
بھینسوں کا سوئمنگ پول
بھینسوں کا سوئمنگ پول
سپریم کورٹ میں بتایا گیاکہ فوزیہ بہرام کو بھینسوں کا سوئمنگ پول بنانے کیلئے حکومت کی طرف سے کروڑوں روپے دیئے گئے جس پر عدالت عالیہ نے حیرت سے پوچھا کہ کیااب بھینسیں بھی سوئمنگ کیا کریں گی۔ یہ خبر سننے میں آئی ہے کہ لاہور میں بھینسوں نے ایک احتجاجی جلوس نکالا کہ قدرت نے ہمیں سوئمنگ کا فن سکھایا ہے۔تیرنا ہماری جبلت میں موجود ہے ۔کسی کو ہماری سوئمنگ پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ بھینسوں کی لیڈر نے باڑے میں جلوس کے اختتام پر تقریر کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گرمی کی شدت بہت زیادہ ہے سو فوری طور پر ہر شہر میں بھینسوں کے سوئمنگ پول تعمیر کرائے جائیں ۔اس جلسے میں فوزیہ بہرام کے حق میں نعرے بازی بھی کی گئی ۔
میانوالی سے بھی دوچار بھینسیں اس احتجاج میں شرکت کیلئے لاہور گئی تھیں ۔ان کی واپسی پر میں نے ایک بھینس کا انٹرویو کرتے ہوئے سوال کیا کہ ”آپ اس احتجاج میں کیوں شریک ہوئیں “تو اُس نے کہا ”میں جانتی ہوں کہ یہ مسئلہ صرف بڑے شہروں میں رہنے والی بھینسوں کا ہے۔ یہاں میانوالی میں بلکہ سارے دیہی علاقوں میں ابھی تک انسان اور بھینسیں ایک ہی پول میں سوئمنگ کرتے ہیں ۔”پکہ ہیڈ“ پر اور ”کچے“ کے علاقے میں کتنے بھینسوں کے سوئمنگ پول ایسے ہیں جہاں بچے بڑے سب سوئمنگ کرتے ہیں اور اس اشتراک پر کوئی کبھی معترض نہیں ہوا۔اکٹھے رہنے کی اور اکٹھے نہانے کی ایک اپنی خوبصورتی ہے ۔پہلے بڑے شہروں میں بھی مشترکہ سوئمنگ پول ہوتے تھے مگراب وہاں بھینسوں کی سوئمنگ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔لوگوں نے سوئمنگ پولز کے اردگرد اونچی اونچی دیواریں کھینچ دی ہیں کہ بھینسیں وہاں تک نہ پہنچ سکیں۔اتنی خوفناک گرمی اور اتنی ہولناک لوڈشیڈنگ میں لاہور کی بھینسوں کولاہور کی اکلوتی نہر میں بھی سوئمنگ کی اجازت نہیں ہے ۔ان دنوں آگ اگلتی دوپہر میں پانی کی کمی کی وجہ سے ہماری ”ناندیں “یعنی پانی والی کھرلیاں خالی پڑی ہوتی ہیں اور ہمارا ”گوتاوا“یعنی وہ مخصوص چارہ جس میں بھوسہ اور کھل بنولہ ملی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی روز بروز بد ذائقہ ہوتا جارہا ہے ۔اس میں بھی ملاوٹ شروع ہوگئی ہے ۔کیا یہ زیادتی نہیں ہے ۔یہ طبقاتی تقسیم زیادہ دیرتک برداشت نہیں ہوسکتی ۔فوزیہ بہرام زندہ باد“۔میں نے کہا”مگر بی بی سی کے مطابق تو فوزیہ بہرام نے کہا ہے کہ نہ وہ بھینسوں کا سوئمنگ پول بنانا چاہتی تھیں اور نہ ہی انہوں نے اس مقصد کیلئے سابق وزیراعظم سے کروڑوں روپے لئے ہیں“۔بھینس فوراً بولی ”مجھے لگتا ہے یہ ہمارے بھی خلاف کوئی عالمی سازش ہورہی ہے ۔دراصل تیسری دنیا کے لوگوں میں اوربھینسوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھااور اب بھی نہیں ہے مگر یہ جو پیٹ بھری ہوئی پہلی دنیا کے ایجنٹ اقتدار میں آگئے ہیں نا، انہوں نے یہ کوشش شروع کردی ہے کہ انسانوں اور بھینسوں کو الگ الگ کیا جائے مگر صرف غیر ملکی ایجنٹ اشرافیہ کو چھوڑ کر باقی تمام طبقے ہمارے اور زیادہ قریب آتے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم بھینسیں کپڑے نہیں پہنتیں ۔لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام کے کپڑے بھی اترتے جارہے ہیں اب پھر آدمی اور بھینسیں ایک جیسی ہوتی جارہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں تو کسی دور میں بھی بجلی کی ضرورت نہیں پڑی“۔
میں نے پوچھا”کیا آپ کے خیال میں بجلی نہیں ہونی چاہئے“۔اس نے اپنی موٹی موٹی آنکھیں گھمائیں اور کہا ”اگر پورے ملک میں بجلی پر پابندی عائد کردی جائے تو ملک کے آدھے مسائل حل ہوجائیں گے ۔بے روزگاری ختم ہوجائے گی وہ تمام کارخانے جو پہلے بجلی سے چلتے ہیں انہیں چلانے کے لئے زیادہ سے زیادہ افرادی قوت کی ضرورت ہوگی ۔امیر لوگوں کوپنکھے جھلانے کیلئے زیادہ خدام رکھنے پڑیں گے ۔ہاتھ سے بنے ہوئے پنکھوں کی صنعت کو فروغ ملے گا۔نئے نئے ڈیزائن کے پنکھے مارکیٹ میں آجائیں گے ۔لالٹین بنانے کی نئی فیکٹریاں لگائی جائیں گی ۔لوگ شہروں کے تنگ و تاریک مکانوں میں رہنے کے بجائے دیہی علاقے میں رہنا شروع کردیں گے ۔ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں کیلئے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں گے جس کی وجہ سے ماحولیات میں بہتری آئے گی ۔موبائل فون چارج نہیں ہوسکیں گے سو ان کی وساطت سے ہونے والی دہشت گردی ختم ہوجائے گی ،ٹیلی ویژن چلنا بند ہوجائیں گے اس سے بڑا فائدہ ہوگا لوگ بری بری خبروں اور برے برے تجزیوں سے محفوظ ہوجائیں گے ۔جلدی سوجانے کی عادت واپس آجائے گی لوگ صبح جلدی اٹھیں گے اور رات کو سکون سے اللہ کی عبادت کرسکیں گے“۔
میں نے ہنس کر طنزیہ کہا ”اس وقت لوڈشیڈنگ کی جو صورتحال ہے اسے دیکھتے ہوئے تو مجھے لگتا ہے کہ اہل اقتدار کو تمہارے مشورے پسند بھی آسکتے ہیں“۔ بھینس فوراً بولی ”حکومت میں ہماری جو بھینسیں شریک ہیں انہوں نے یہ مشورہ دیا ہے مگر اہل اقتدار نے اسے مکمل طور پرپسند نہیں کیا اور اندر کی بات تو یہ ہے کہ اب وہ سوچ رہے ہیں کہ اپنے محلات کو چھوڑ کر باقی تمام ملک میں بغیر بجلی کی زندگی کانیاتجربہ کر دیا جائے ۔انہوں نے اس مشورے پر اس حوالے سے بھی غور کیا ہے کہ اس طرح اِس ملکِ خداداد کو اِس چیختے دھاڑتے اور ناچتے گاتے ہوئے اور بین بجاتے ہوئے گناہ گار میڈیا سے بھی نجات مل جائے گی۔مجھے ذاتی طور پر یہ بات اس لئے بہت اچھی لگی ہے کہ اس سے انسانوں اور بھینسوں کے درمیان جو تفریق بڑھتی جارہی ہے وہ کم ہوجائے گی اور پھر سے انسان اور بھینسیں ایک ہی سوئمنگ پول میں سوئمنگ کرنے لگیں گے اور اس کے بعد نہ صرف یہ کہ کسی گوالے کو دودھ میں پانی ملانے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ بھینس کے آگے بین بجانے کانسلی تعصب سے بھرا ہوا محاورہ بھی لغت سے نکل جائے گا“۔
اس کے بعد وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے اپنی گمبھیر ڈکراتی ہوئی آواز میں کہا”اِس وقت ہم مساوات کے جس راستے پر چل پڑے ہیں مجھے وہ وقت قریب آتا ہوا نظر آرہا ہے جب اہل اقتدار کا تعلق بھی ہماری ہی برادری سے ہوگا“۔
mansoor afaq

