نظم مر گئی ہے​ . منصور آفاق
دیوار پہ دستک

نظم مر گئی ہے​

نظم مر گئی ہے

﴿جاوید انور کیلئے)

رک گئیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں
دھڑکنیں حرف کی
لفظ مردھ ہوئے
سو گئیں جاگتی گھنٹیاں چرچ کی
اک سپیکر سے اٹھتی اذاں گر پڑی
ایک بہتا ہوا گیت جم سا گیا
مرگئی نظم
قوسِ قزح پہ مچلتی ہوئی
دور تک سرد سورج کی کالی چتا۔۔۔ دور تک
راکھ چہرے پہ مل مل کے آتی ہوئی
ایڑیوں سے اندھیرے اڑاتی ہوئی
کچھ نہیں چار سو۔۔۔تیرگی سے بھری دھول ہی دھول ہے
موت کے فلسفے کے شبستان میں
اک سدھارتھ صفت سو گیا خاک پر
رنگ پتھرا گئے
کرچیاں ہو گئیں بوتلیں خواب کی
بہہ گئی ارمغانِ حرم دشت میں
ناگا ساکی سے میت اٹھی خیر کی
صبح ِ عیسیٰ سے شام اپنی
خالی ہوئی
ہوچی منہ سے نیام اپنی خالی ہوئی
گرپڑا لورکا بھی
کلائی سے باندھا ہوا
ساڑھے لینن بجے کے بجے رہ گئے

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے