
ایک دن سہیل وڑائچ کے ساتھ
ایک دن سہیل وڑائچ کے ساتھ
مجھے یہ سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ سہیل وڑائچ کون ہیں ۔وہ کہاں پیدا ہوا تھے کب پیداہواتھے میرے لئے یہی کافی ہے کہ سہیل وڑائچ ایک سچے انسان ہیں اور انسانوں کے اس عالمگیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے دل دھڑکتے ہیں ۔جن کی آنکھیں دوسروں کے درد پر نم ہوتی ہیں ۔جو ہمیشہ صبحوں کے خواب دیکھتے ہیں ۔جن کے قلم سے روشنی نکلتی ہے ۔
سہیل وڑائچ کے متعلق کچھ لکھتے ہوئے مجھے ایک چھوٹا سا بچہ گالف ریڈ مائر یاد آگیا ۔بہت سال پہلے بنجمن فرینکلن پر مختصر سے مختصر مضمون لکھنے کاعالمی مقابلہ فرینکلن لائبریری والوں نے منعقد کرایا تھاجس میں فرٹے دی سکاٹ کے مضمون کو سب سے بہتر قرار دیا گیااس میں بس یہی دوچار جملے تھے:.
’’میں تمام رات بنجمن فرینکلن پر مضمون لکھنے کی کوشش کرتا رہااور صبح اٹھ کر جب میں اپنے گھر کے لان آیاتو میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا گالف ریڈمائر ادھر ادھر بھاگتا پھر رہا ہے وہ اپنی مٹھی بند کرتا ہے اور پھر کھول دیتا ہے۔میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو ۔تو کہنے لگا۔ڈیڈ میں سورج کی شعاعوں کو قید کر رہا ہوں ۔سورج کی شعاعوں نے تو کب قید ہونا تھامگر میری سمجھ میں آگیا کہ بنجمن کی ہزار پہلو شخصیت پر کچھ لکھناسورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کرنے کے مترادف ہے۔میرا قلم رک گیااور میں نے قلم سے کالے نیلے کیے ہوئے رات والے تمام کاغذ پھاڑ دئیے ۔
سہیل وڑائچ پر کچھ لکھتے ہوئے چند لمحوں کیلئے مجھے یہی احساس ہوا کہ اِس سورج کی ہشت پہلو شخصیت پر کچھ لکھنا اس کی کرنوں میں مٹھی میں قید کر لینے کے مترادف ہے ۔وہ ایک باکمال نثر نگار ہیں۔ایک بے مثال صحافی ہیں ۔ ایک لاجواب اینکر پرسن ہیں ۔سیاسی تجزیوں میں حرفِ آخر سمجھے جاتے ہیں۔پاکستان کی سیاست پر ان سے زیادہ گہری نظر کسی اور صحافی نہیں۔انہوںنے ’’قاتل کون ‘‘ اور ’’غدار کون‘‘ جیسی لافافی کتابیں تاریخ کے سپرد کی ہیں۔وہ ایک اعلی درجے کا اداکاربھی ہیں ۔جس پر پی ایچ ڈی کا تھیسز ہوسکتاہے ۔انہوں نے جیسے اداکاری اور حقیقت یعنی اصل اور نقل کو آپس میں ہم آغوش کیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال کہیں نہیںملتی ۔مگر چند لمحوں کے بعد میں اِس کیفیت سے نکل آیا اورمیں نے سوچا کہ ایک اداکار یا ایک صحافی کی کیا حیثیت ہوتی ہے پاکستان میں کئی بڑے بڑے صحافی اور اداکار پیدا ہوئے اور مر گئے آج انہیں کوئی جانتا ہی نہیں۔پھر میں نے اپنی اِن دونوں کیفیات کا تجزیہ کیا ۔تو مجھے لگا کہ میرا پہلا تجزیہ ایک برطانوی شہری کا تجزیہ تھاجس کے نزدیک کسی کا بڑا صحافی یا بے کمال اداکار ہونا بہت بڑی بات ہے اور دوسرا تجزیہ اُس پاکستانی کا تجزیہ ہے ۔جس کا تعلق میانوالی سے ہے جس کی نظر میں اداکار یُ اُس بازار کوئی شے ہے اور صحافیوں کی مثال ان سگانِ آوارہ کی ہے جودکانِ اقتدار کے باہر ہڈیوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔یقین کیجئے مجھے کئی پاکستانی دوست سہیل وڑائچ کے متعلق کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ یار سہیل وڑائچ اپنے قلم کی تمام تر بڑائی اداکاری کے کھڈے میں کیوںپھینک رہے ہیں انہیں عزت راس کیوں نہیں آتی ۔ اور میں انہیں سمجھانے کی ناکام کوشش کرتا ہوں کہ عزت و ذلت کے یہ معیارجاہلیت کے سوا اور کچھ نہیں ہیں ۔اداکار ہونا بھی کسی طرح قلمکار ہونے سے کم نہیں۔
سہیل وڑائچ کو جاننے والے ان کے بارے میںکہتے ہیں کہ وہ رازوں بھراایساخزانہ ہیں۔جس کے دروازے پر خاموشی سانپ پہرا دے رہا ہے ان کے سینے میں نجانے کیا کیاموجود ہے ۔بے شک جس تحقیق اور جستجو سے سہیل ورائچ کام کرتے ہیں وہ انسانوں کو ان دیکھے خزانوں تک ہی لے جاتی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے سہیل وڑائچ کی ضخیم کتاب’’ قاتل کون‘‘ پڑھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ محترمہ کا قاتل کون ہے مگر پوری کتاب میں سہیل وڑائچ نے صرف حقائق بیاں کئے ہیں کوئی فیصلہ نہیں دیا کیونکہ فیصلہ دینا افتخار محمد چوہدری کا کام ہے اور قوم انتظار میں ہے ۔
سہیل وڑائچ کی ایک اور کتاب ’’غدار کون ‘‘بھی اس وقت عدالت عالیہ کے کٹہرے میں ہے ۔اگرچہ عوام فیصلہ دے چکی ہے مگر عدالت کا فیصلہ ابھی باقی ہے کہ غدار کون ہے ۔ پرویز مشرف اور یا نواز شریف ۔اگر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت فیصلہ ہوگیا تو عدالتی طور پر بھی یہ طے پا جائے گا کہ غدار کون تھا ۔ویسے اس بات کو امکانات بہت کم ہے ۔ میں نے اس کتاب کابہت گہری نظر مطالعہ کیا ہے اورتمام تر تحفظات کے باوجود سمجھتا ہوں کہ یہ وہ کتاب ہے جو نواز شریف کوایک لیڈر کی حیثیت سے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھے گی ۔
سہیل وڑائچ ان دنوں برطانیہ آیا ہوئے ہیں اور باہو اکیڈمی فار ہیومینسٹک انڈرسٹینڈنگ ﴿bahu﴾کا مہمان ہیں ان کے اعزاز میں کئی تقریبات رکھی گئی ہیں۔لندن میں اس کی میزبانی کے فرائض احسان شاہد نے ادا کرنے ہیں۔نوٹنگھم میں مسلم ہینڈ کے سربراہ لخت حسین نے اس کے اعزاز میںاستقبالیہ تقریب رکھی ہے۔بریڈفورڈ میں بریڈفورڈ جم خانہ کے اے ڈی انجم اور خواجہ وحید استقبال کا بندوبست کیا ہے ۔ مانچسٹر میں طاہر چوہدری کچھ بپا کر رہے ہیں ۔برمنگھم میں باہو اکیڈمی کے زیر اہتمام ’’ایک دن سہیل وڑائچ کے ساتھ ‘‘گزارا جائیگا ۔اس دن کا بندوبست پیرسلطان نیاز الحسن قادری اور پیر سلطان فیاض الحسن قادری نے کیا ہے ۔یقینا یہ ہفتہ جو اہل برطانیہ سہیل وڑانچ کے ساتھ گزار رہے ہیں ۔اس میں سہیل وڑائچ کو ہرطرف سے صرف پاکستان کے متعلق فکرمندی کی گفتگو ہی سنائی دیگی سوال ہی سوال ملیں گے ۔سلگتے ہوئے سوال۔میں انہی سوالوں پر اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں کہ سہیل وڑانچ صاحب یہ بتائیے کہ’’دھیرے دھیرے آگے بڑھتی ہوئی زندگی کا نام ہی پاکستان کیوںہے۔وہاں وقت کیوںپتھرایاہواہے۔زمین و آسماں کی گردشیں کیوں رکی ہوئی ہیں۔موسموں کے دریاکس لئے جمے ہوئے ہیں ۔بصارتوں میںکس نے سلائیاں پھیردی ہیں ۔ سماعتوں میںکس نے سیسہ بھردیاہے۔آوازوں میں کیوں سناٹے گونج رہے ہیں ۔ تعبیروں سے محروم خوابوں کے ہجوم کس لئے آنکھوں سے چپک کر رہ گئے ہیں ۔پاکستان کیوں مردہ منظروں کی ایک فلم بن چکا ہے۔ اڑتی ہوئی راکھ کے بگولے ۔فاسفورس بموں میں جلی ہوئی مسجدیں۔دورتک پھیلی ہوئی قبریں۔خودکش بمباروں کے طشت میں رکھے ہوئے سر۔چٹانوں پر کھدے ہوئے موت کے نقشِ پا۔نمازیوں کے چہروں کے خوفزدہ کتبے۔امید کے پرندوں کی کرلاہٹیں۔تپتی ہوئی ریت میں گم ہوتے ہوئے آسمان کے آنسو۔جمہوریت کے ایوانوں میں ہوتا ہوا پتلی تماشا۔کیوں یہی پاکستان کا ماضی اور حال بن کر رہ گیا ہے ۔سہیل وڑائچ صاحب مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کوئی امید کا چراغ چلائیے.
﴿یہ مضمون مسلم ہینڈ کے زیر اہتمام برمنگھم میں ہونے والی تقریب میں پڑھا گیا﴾
mansoor afaq

