرکے سرانجام دئیے۔مگرجب واشنگٹن نے اپنا عقیدہ بدلا تو لمبے لمبے عماموں والے جہادِ خودکُش کے سفر پر نکلے ہوﺅں کے ہمرکاب ہوگئے ۔اب وہ گھوڑے وہاں سے بھی بھاگ رہے ہیں۔گھنٹہ بھر کی دماغ شکن بحث کے بعدجب صاحبِ کتاب نے کہا کہ اس نے تو صرف اُس کتاب کے ہر صفحے پر ”دگڑ دگڑدگڑ۔۔دگڑدگڑدگڑ“ لکھاہے۔تو بے ساختہ کسی نے اپنا خالی گلاس اُس کے سر پر دے مارا۔

یہ واقعہ مجھے اس وقت یادآیا جب ریلوے کے ایک اہم عہدے دار نے کہا کہ میں جانتا ہوں ”ریل گاڑی کیسے چلتی ہے “اور میرے ذہن میں ریل چلنے کی آواز گونجنے لگی ۔مجھے اُس کا یہ جملہ پوری کتاب محسوس ہوا۔ہر صفحے پرچھک چھک چھک لکھا ہوا نظر آنے لگا.

ریلوے جو دنیا میں محفوظ سفر کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔وہ پاکستان میں کس حال میں ہے ۔اس کا پتہ کس کو نہیں۔یہاں ریل کے حادثات میں سیکڑوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔زخمیوں کا تو شمار ہی نہیں۔ کوٹڑی کے مقام پرٹرین حادثے میں دو سو افراد لقمہ ءاجل بنے۔سکھرکے مقام پردوٹرینوں کے تصادم میں تین سوسے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ گھوٹکی کے مقام پر ٹرینوں کاتصادم یک سو بتیس افراد کے جاں بحق ہونے کاسبب بنا۔ محراب پورمیں کراچی ایکسپریس کی چودہ بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں اور پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔یہ تو وہ تعداد ہے جو صفحہ ءذہن پر محفوظ رہ گئی ہے۔

ریلوے کی دنیامیںپاکستان کے کریڈٹ پر بڑے بڑے عجیب و غریب واقعات ہیں۔مثال کے طور پرپچیس تیس سال پہلے ایک ریلوے کا انجن ریلوے لائن پر چلتا ہوا گم ہو گیا تھا۔ گمشدگی کی باقاعدہ ایف آئی آر کاٹی گئی تھی۔انجن کی تلاش میں کئی ٹیمیں ترتیب دی گئی تھیں جنہوں نے برسوں گمشدہ انجن کو تلاش کیامگر کوئی سراغ نہیں مل سکا۔سنا ہے تلاش کرنے والی ایک ٹیم نے عامل حضرات سے بھی رابطہ کیا مگر انہوں نے بھی معذرت کرلی تھی کہ جنات لوہے کے قریب نہیں جاتے ۔
ایک حیرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ ایک ریلوے انجن بے قابو ہو کر ایک مسجد میں داخل ہوگیا ۔راولپنڈی کی اس مسجد کو ریلوے انجن کی آمد سے خاصا نقصان پہنچا تھا پتہ نہیں انجن کو کچھ فائدہ ہوا یا نہیں۔شاید دوہزار چھ کی بات ہے جب ایک مجذوب سا آدمی ایک اسٹیشن پر کھڑی ہوئی ٹرین کے انجن میں داخل ہوا اور پھر ٹرین چل پڑی تقریباً پچاس میل کا فاصلہ طے ہو جانے کے بعد اس ٹرین کو روکا جاسکا۔اور ہاںصرف پاکستان میں ایک ایسا ریلوے ٹریک موجود ہیں۔جس میں ایک سمت سے ٹرین بجلی سے چلتی ہے دوسری سمت میں ڈیزل کے ساتھ۔اس ٹریک کو خانیوال لاہور سکیشن کہتے ہیں۔

ریلوے کی باتیں کرتے کرتے بچپن یاد آگیا ہے ۔ میں جب چھوٹا سا تھا توگھر والوں کے ساتھ میانوالی سے عیسیٰ خیل ریل گاڑی پر جایا کرتا تھا۔یہ بڑا عجیب سفر ہوتا تھا۔یہ چھوٹی سی ریل گاڑی ہوتی تھی ۔اس کی لائن بھی صرف اڑھائی فٹ چوڑی تھی۔وہ ماڑی انڈس سے شروع ہوتی تھی اور نبوں تک جاتی تھی ۔اتنی سست رفتار تھی کہ لوگ پہلے ڈبے سے اترتے تھے۔راستے کی کسی بیری سے بیر توڑتے تھے اور پھر بھاگ کر آخری ڈبے میں سوار ہوجاتے تھے ۔آہ ریلوے کا یہ سارا نظام بھی پلوں کی تعمیر میں کام آنے والے سریے میں تبدیل ہوگیا مگر پل پھر بھی زمیں بوس ہوتے رہے۔ٹرینیں پٹڑیوںسے اترتی رہیں۔ لوگ مرتے رہے۔کمیٹیاں بنتی رہیں ۔تحقیقات ہوتی رہیں۔بلٹ ٹرینوں کے نعرے لگتے رہے مگر ریلوے کا نظام بد سے بدتر ہوتا گیا۔

سانحہ گوجرانوالہ کے بعد بہتری کے امکانات کی ایک مبہم سے امید دکھائی دیتی ہے۔کیونکہ اس بار ریلوے کے حادثے مرنے والے صرف غریب غربے نہیں تھے ۔وگرنہ اپنی اشرافیہ کے نزدیک عوام کی موت کیڑوں مکوڑوں کی موت سے زیادہ اہم نہیں ۔وہ غریبوں کی طبعی اور غیر طبعی موت میں کوئی فرق نہیں سمجھتے۔چاہے کسی حادثے میں سینکڑوں لوگ مرجائیں مستعفی ہونا تو کجاکبھی کسی وزیر کان پربھی جوں نہیں رینگی۔بلکہ ہمارے وزیر تو ببانگ دھل ذمہ داری قبول کرتے ہیں اوروزارت نہیں چھوڑتے ۔ذمہ داری قبول کرنے کی ایسی مثالیں دنیا میں کہیں نہیں ملتیں۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اس حادثے میں مرنے والے کچھ اہم لوگ بھی تھے۔افواج ِپاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگ۔سو توقع کی جاسکتی ہے کہ ریلوے کی بہتری کےلئے وہ لوگ اپنا کردار ادا کریں گے جن کی کمانڈ راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے۔مگر صرف ایک ریلوے پر کیا موقوف ۔پورا ملک ہی اجتماعی اصلاح چاہتاہے ۔ہم کب تک ہر کتاب میں یہی پڑھتے رہیں گے ۔گھوڑا کیسے بھاگتا ہے ۔ ریل گاڑی کیسے چلتی ہے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے