
یہودیت کی تاریخ
یہودیت کی تاریخ
منصور آفاق
تورات کی تفاصیل کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام 2200 ق۔م میں قصبہ ’اور‘ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام تارخ تھا آپ کی قوم بت پر ست تھی تارخ بت تراش تھا اور بت پر ستی میں زیادہ ذوق و شوق دکھانے کی وجہ سے اس کا لقب آذر پڑگیا تھا ۔ عبرانی زبان میں آزر کے معنی ہیں بتوں سے محبت کر نے والا کتاب پیدائش میں ہے کہ ” حضرت ابراہیم کا باپ خود آپنے بیٹوں ، پوتوں ، بہوﺅں کو لے کر ما ر ان میں جابسا (کتاب پیدائش باب ۱۱) پھر خدانے حضرت ابراہیم ؑ کو ماران چھوڑ کر کنعان چلے جانے کی ترغیب دی اور کیا ” میں تجھے ایک بڑی قوم بناﺅ نگا تیرا نام سر فراز کر و نگا سو تو باعثِ برکت ہو جو تجھے مبار ک کہیں ان کو میںبر کت دونگا جو تجھ پر لعنت کرے اس پر لعنت کر ونگا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے “ (باب۔ ۲۱) تلمود میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش کے وقت نجومیوں نے آسمان پر ایک خاص علامت دیکھی اور نمرود کو مشورہ دیا کہ تارخ کے ہاں جو بچہ پیدا ہو ا ہے اسے قتل کر دے چنانچہ نمرود حضرت ابراہیم ؑ کے قتل کے در پے ہوا مگر ”تارخ“ نے اپنے غلام کے بچے کو اپنا بچہ ظاہر کر کے اس کے حوالے کر دیا اور اپنا بچہ بچالیا پھر اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں چھپادیا وہاں جب ابراہیم دس سال کا ہوگیا تو اسے حضرت نو ح ؑ کے پاس بھیج دیا جہاں وہ تقریباً چالیس سال تک حضرت نو حؑ اور انکے بیٹے ” سام “ کی تربیت میں رہا ۔
جب حضرت ابراہیم ؑ کی عمر پچاس برس ہوئی تو وہ حضرت نو ح ؑ کا گھر چھوڑ کر اپنے باپ کے گھر آگئے انکی قوم بارہ مہینوں سے منسوب بارہ بتوں کی پوجا کر تی تھی باپ بت ساز بھی تھا اور مہا پجاری بھی پہلے تو حضرت ابراہیم ؑ والد کو سمجھا تے رہے لیکن وہ باز نہ آیا تو بتوں کو توڑ دیا ” تارخ“ نے اپنی مذہبی عقیدت سے مجبور ہو کر بیٹے کی شکایت ” نمرود“ سے کی اور اسے سارا واقعہ بتایا کہ کس طرح اس نے یہ بچہ چھپا دیا تھا اور ” نمرود“ کے حوالے غلام کا بچہ کیا تھا ” نمر ود “ نے حضرت ابراہیم ؑ کو بلا کر ان سے پوچھ گچھ کی انہوں نے سخت جواب دئیے ” نمرود “ نے انہیں جلِ بھیج دیا اور معاملہ کو نسل میں پیش کیا کو نسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈال دیا جائے ساتھ ہی انکے خسر ” ماران“ کو بھی آگ میں پھینک دیا گیا کیونکہ ” تارخ“ نے بتایا کہ اپنے بچے کو بچا کر غلام کا بچہ دے دینے کا مشورہ حاران ہی کا تھا ” حاران“ تو جل کر راکھ ہوگیا لیکن لوگوں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم ؑ آگ میں لیاقیت چل رہے ہیں نمرود نے بھی اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا تو پکارا ٹھا ” اے آسمانی خدا کے بندے آگ سے نکل آاور میرے سامنے کھڑا ہوجا “ پھر نمرود آپ کا مققد ہوگیا حضرت ابراہیم ؑ دوسال تک وہاں رہے پھر ” نمرود “ نے نہایت ڈراﺅ نا خواب دیکھا نجو میوں نے ”نمرود“ کو مشورہ دیا کہ ابراہیم ؑ سلطنت کی بتاہی کا موجب بننے والا ہے اسے قتل کر و آپ نے بھاگ کر حضرت نوح ؑ کے ہاں پناہ لی اس دوران آپ کا باپ ” تارخ“ چھپ کر آپ سے ملنے آیا کرتا تھا آخر باپ بیٹے کی یہ صلاح ٹھہری کہ ملک چھوڑ دیا جائے حضرت نو ح ؑ نے اور سامہ بن نوح نے بھی اس تجویز کو پسند کیا چنانچہ ” تارخ“ اپنے بیٹے ابراہیم ؑ اپنے پوتے اور ابراہیم ؑ کے بھتیجے لوط اور بہو سارہ کو لے کر ”ماران“ چھوڑدیا (منتخبا ت تالموداز اِچ پولاز ۔ لندن 30 تا 40)اس خاندان نے فلسطین کے مغربی اطراف میں کنعا نیوں کے زیر ِ اقتدار علاقوں میں شکیم کے مقام پر رہائش اختیا ر کر لی ۔
تورات کے بیان کے مطابق وہاں سے ابراہیم ؑ اپنی بیوی سارہ کے ساتھ مصر جا پہنچے مصر یوں نے اور فر عون کے رﺅ ساءنے سارہ کے دیکھا تو اس کے حسن سے متاثر ہوئے ابراہیم ؑ نے کہ دیا کہ وہ عورت انکی بہن ہے اس پر فر عون نے سارہ کو اپنے قبضہ میں کر لیا اور ابراہیم ؑ کو بہت سے مویشی دئیے فرعون کے اس فعل پر خدا وند نے اس پر اور اسکے اہل خاندان پر سختیاں نازل کیں اور فرعون نے ابراہیم ؑ کو بلا کر کہا تم نے اپنی بیوی کو بہن بتا کر ٹھیک نہیں کیا میں تو اسے بیو ی بنا لینے پر آمادہ ہوگیا تھا اب اپنی بیوی کو لے اور چلا جا اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عمر اسی سال اور حضرت سارہ کی عمر ستر سال تھی حضرت ابراہیم ؑ کے اس وقت دوسری بیوی کو پہلی بیوی کا فر مانبر دار ہو کر رہنا پڑتا تھا اس لئے شاہِ مصر نے کہا ” میری بیٹی کا اس گھر میں لونڈی بن کر رہنا دوسرے گھر میں ملکہ بن کر رہنے سے بہتر ہے “ حضر ت ابراہیم ؑ کی عمر چھیاسی برس تھی جب حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے تورات میں ہے کہ حضرت سار نے حضرت ہاجرہ ؓ کو معلوم جگر گوشہ اسمعٰیل کے ساتھ خانہ بدری کا حکم دیا اور حضرت ابواہیم ؑ انہیں ، وادیِءمقدس میں چھور آئے ۔ جب ابراہیم ؑ سو برس کے ہوئے تو خدانے آپ کو حضرت سارہ کے بطن سے دو سرا فرزند عطا کیا جس کا نام اسحاق ؑ رکھا گیا ۔ یہودی مو ر خین کی روایت اب بیت المقدس کہتے ہیں اپنی بیوی سارہ اور بیٹے اسحاق ؑ کو لے کر فلسطین میں اس مقام پر آباد ہوئے جسے ایک کا نام عیسو رکھا گیا اور دوسرے کا نام یعقوب حضرت اسحاق ؑ عیسو سے محبت کر تے تھے اور آپ کی بیوی رفقہ کوہی عبرانی میں اسرائیل کہا جاتا تھا اسرا کے معنی بندہ اور ایل کے معنی اللہ اس لئے اسرا ئیل کے معنی ہوئے اللہ کا بندہ بارہ بیٹے ہوئے جن سے آگے بارہ قبیلے ہوئے جنہیں بنی اسرائیل کہتے ہیں ۔ ” زبور “ کی روایت کے مطابق حضرت یعقوب ؑ نے تلوار اور کمان کی مدد سے ” کنعا ن“ کا علاقہ فتح کیا ۔
حضرت یعقوب کے بیٹے حضرت یوسف ؑ نے خواب میں دیکھا کہ گیا رہ ستارے ، چاند اور سورج انہیں سجدہ کر رہے ہیں جس کی تعبیر یہ لی گئی کہ اسکے گیارہ بھائی ماں اور باپ اس کا پورا احترام کر یں گے تو رات میں ہے کہ ” حضرت یعقوب ؑ نے خواب سن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا ’ اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے بھائی سب تجھے سجدہ کر یں گے “ (تورات، کتاب پیدائشی باب ۷۳) بھائیوں نے حضرت یو سف ؑ کو کنوئیں میں پھینک دیا جہاں سے سو داگروں نے آپ کو نکلا اور مصر کے بازار میں بیچ دیا وہا ں اپنی پاک دامنی اور معاملہ فہمی اور تدبر کے باعث وہ بلند مر اتب ہوگئے اور آخر میں اقتدار کے مالک ہوئے بنی اسرائیل کو عزت اور احترام حاصل ہوا لیکن حضرت یو سف ؑ کی وفات کے بعد وہ اہلِ مصر کی اصنام پر ستی کا شکار ہو گئے اس حالت میں چار سو تیس بر س گزر ے انکی تعداد چھ لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہوگئی مصر کا تمدن ترقی یافتہ تھا ممی سازی تعمیر اہرام کا غذی صنعت اور تحریر و تعلیم کو انہوں نے کمال تک پہنچا دیا تھا مگر بنی اسرائیل اپنے آپ کو اس تمدن میں نہ ڈھال سکے حضرت یوسف ؑ کی وفات کے بعد ہی انہیں فراعنہ ئِ مصر کے دربار سے ہی نہیں شہر ی تمدن سے بھی نکال دیا گیااور وہ گڈرئیے بن کر زندگی بسر کر نے لگے لیکن ان کے ذہنوں میں یہ فخر و ناز اور احساس ِ بر تری موجود رہا کہ وہ پیغمبروں کی اولاد ہیں مصر یوں نے جب دیکھا کہ بنی اسرائیل کو تعداد بڑھتی جارہی ہے اوریہ نسلی تفاخر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو مصر ی تمدن میں اور مصر ی قومیت میں ڈھال لینے پر آماد ہ نہیں تو انہیں خطرہ پیدا ہو ا کہ کہیں یہ منظم بغاوت نہ کر دیں یا دشمنوں کے حملہ کی صورت میں بیر ونی حملہ آوروں کا ساتھ نہ دیں تو فرا عنہ ئِ مصر کو یہ مشورہ دیا گیا کہ ان کے بیٹے قتل کئے جائیں اور انکی عورتیں لو نڈویاں بنا کر مصر یوں میں بانٹ دی جائیں لیکن رﺅ سائے مصر نے اسکی مخالفت کی اور کہا کہ اگر ان کے بیٹے قتل کئے جانے لگے تو ہمیں غلاموں اور مزدوروں کی فوجیں کہاں سے ملینگی پس یہ فیصلہ ہوا کہ ایک سال چھوڑ کر قتل کئے جائیں کہتے ہیں کہ حضرت ہارون ؑ چھوڑے جانے والے سال میں پیدا ہوئے اور حضرت مو سٰی ؑ قتل کئے جانے والے سال میں پیدا ہوئے ۔ بعض روایات میں ہے کہ فر عونِ مصر نے خواب میں ایک شعلہ اٹھتا دیکھا جس نے مصر کو لیپٹ میں لیا اور قبطی یعنی مصر قوم کو ختم کر دیا کاہنوں نے تعبیر بتائی کہ سبطی قوم (یعنی نبی اسرائیل)میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو اسوقت کے فرعونِ مصر کے زوال کا باعث ہوگا اس لئے اس سال پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کر دینے کا حکم دیا گیا اللہ نے حضرت موسٰیؑ کو بچانا تھا انکی والدہ نے انہیں صندوق میں رکھ کر دریا میں بہا دیا اور یہ صندوق فر عونِ وقت شہنشاہ رمیس ثانی کے شاہی محل کے غلاموں نے پکڑا اور فر عون کی بیوی آسیانے بچے کی پر ورش اپنے ذمہ لے لی چونکہ بچہ دریا سے حاصل کیا گیا تھا اس لئے مصری قبطی زبان میں اسے ” مُوشیئہ “ کہا گیا جس کے معنی ” طفل ِ دریا“ یہی ” مو شیئہ “ ہے جو ” موسیٰ “ بن گیا ۔ موسٰی ؑ کی محل میں پر ورش و تر بیت ہوئی چونکہ اسے دودھ پلا نے والی اسکی اپنی ماں تھی اس لئے اس نے بچے پر تنہائی میں سارا راز کھول دیا ہوگا اس لئے موسٰی ؑ اپنے قومی بھائیوں کی ذلت پر اندر ہی اندر بہت کڑھتے تھے ایک روز ایک مصر کو غریب سبطی مزدور پر بیجا سختی کر تے ہوئے دیکھ کر برداشت نہ کر سکے اور غصہ میں اسے مکہ مارا جو اتفاق سے ایسی جگہ پر لگا کہ اسکی موت واقع ہوگئی شہر میں ہا ہا کار مچ گئی ایک سبطی کے لئے قبطی کا رما ر ا بہت بڑا جرم سمجھا گیا مو سٰی ؑ سینا ءمیں روپوش ہوگئے اور ارض مدائن پہنچ گئے جہاں آپ کی شادی حضرت شعیب ؑ کی صاحبزادی سے ہوئی اور دس برس خدمت کرنا حق مہر ٹھہرا گیا رھویں برس اپنی بیوی کو لے کر مصر آرہے تھے کہ جب وادیئِ سینا میں پہنچے تو تاریک رات کی خنکی میں آگ کی ضرورت پیش آئی آپ نے طور پرشعلہ بھڑکتے دیکھا اور آگ لینے چلے گئے وہاں آپ کو نبوت سے سر فراز فر مایا گیا ۔ فرعون کی دربار میں اعلان ِ نبوت کیا اور طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لائے بنی اسرائیل نے بیابان شور سینا میں قدم رکھا تو گرمی اور پیاس کی شدت سے گھبرا گئے اللہ کے حکم سے حضرت موسٰیؑ نے عصا پہاڑ پر مارا تو بارہ چشمے پھوٹ بہے جن سے ہر قبیلہ الگ الگ پانی لے سکتا تھا کھانے کے لئے ان پر من وسلوٰی ناز ل ہوتا رہا ۔ پھر حضرت موسٰی ؑ کو اللہ نے کوہِ طور پر طلب کیا تاکہ آپ کو شریعت عطا کی جائے اپنی قوم سے تیس دن کی معیاد مقرر کر کے طور پر گئے وہاں دس دن اور قیام کر نا پڑا آپ کو تورات عطا کی گئی جس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے ۔ کہ ہر حکم پر ” الواح“ پر لکھا ہوا تھا آپ ادھر طور پر تھے اور ادھر قوم نے گﺅ سالہ پر ستی شروع کر دی واپسی پریہ حال دیکھا تو اپنے بھائی ہارون پر ناراض ہوئے تورات کے مطابق گﺅسالہ کی پر ستی کی سز اکے طور پر تین ہزار اسرائیلیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔
بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی انہوں نے عہد کیا کہ وہ یہواہ (خدا) کے احکام پر عمل کر یں گے زکوٰة دیں گے اور خدانے وعدہ سنایا کہ وہ انہیں ارضِ موعود میں پہنچائیگااور اپنی نعمتوں سے سر فراز فرمائیگا اس بیعت اور یقین دہانی کے بعد موسیٰ ؑ نے قبہ ئِ عبارت اور تابوت ِ شہادات بنانے کا حکم دیا گیا تو رات کے مطابق ایک چلتا پھرتا ہیل تیار کیا گیاجو یہواہ کا گھر تھا بارہ قبائل کے سردار اسے آگے آگے لے کر چلتے سر پر بادلوں کا سایہ ہوتا اور وہ تورات کی آیات گاتے ہوئے بڑھتے گئے حتیٰ کہ ارضِ کنعان کے قریب پہنچ گے یہاں صحرا ختم ہونے لگا اور سر سبز وادیاں سامنے آنے لگیں خود روانان ، ہر ے بھرے درخت، پھل پھول اور پانی کے ذخیرے دیکھ کر دومسرور شاداں ہونے لگے انہوں نے پہاڑیوں کے دامن میں خیمے نصب کئے اور ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان چُن کر ارضِ موعود میں موجود حکومتِ کفار کی جاسوسی کے لئے روانہ کیا چھ ہفتوں کے بعد یہ جاسوس پلٹے وہ یہ معلومات لے کر آئے کہ زمین بڑی زرخیز اور شاداب ہے پھل بافراط پائے جاتے ہیں زمین پر دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں لیکن وہاں کے باشندے جنات کی طرح قد آور اور توانا و مضبوط ہیں جن کا مقابلہ اسرائیل کےلئے ممکن نہیں شہر وں کے گرد بڑی بڑی سنگین فصیلیں ہیں جنہیں سر کرنا آسان نہیں بنی اسرائیل کی فطری بزدلی عود کرآئی وہ سمجھے تھے کہ ان کے خدانے ان سے جس سرزمین کا وعدہ کیا ہے وہ انہیں بغیر کوشش کے مل جائے گی وہ کہنے لگے اگر انہیں جنگ کرنا تھی اور لڑنا مر نا تھا تو ان مصریوں سے لڑتے جنہوں نے انکے بچے ماﺅں کی گود سے چھین چھین کر قتل کئے حضرت موسٰی ؑ نے انہیں بہتر ا سمجھا یا کہ ہمت سے کام لیں خدا کی بشارت ہے کہ فتح انہی کو حاصل ہو گی مگر مصریوں کی غلامی نے ان میں بزدلی اور کم ہمتی کو ٹ کوٹ کر بھری دی تھی اس لئے کہنے لگے اے موسٰی ؑ کیا تو ہمیں مصر سے اسی لئے نکال لایا تھا کہ ہم دشمنوں کے تیروں تلواروں کا نشانہ بن جائیں اور ہمارے بیوی بچوں کو اہلِ کنعان اپنا غلام بنا لیں “ رات بھر وہ اس بزدلی کے ہاتھوں لرزتے رہے صبح کعنائیوں نے حملہ کر دیا ۔ وہ مقابلہ کر نے کے بجائے بھاگ کھڑے ہوئے اور صحرا میں پناہ گزین ہوئے خدا نے موسٰی ؑ کی زبانی انہیں یہ سزا سنائی کہ اب وہ ارضِ مقدس و موعود چالیس سال تک ان پر حرام ٹھہرادی گئی اور یہی صحرانوردی انکا مقدر ہوگئی یہ چالیس سال حضرت موسٰی ؑ نے توبہ و استغفار میں گزارے بنی اسرئیل صحرائے سینا میں مارے مارے پھر رہے تھے اور حضرت مو سٰیؑ ان کے پیچھے پیچھے مغفرت کی دعائیں مانگتے پھر رہے تھے (جاری ہے )
mansoor afaq

