دیوار پہ دستک

انٹرویو کے مقاصد

انٹرویو کے مقاصد

منصور آفاق

وہ جن کے کاندھوں پر ستارے چمکتے ہیں ان کی بے کراں حکمرانی کواکثر سیاست دان ظلمتِ شب سے تعبیر کرتے ہیں۔چونکہ انہی کے سبب پیپلز پارٹی کو تین مرتبہ اور نون لیگ کو دو مرتبہ اقتدار سے علیحدہونا پڑا ہے اس لئے وہ عسکری قیادت سے لاشعوری اورشعوری دونوں سطحوں پرمخاصمت رکھتی ہیں۔ان کے خیال میں لا محدود طاقت کے اِس وجود بوتل میں بند کئے بغیراصلی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔اپنی مرضی کے چراغ نہیں چل سکتے ۔نسل در نسل چلنے والی سلطنت قائم نہیں ہوسکتی۔ان کے سینوں میں افواجِ پاکستان کا بجٹ تیر کی طرح پیوست رکھتا ہے ۔انہیں کیوں نہ تکلیف ہوآخراتنی بڑی کا کمیشن ان کی دسترس سے باہر ہے۔اِسی بجٹ پر گفتگو کرتے ہوئے ایک بار خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ” افواجِ پاکستان نے قوم کی ہڈیوں سے گوشت تک اتار لیا ہے۔بھارت کے ساتھ ہونے والی پانچ جنگوں پر کمیشن بٹھایا جائے تاکہ ان پاکستان کا سر شرم سے جھک جائے ۔“ وہ جن دل میں منافرت کا الاﺅ روشن تھا انہیںوہ تقریر اتنی پسند آئی کہ خواجہ صاحب وزیر دفاع بنا دئیے گئے ۔پھر آصف علی زرداری نے وزیر دفاع سے ملتی جلتی کی تقریر کی ۔

اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا اعلان فرمایاتو اس اعلان انہیں توقع تھی بلکہ یقین پر صاحبانِ اقتدار انہیں کندھوں پر اٹھا لیں گے مگر سیلاب کا پانی اپنا رخ بدل چکا تھا۔ سوجب زرداریوں کے سردار نے مڑ کے دیکھا توپیچھے کوئی بھی نہیںتھا ۔شاید سب کو اپنی اپنی گرفت میں آنے والی غلطیاں یاد آگئی تھیں ۔بیچارے کیا کرتے ۔کچھ روز بحیرہ ٹاﺅن میںافسرہ ، ملول اور غمگین رہے۔غم غلط کرنے والے چاندبھی شاید کہیں سلاخوں کے پیچھے تھے۔مجبوراً دبئی سدھار گئے ۔اور اب واپسی کا سفر اتنا آسان نہیں۔اس واقعہ کے بعد یہ خیال کیا جانے لگا کہ اب عسکری قیادت اور جمہوری قیادت کی تصویریں ایک ہی فریم میں سج گئی ہیںیعنی حالات بہتری کی سمت جارہے ہیں۔

اور پھرنائین زیرومیں رینجرز کے داخل ہوگئے۔ ایم کیو ایم نے حکومت کو آواز دی۔مگر جواباًخاموشیوں کے شور کے سوا کچھ نہ سنا دیا۔ایم کیوایم اس شور کا یہی مفہوم لیا کہ حکومت افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے ۔پرریشان حال الطاف حسین نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی اور پھر انڈیا اورنیٹو کی فورسز کی طرف لگاوٹ بھری نظر سے دیکھا۔ بس دو بول کہے ۔اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف بول پڑے”پس ثابت ہو گیا ہے کہالطاف حسین دشمن کےلئے کام کررہا ہے“۔اس بیان سے ایک بار پھر حکومت اور افواج پاکستان میں مفاہمت دکھائی دی مگر اس کے ساتھ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اِس خوش فہمی کو زیادہ دیر فضا میں رہنے نہ دیا اور جنرل ظہیر اسلام اور جنرل پاشا کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے نون لیگ کی حکومت ختم کرنے کی سازش تیار کی تھی اورمراعات یافتہ قلم دیواریں کالی کرنے لگ گیا۔ یہ دھندلکا ذرا سا چھٹا تو ایم کیو ایم نے سورج کے سامنے دیوار اگا دی ۔یعنی اس کے ممبران ِ اسمبلی مستعفی ہو گئے ۔اور حکومتی ایوانوں میں چلنے والوں کی رفتار تیز ہوگئی ۔ممبران کو منایا جانے لگا۔فوراً الطاف حسین پھر سچے اور کھرے پاکستانی قرارپا گئے ۔نیٹو اور انڈیا کی باتیںبے مفہوم ہو گئیں ۔الطاف حسین کی لہکتی ہوئی آواز پھر نیوز چینلز سے سنائی دینے لگی ۔

مگرمعاملات بہتری کی سمت نہ پڑھ سکے کیونکہ افواج ِ پاکستان نے کراچی میں ہونے آپریشن کومحدود کرنے سے انکار کردیاہے۔بیچاری حکومت چکی کے دو پاٹوں میں آگئی ہے اگر ایم کیو ایم کے ممبران استعفے واپس نہیں لیتے تو حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکتی
اس کے بعدزیادہ امکان اِسی بات کا ہے کہ تحریک انصاف پختون خواہ کی اسمبلی توڑدے گی اورپنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائے گی کیونکہ عمران خان تو ابھی تک پُر یقین ہے کہ عام انتخابات دوہزار پندرہ کے آخر میں دوہزار سولہ کے شروع ہونگے۔سابق صدر آصف علی زرداری کا بھی یہی خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے استعفے مڈٹرم الیکشن پر منےج ہونگے ۔ دوسری طرف اگر نون لیگ کی حکومت افواج ِ پاکستان پر دباﺅ ڈالتی ہے وہ کراچی کے آپریشن میں ایم کیو ایم کے مجرموں کو گرفتارنہ کرے تو اس دباﺅ کا کوئی نتیجہ بھی برآمد ہوسکتا ہے ۔اِسی صورت حال سے نکلنے کےلئے مشاہد اللہ نے بی بی سی کو انٹرویو دیا ۔اس انٹرویوکے دومقاصد تھے ایک تو یہ کہ الطاف حسین کو یہ پیغام مل جائے گا کہ افواج پاکستان کے بارے میں جو تمہارے خیالات ہیں ہمارے بھی کچھ اُن سے مختلف نہیں۔دوسرا عسکری قیادت کسی حد تک دباﺅمیں آجائے گی۔کیونکہ حکومت دیکھتی آرہی ہے کہ اپنے خلاف ہونے والی گفتگو مسلسل عسکری قیادت بڑی صبر وتحمل سے سنتی چلی جا رہی ہے۔اس لئے حکومت کا خیال ہے کہ وہ مشاہد اللہ کے اس انٹر ویو کو بھی نظر انداز کردے گی کیونکہ وزیر اعظم کے ترجمان نے مشاہداللہ کے الزامات کی تردید کردی ہے۔خود مشاہد اللہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ بی بی سی میراانٹرویو سیاق و سباق کے ساتھ نشر نہیں کیا۔تازہ ترین خبر ہے ایم کیو ایم کو راضی کرنے کےلئے اسحاق ڈار مولانا فضل الرحمن کے گھرپہنچ گئے اور وہاں الطاف حسین کو منانے کےلئے لندن کا پروگرام ترتیب دیا گیاہے

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے